ہم سب کے مدیر کے نام کھلا خط!


محترم مدیر،

ہمارا تیکھے پن کا شوق کچھ یوں ہے کہ چھٹتی نہیں یہ کافر منہ سے لگی ہوئی۔ چلیے، اتنا فائدہ تو ہوا کہ ہمارے کالم پہ آپ کے لعل وگوہر کی عنایت ہوئی۔

 ہم نے اب تک “ہم سب” پر ایک سو پچانوے کالم لکھے اور آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ستر فیصدی کالم ہم نے جھوٹے سماجی رویوں کا نقاب نوچتے ہوئے لکھے ہیں۔ سماج اور معاشرت کا زہر عورت کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے، یہ ہم سے زیادہ کون جانتا ہے؟ جب عورت اپنی جسمانی تکلیف بتاتے ہوئے بھبھک بھبھک کے رو دیتی ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا نہیں جسے وہ اپنی روح پہ لگے گھاؤ دکھا سکے۔

قصہ یہ ہے کہ ہم اڑھائی دہائی سے خواتین کی دہائیاں سن رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں۔ قرائن یہ کہتے ہیں کہ بہتری کی کہیں صورت نظر نہیں آتی، معاشرتی اقدار رو بہ تنزل ہیں۔

 کیسے بتائیں کہ کیسا محسوس ہوتا ہے جب حاملہ عورت بھوک سے بلبلاتی ہے کہ فریج کے تالے کی چابی ساس کے ہاتھ میں ہے۔ اور ساس کا کہنا یہ ہے کہ اسے تو حمل میں اتنی بھوک نہیں لگتی تھی سو بہو زیادہ کھانے کو کیوں مانگتی ہے؟

کیسے بتائیں کہ حاملہ عورت ڈاکٹر کی بتائی اور لکھی ہوئی ہوئی خوراک بھی نہیں کھا سکتی کہ ان کھانوں سے ساس کو پرہیز ہے اور بقیہ اہل خانہ کو بھی اجازت نہیں کہ وہ ساس کے بنا کھا سکیں۔ شوہر پہ واجب ہے کہ وہ اپنی ماں کے احترام میں اپنے بچے کی ماں کو بھوکا رکھے۔

کیسے دل کٹتا ہے ہمارا جب ساس بیٹے اور بہو کی موجودگی میں بہو کے متعلق ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ تو تھی ہی بیماریوں کی پوٹ، میکے سے ہی کمزور جسم لے کے آئی تھی۔

کیا ہم یہ بتاتے چلیں کہ ہم نے ان ساس اماں کے اس جملے کی روشنی میں انہیں اس قدر جھاڑ دیا کہ اپنی روزی کی بھی پروا نہیں کی۔ اس جھاڑ کے بعد وہ نہ ہماری شکل برداشت کر سکتی تھیں اور نہ آواز۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی عالم تھا۔

شاید کچھ لوگ یہ سوچیں کہ ہم جہالت میں گھرے خاندانوں کی کہانیاں سناتے اور لکھتے ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہماری گناہ گار نظر نے ملک کی مشہور و معروف شاعرہ کی بہو کو اپنی دوا کی پرچی پہ یہ لکھواتے دیکھا ہے کہ ان کے جسم میں خون کی شدید کمی کے باعث انہیں کیا خوراک چاہیے؟ تو ڈوب مرنے کا مقام ہو گا کہ نہیں۔ ایسا ہی لگے نا کہ آپ کے معاشرے نے ایک ملمع چڑھا رکھا ہے جو معمولی سی بوندا باندی میں اپنا بد رنگ چہرہ عیاں کر دیتا ہے۔

مرے پہ سودرے کے مصداق اب تو احباب نے سماج اور معاشرت میں ضرورت کے تحت مذہب کا تڑکا بھی لگا دیا ہے۔ عورت کے معمولی احتجاج کی صورت میں آپا فرحت ہاشمی جیسی عورتیں یہ بتانے آ جاتی ہیں کہ صبر اور شکر اچھی عورتوں کا جھومر ہوا کرتا ہے۔ ایک کراچی کی مسز خان ہیں جو غالباً رشتے وغیرہ کروانے کا دھندا کرتی ہیں۔ ان کی رائے میں شادی غلامی کا دوسرا نام ہے۔ صاف کہتی ہیں کہ اگر لڑکیوں کو شوہر کی اطاعت نہیں کرنی تو شادی کا نام نہ لیں۔

منہ میں اختلافی زبان اور شوہر کے سامنے اپنے حق کا چرچا ثواب کی گھٹڑی ہلکی کرنے کا موجب بنتا ہے۔ تفنن طبع کے لئے ایک اور بات بھی سن لیجیے کہ اب شوہر کے دل کو رستہ معدے سے ہو کے نہیں گزرتا، ساس کے آنچل کے سائے میں ہے اور فرمانبردار بیٹا جنت کے لالچ میں اس آنچل کے پلو سے اپنے بڑھاپے تک بندھا رہتا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ وطن سے دور دیار غیر میں ہمارے کلینک میں بیٹھا شوہر نامی مرد اپنی بیوی کے آپریشن کے متعلق فیصلہ اس وقت تک نہیں کرتا جب تک پاکستان کے کسی دیہات میں بیٹھی ماں سے مشورہ نہ کر لے۔ جب وہ یہ دانش بھرے لفظ ارزاں کرتا ہے تو ساتھ میں بٹر بٹر دیکھتی سوجے چہرے والی خاموش عورت کو دیکھ کے ہم پہ کیا گزرتی ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔

آپ کہتے ہیں کہ ناخواہی حمل ماضی کا حصہ بن چکا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آج بھی اچھی عورت وہ گنی جاتی ہے جو ہر برس بچہ جنے چاہے اس میں وہ اپنی جان سے گزر جائے۔ ضرورت اور خواہش کی بحث تو بعد میں چھڑے گی پہلے اس کے وجود کی تو بات کر لیں کہ وہ صرف بچہ پیدا کرنے والی چیز سمجھی جاتی ہے۔ منصوبہ بندی کے آپریشن کے لئے بھی ساس نامی مخلوق کی اجازت درکار ہے جو وہ نہ جانے کیوں نہیں دیتی۔

 ہم کٹ کے رہ جاتے ہیں جب شوہر ہمارے سامنے کھڑے ہو کے پہلو میں سہمی سہمائی عورت کی طرف اشارہ کر کےکہتا ہے، میں اس کا مالک ہوں۔ ایسا مالک جس کی نکیل ماں کے ہاتھ میں ہے اور ماں کو یہ حق مذہب دیتا ہے کہ اس کی ہر بات غیر مشروط طور پر مانی جائے ورنہ جنت ہاتھ سے جاتی ہے۔

دیکھا آپ نے، پدرسری معاشرہ عورت کی کیا گت بنواتا ہے ایک اورعورت کے ہاتھوں جو کسی اور زمانے میں اپنے شوہر کے ہاتھوں مسخ ہوئی ہوتی ہے۔

ہم ہر لفظ پہ خون کے آنسو رولتے ہیں۔ عورت کی تکلیف اور بے بسی سے ہمارا دل کٹتا ہے۔ آپ ہمارے عنوان میں اس آہ کو محسوس کیجیے جو ہمارے سلگتے دل سے نکلی ہے اور درپردہ اس طنز کو دیکھنے کی کوشش کیجیے جو ہم نے ساسو ماں پہ کیا ہے۔

ہم آپ کے قبیلے ہی سے تعلق رکھتے ہیں. بس ہوا کچھ یوں ہے کہ:

ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں

بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی!

نیاز مند؛

ڈاکٹر طاہرہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments