سمندری لال بیگ: اس انتہائی بڑے لال بیگ کو حال ہی میں سمندر کے نیچے دریافت کیا گیا ہے۔


Giant bathynomus

LIPI
اس وقت دنیا میں آسوپوڈز کی صرف سات اقسام کے بارے میں معلوم ہے۔

پہلے کورونا وائرس کی عالمی وباء اور پھر دنیا کے کئی علاقوں پر ٹڈی دل کا حملہ، اس برس سائنس سے متعلق خبریں کافی غیر معمولی رہی ہیں۔

اب انڈونیشیا میں سائنسدانوں نے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے سائز کے لحاظ سے دنیا کے بڑے کرسٹیشیئن میں سے ایک کو دریافت کیا ہے جسے انھوں نے بڑا لال بیگ کہا ہے۔ کیکڑے اور جھینگے وغیرہ کرسٹیشیئن خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’بلیک بلینکٹ‘ آکٹوپس پاکستانی سمندری حدود میں

برطانیہ کے سمندر اور ان سے جڑی زندگی

دیو قامت جیلی فش سے غوطہ خوروں کی ملاقات

اس نئی مخلوق کا تعلق بیتھینومس قسم سے ہے جو ایسے بڑے جانور ہیں جن کے جسم سپاٹ اور سخت ہوتے ہیں اور وہ دیکھنے میں گھُن کی طرح ہوتے ہیں لیکن ان سے بہت بڑے ہوتے ہیں۔۔ یہ گھرے پانیوں میں رہتے ہیں۔

یہ بیتھینومس راکاسا انڈونیشیا کے جاوا جزائر اور سماّٹرا کے درمیان سمندر میں 957 سے 1259 میٹر گہرائی میں پائے جاتے ہیں۔ انڈونیشیائی زبان میں راکاسا کا مطلب دیوقامت ہے۔ اس کے علاوہ یہ بحرِ ہند میں بھی موجود ہیں۔

جوان ہونے پر ان لال بیگوں کا سائز 33 سینٹی میٹر تک ہو جاتا ہے جو بہت بڑا سائز سمجھا جاتا ہے۔ بیتھینومس کی دوسری اقسام سر سے دم تک 50 سینٹی میٹر تک بڑی ہو سکتی ہیں۔

بیتھینومس راکاسا

LIPI
بیتھینومس راکاسا سر سے دم تک 33 سینٹی میٹر لمبے ہو سکتے ہیں۔

اس تحقیق کی قیادت کرنے والی اور انڈونیشیئن انسٹیٹیوٹ آف سائنسز (ایل آئی پی آئی) سے منسلک کونی مارگیریٹا سیڈابیلوک کہتی ہیں ’یہ واقعی بہت بڑا ہے اور اس طرح کے جانوروں کے خاندان میں یہ سائز کے لحاظ سے دوسری بڑی قسم ہے۔‘

اس وقت دنیا میں آسوپوڈز کی صرف سات اقسام کے بارے میں معلوم ہے۔

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انڈونیشیا کے گہرے سمندر میں بیتھینومس دریافت کیا گیا ہے۔ تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بہت کم تحقیقی کام ہوا ہے۔

ایل آئی پی آئی میں حیاتیات کے شعبے کے سربراہ کاہیو راہمادی کہتے ہیں کہ یہ دریافت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انڈونیشیا میں کتنا حیاتیاتی تنوع ہے جس پر تحقیق ہونا باقی ہے۔

Bathynomus

LIPI
انتہائی بڑے آسوپوڈز کا سائز 50 سینٹی میٹر تک ہو سکتا ہے۔

لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کے مطابق اس بارے میں کئی سائنسی آراء ہیں کہ یہ سمندری مخلوق اتنی بڑی کیوں ہے۔

ایک رائے یہ ہے کہ سمندر میں اتنی زیادہ گہرائی میں رہنے والے جانوروں کو زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ان کے جسم بڑے اور ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں۔

ان کے بڑے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سمندر میں اتنی گہرائی میں ان کو شکار کرنے والے جانور کم ہوتے ہیں تو انھیں با آسانی بڑے ہونے کا موقع ملتا ہے۔

اس کے علاوہ بیتھینومس قبیلے کے جانوروں کے جسم میں کم گوشت ہوتا ہے، مثلا کیکڑا، اس وجہ سے دوسرے شکاری جانوروں کو ان میں کم دلچسپی ہوتی ہے۔

ان جانوروں کے سر میں لمبے اینٹینا ہوتے ہیں جو تاریکی میں انھیں چلنے میں مدد کرتے ہیں۔

تاہم یہ دیکھنے میں تو عجیب سے نظر آتے ہیں لیکن زیادہ پریشان نہیں کرتے۔

یہ جانور بنیادی طور پر سمندر کی تہہ میں گھومتی پھرتے ہیں اور شکار کے بجائے ادھر ادھر پڑی ہوئی یا دوسروں کی چھوڑی ہوئی خوراک کو کھاتے ہیں۔

نیچرل ہسٹری میوزیم کے مطابق ان کا غذا کو ہضم کرنے کا نظام انتہائی سست ہوتا ہے اس لیے یہ بغیر خوراک کے بھی کافی عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اسی قسم کے ایک بڑے جانور کو جاپان میں رکھا گیا تھا جو پانچ سال تک بغیر خوراک کے زندہ رہا۔

Bathynomus

LIPI
یہ جانور بنیادی طور پر سمندر کی تہہ میں گھومتی پھرتے ہیں اور شکار کے بجائے ادھر ادھر پڑی ہوئی یا دوسروں کی چھوڑی ہوئی خوراک کو کھاتے ہیں۔

یہ تازہ تحقیق طور پر ایل آئی پی آئی، نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور اور لی کونگ چیئن نیچرل ہسٹری میوزیم کی مشترکہ کوشش ہے۔

سنہ 2018 میں اس ٹیم نے دو ہفتے پر مشتمل اپنے تحقیقی کام کے دوران 63 مختلف جگہوں سے ہزاروں مخلوقوں کو اکھٹا کیا اور ایک درجن نئی اقسام دریافت کیں۔

ٹیم نے بیتھینومس کے دو نمونے دریافت کیے جن میں سے ایک نر اور دوسری مادہ تھی۔ نر کا سائز 36 عشاریہ 3 سینٹی میٹر تھا جبکہ مادہ کا سائز 29 عشاریہ 8 سینٹی میٹر تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32486 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp