سبز پاسپورٹ، ترک اہلکار اور پاکستانی مسافر


سبز پاسپورٹ کو دیکھتے ہی اور پاکستان کا نام سنتے ہی ان کی آنکھوں کی پیشہ ورانہ سختی اک ہی لمحے میں برادرانہ محبت میں بدلی اور ان کے پیشہ ورانہ لہجے میں اک اپنائیت سی در ائی۔ بڑی محبت سے اس نے کہا کہ آپ اپنا دستی سامان اور لانگ شوز اس ٹرے میں رکھ دیں۔

استنبول کا اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈا سیاحوں اور مسافروں سے بے انتہا آباد سا تھا۔ جہاں دیکھو مختلف تہذیبوں، جغرافیائی خطوں، زبانوں اور نسلوں کی نمائندگی کرتے کوئی خوش باش، کہیں تھکے ہوئے مسافر بیٹھے اور یہاں وہاں اتے جاتے لوگ نظر ارہے تھے۔

بڑے ریلوے اسٹیشن اور بین الاقوامی ہوائی اڈے چوبیس گھنٹوں میں سے اکثر اوقات اپنے اندر بہت سے ہجوم سمائے رکھتے ہیں اور خاص بات اس ہجوم کا اک دوسرے سے مختلف اور اجنبی ہونا ہوتا ہے کہ مختلف رنگ و نسل، زبان، علاقے اور تہذیب کے لوگ صرف سفر کے مقصد سے وہاں اس طرح جمع ہوتے ہیں کہ الگ الگ رہتے ہوئے ہجوم بن جاتے ہیں۔

اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈا بلاشبہ ایک خوبصورت، وسیع وعریض اور اک تہذیب کی علامت کے طور پر سجا بنا اور ہر اک گوشہ گویا توجہ طلب سا ایسا مقام تھا جو دل میں اس جگہ کچھ وقت گزارنے کی خواہش پیدا کرتا تھا۔

ان وقتوں میں استنبول کے انوکھے اور تاریخی شہر میں دو بین الاقوامی ہوائی اڈے تھے۔ اتا ترک بین الاقوامی ہوائی اڈا اور صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈا۔ صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈا تو ابھی بھی اسی طرح کام کر رہا ہے۔ مگر چھ اپریل دو ہزار انیس سے اتا ترک بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تمام تجارتی مسافر پروازیں نوتعمیرشدہ استنبول بین الاقوامی ہوائی اڈے پر منتقل ہوگئی ہیں۔ اب اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈا صرف کارگو اور بزنس فلائٹ اپریشن، مینٹی نینس اور ایئرٹیکسی کے مقاصد کے لیے استعمال ہورہا ہے۔

ہمارا ترکی سے واپسی کا سفر شروع ہونے والا تھا اور ترکش ایئرلائنز کی استنبول سے کراچی جانے والی پرواز سے پہلے کے مراحل کی تکمیل کے لیے ایک طویل قطار میں کھڑے رفتہ رفتہ آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری تھا۔

دنیا کے ہر اک ائرپورٹ پر نائن الیون یعنی نو ستمبر دوہزار ایک کے نیویارک میں ٹوئن ٹاور سے جہاز ٹکرانے کے حادثات کے بعد حفاظتی اقدامات میں ضرورتا شدت اور تبدیلی اچکی ہے اور احتیاط کے تقاضے پہلے سے زیادہ بڑھ چکے ہیں۔

مگر جنوری دو ہزار بارہ کا اتا ترک بین الاقوامی ہوائی اڈہ ابھی بھی اک دلبرانہ حفاظتی حصار میں ملفوف تھا جو تھا مگر اک نہ نظر انے والے، ہر لحظہ موجود حفاظتی حصار کے اندر۔ لیکن کچھ مقامات پھر بھی اک باملاحظہ اور عیاں سے حفاظتی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں تو بورڈنگ کارڈ لینے کے بعد مسافروں کو ائرپورٹ لاؤنج میں داخل ہونے کے مرحلے پر ایک بار سخت اور ضروری قسم کی حفاظتی تلاشی سے گزرنا لازم تھا۔ یونیفارم میں ملبوس ترک جوان اک پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ایک نہ ختم ہوتی سی لگنے والی مسافروں کی قطار کے ساتھ تلاشی کے کام میں مشغول تھے اور جیسا کہ حفاظت کے پیشہ سے وابستہ لوگوں کے انداز میں اک پیشہ وارنہ سختی جھلکتی ہے ویسی ہی ان کی تیز نگاہوں اور انداز سے جھلکتی تھی جو ناگوار محسوس نہیں ہو رہی تھی بلکہ مسافروں میں اک اعتماد کا احساس بیدار کررہی تھی۔

ہمارے آگے ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے تعلق رکھنے والے دو مسافر ائرپورٹ لاؤنج میں داخل ہونے سے قبل تقریباً آخری تلاشی کے عمل سے گزر رہے تھے۔ تربیت یافتہ مستعد اور تجربہ کار ترک سیکیورٹی اہلکار اک پیشہ ورانہ مستعدی کے ساتھ یہ فرض سرانجام دے رہے تھے۔

مسافروں کے ہاتھ میں موجود دستی سامان، چھوٹے سوٹ کیس، ہرقسم کے بیگ، موبائل فون، لیپ ٹاپ، بیلٹ، پرس اور جوتے خصوصاً لانگ شوز کو اتار کر باسکٹ میں رکھ کر برابر میں الیکٹرانک چیکنگ مشین سے گزرانے کے لیے کہا جا رہا تھا اورمشین سے گزرنے والے سارے سامان کی تفصیلات اسکرینوں کے سامنے بیٹھے ترک سیکیورٹی افیسرز کی نگاہوں کے سامنے تھی کہ کسی بھی قسم کے مشکوک یا پابندی کے زمرے میں آنے والے سامان کو تفصیلی چیکنگ کے لیے الگ کیا جاسکے۔

قطار آہستہ آہستہ اگے کی جانب سرک رہی تھی۔ جن مسافروں کی ذاتی اور دستی سامان وغیرہ کی تلاشی کا عمل مکمل ہورہا تھا وہ حفاظتی دروازے کو عبور کرکے پسنجر لاؤنج میں داخل ہورہے تھے۔

آخرکار قطار میں ہم سے پہلے موجود دو امریکن مسافروں کا نمبر اگیا اور ترک اہلکار نے ان سے پیشہ ورانہ خوش اخلاقی سے ان کا دستی سامان، پرس، بیلٹ اور جوتے وغیرہ باسکٹ میں رکھ کر الیکٹرانک چیکنگ مشین کی مسلسل متحرک لمبی سی بیلن نما سلاخوں پر رکھنے کے لیے کہا جن کے گھومنے سے ان پر رکھی گئی باسکٹ یا سامان آگے کی جانب حرکت کرتا ہوا الیکٹرانک چیکنگ مشین کے اندر کی جانب داخل ہوکر دوسری جانب سے اسی طرح کی متحرک آہنی سلاخوں پر جا رہا تھا جہاں سے سیکیورٹی کلیئرنس عبور کرنے والے مسافر اپنا سامان اٹھا رہے تھے۔ اب ہمارا نمبر آ گیا تھا۔ ہم نے ایک ہاتھ میں اپنے سبز رنگ کے پاسپورٹ لئے ہوئے تھے اور دوسرے ہاتھ میں دستی سامان۔

سبز پاسپورٹ دیکھ کر اور پاکستان کا نام سنتے ہی ان کی آنکھوں کی پیشہ ورانہ سختی اک ہی لمحے میں برادرانہ محبت میں بدلی اور ان کے عام سے پیشہ ورانہ لہجے میں اک اپنائیت سی در ائی۔ بڑی محبت سے اس نے کہا کہ آپ اپنے لانگ شوز اس ٹرے میں رکھ دیں۔

یہ سارا عمل لمحوں میں مکمل ہو رہا تھا اور پیچھے موجود اک بہت لمبی سی قطار میں کھڑے ان گنت مسافروں کی تعداؤ کی وجہ سے سیکیورٹی اقدامات میں کسی بھی قسم کی غیر ضروری تاخیر نہیں کی جارہی تھی۔

مگر ان تھوڑے سے لمحوں اور ڈیوٹی کی مجبوری کے تقاضوں کی وجہ سے طویل بات نہ کرسکنے کے باوجود ترک سیکیورٹی اہلکار کے لہجے میں اجانے والی اپنائیت نے گویا ان لمحوں کو مری یاداشت میں امر کر دیا۔

آج بھی جب اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں اور اس ترک نوجوان کی سبز پاسپورٹ دیکھ کر انکھوں میں برادرانہ محبت کی لہر اور اس کے لہجے میں پاکستان کا نام سن کر یکایک در انے والی اپنائیت یاد آتی ہے تو جیسے وجود میں اک سکون سا اترنے لگتا ہے اور ترکی میں گزرے ہوئے شب و روز کی بہت سی یادوں میں یہ ایک مہکتی یاد ابھر کر آنکھوں کے سامنے اجاتی ہے اور جیسے مرے اطراف میں پھولوں کی مہک سی پھیل جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments