چین امریکہ: تجارتی جنگ، سفارتی جنگ اور پھر اس کے بعد؟


ڈونلڈ ٹرمپ، شی جن پنگ

امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ اب ایک نئی شکل اختیار کر رہی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کی طرح اب دو عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو اپنے اپنے ملکوں سے نہ صرف نکال رہی ہیں بلکہ قونصل خانوں کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔

چین نے امریکہ کے اقدام کے بعد چینگڈو میں امریکی قونصل خانے کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ نے ہیوسٹن میں چینی قونصل خانے کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

امریکی وزیرِ خارجہ نے مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکہ نے چین کے خلاف یہ اقدام ’امریکی شہریوں کے انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس اور ان کی نجی اطلاعات کو محفوظ بنانے کے لیے کیا۔‘

امریکہ کےخلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے چین نے کہا ہے کہ امریکی قونصل خانے کو بند کر کے چین نے ’امریکہ کے خلاف جائز اور ضروری جواب دیا ہے۔‘

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’چین اور امریکہ کے درمیان ایسے حالات چین نہیں چاہتا اور ان حالات کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ایف بی آئی کے سربراہ: ’چین امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘

چین: امریکہ سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرے

چین کا ردعمل، چنگدو میں امریکی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم

چین کی جوابی کارروائی

چین نے چنگدو میں امریکی سفارتی عملے کو پیر تک ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے۔ چنگدو میں یہ امریکی قونصل خانہ سنہ 1985 میں قائم کیا گیا تھا اور اِس وقت اس میں دو سو کے قریب امریکی اہلکار کام کر رہے تھے جن میں 150 مقامی لوگ ملازم ہیں۔

امریکہ کے لیے چینگڈو کا قونصل خانہ تزویراتی لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تبت کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ قونصل خانہ امریکہ کو چین کے خود مختار خطے تبت سے معلومات حاصل کرنے کا اہم ذریعہ رہا ہے۔ تبت میں زیرِ زمین آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔

چنگدو

چین نے چنگدو میں امریکی سفارتی عملے کو پیر تک ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے

امریکہ نے چین پر الزام تو معلومات اور اطلاعات چرانے کا عائد کیا ہے لیکن اس اعلان کے وقت کسی ایسے واقعے کی نشاندہی نہیں کی جس کی وجہ سے ہیوسٹن کے قونصل خانے کو بند کیا گیا ہے تاہم امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان مورگن آرٹیگس نے کہا کہ چین امریکہ کے اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

ہیوسٹن میں چینی سفارت خانے کو واشنگٹن کی ایک وفاقی عدالت میں چین پر وسیع الزامات پر مبنی ایک فردِ جرم عائد کی گئی کہ جس میں کہا گیا ہے کہ چینی حکومت کی ہدایات پر امریکی نجی اداروں کی ہیکنگ کی گئی اور ان کے انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس چرائے گئے ہیں جس سے امریکہ بھر میں اور دوسرے ممالک میں بھی لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

’چین کشدگی بڑھانا نہیں چاہتا‘

چین کی جوابی کارروائی کے اعلان سے قبل ایک امریکی تجزیہ کار اور سی آئی اے کے سابق اہلکار فیریفیفر نے کہا تھا کہ اگر چین ہیوسٹن کے قونصل خانے کے جواب میں ووھان یا اس جیسے کسی اور شہر میں امریکی سفارتی عمارت کو بند کرتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ چین کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا۔ البتہ اگر چین نے ہانگ کانگ یا شنگھائی میں امریکی سفارت خانہ بند کیا تو یہ کشیدگی میں اضافے کی سمت ایک اقدام سمجھا جائے گا۔

چینی فوج کے افسر کی گرفتاری

اسی دوران امریکہ نے چار چینی سائنسدانوں گرفتار کیا جن میں ایک پر ویزا فراڈ کا الزام ہے۔ امریکی حکام کے مطابق چینی سائنسدان، تانگ جُوان کا تعقل چین کی فوج پیپلز لبریشن آرمی سے ہے جہاں وہ میجر ہیں۔ انھوں نے اپنی ویزا کی درخواست میں اپنے فوجی ہونے کا ذکر نہیں کیا تھا۔

بینر

امریکی حکام نے ان کی گرفتاری کی مزید تفصیلات جاری نہیں کی ہیں اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ آیا انھوں نے رضاکارانہ گرفتاری دی ہے۔ میجر تانگ جُوان اب تک سان فرانسسکو میں چینی قونصل خانے میں پناہ لیے ہوئے تھیں۔

امریکی تحقیقی ادارے کیٹو انسٹیٹیوٹ کی ریسرچر سحر خان کے مطابق دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے قونصل خانوں کو بند کرنا دراصل ان دونوں کے درمیان باہمی اعتماد کی کمی کا رجحان ظاہر کرتا ہے۔

’قونصل خانوں کے بند کرنے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ یہ سفارت کاری کے لیے نقصان دہ ہے۔ چینگڈو میں امریکی سفارت خانے کی بندش سے امریکہ کی مقامی معلومات تک رسائی کم ہو جائے گی۔‘

جنگی حربے

حال ہی میں جن نئے معاملات میں دونوں ملکوں نے کشیدگی کے میدان سجائے ہیں ان میں ایک تو ہانگ کانگ کی امتیازی حیثیت ہے اور دوسرا کووِڈ-19 کا مسئلہ ہے۔

ماہرین کا ایک حصہ کہتا ہے کہ ہانگ کانگ کا مسئلہ چین کا اندرونی معاملہ ہے جبکہ ماہرین کے دوسرے حصے کا خیال ہے کہ ہانگ کانگ ایک معاہدے کے نتیجے میں چین کے حوالے ہوا تھا جس کی پاسداری کرنا چین کی ذمہ داری ہے۔

لیکن موجودہ حالات میں دکھائی دے رہا ہے کہ ہانگ کانگ اپنی حیثیت میں ایک مسئلے کی بجائے اب عالمی طاقتوں کے درمیان نئی سرد جنگ کا ایک مہرہ بن گیا ہے۔

اسی طرح کووِڈ-19 کو ایک انسانی اور سائنسی معاملہ سمجھا جانا چاہیے تھا اور ابتدائی دور میں سمجھا بھی گیا لیکن اب یہ معاملہ بھی چین اور امریکہ کے درمیان جنگ کے نئے مہرے کے طور پر استعمال ہوتا نظر آرہا ہے۔

سائنس دانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ کووِڈ-19 جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا اور وبا اس کے بعد پھوٹی لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اصرار کرتے ہیں کہ یہ وبا چینی سائنسی اداروں سے نکلی۔ وہ اب تک اپنے دعوے کے حق میں کوئی سائنسی ثبوت نہیں دے سکے ہیں۔

چین

ڈونلڈ ٹرمپ اصرار کرتے ہیں کہ کورونا کی وبا چینی سائنسی اداروں سے نکلی

فوجی تصادم کا خطرہ

چینی ریژیم کے نظریات کی ترجمانی کرنے والے میڈیا ادارے ’گلوبل ٹائمز‘ نے کہا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کئی اور میدانوں میں بھی بڑھ رہی ہے۔

سرد جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گلوبل ٹائمز اپنے ایک حالیہ شمارے میں لکھتا ہے ’جیسا کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات ہانگ کانگ، جنوبی چین کے سمندر، ہواوے اور سنکیانگ کے معاملوں کی وجہ سے کشیدہ ہوتے جار رہے ہیں، تو اب ایسے خدشات کے سیاہ بادل سر پر منڈلا رہے ہیں کہ سرد جنگ ایک باقاعدہ فوجی تصادم کی صورت اختیار کرلے۔‘

کئی چینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین کو ماضی کی سرد جنگ کے زمانے کے حریف کے طور پر دیکھنا اور پھر چین کے خلاف نفرتوں کو ہوا دینا ایسے حربے ہیں جو امریکی جنگجو (ہاکس) چین کے خلاف ایک رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کر ر ہے ہیں تاکہ اس برس ہونے والے امریکی انتخابات کو متاثر کیا جا سکے۔

امریکی انتخابات اور کشیدگی

بین الاقوامی تعلقات کے کئی ماہرین اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں حالیہ اضافہ امریکہ کی اندرونی انتخابی سیاست کی وجہ سے ہے۔

کیٹو انسٹی ٹیوٹ کی ریسرچر سحر خان کہتی ہیں کہ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے ہیں تب سے چین اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔

ان کے خیال میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایک نام نہاد سرد جنگ کا آغاز کیا ہے جس سے امریکی معیشت کو نقصان پہنچا ہے لیکن چین کے خلاف سخت اقدامات سے ٹرمپ اپنے ووٹروں میں زیادہ مقبول ہو سکتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ

ٹیکنالوجیکل اور اقتصادی جنگ

مگر برطانوی تحقیقی ادارے چیتھم ہاؤس کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق چین کے منفرد قسم کے سیاسی نظام سمیت اس کی ٹیکنالوجی کی صلاحیت اب عالمی سطح پر ٹیکنالوجی اور اقتصادی نظام کو ازسرِ نو تشکیل دے رہی ہے۔

’چین اب صرف دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی کے حصول کا ہی خواہاں نہیں بلکہ وہ اب عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کے نئے معیار طے کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاملات امریکہ اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی اور اقتصادی میدانوں میں ایک طویل ترین جنگ کی بنیاد تیار کر رہے ہیں۔‘

چین اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی کو صرف صدر ٹرمپ کی مقبولیت حاصل کرنے کے اقدامات سمجھنا بھی ایک بڑے معاملے کو غیر منطقی طور پر محدود کرنے کے مترادف ہو گا۔

چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کی ایک اپنی سمت یا ایک ’ٹریجیکٹری‘ موجود ہے جو صدر ٹرمپ کے اقتدار آنے سے پہلے سے چلی آرہی ہے۔ البتہ ٹرمپ انتظامیہ ’بڑھک‘ لگانے والے انداز میں دیدنی اقدامات بڑے شد و مد کے ساتھ کرتی نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو دائیں بازو کے امریکیوں میں ان کو مقبول بناتی ہیں۔

تاہم فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ امریکی اور چین کے درمیان سفارت کاروں کا نکالے جانے کا اہداف وہی ہے جو بیان کیا گیا ہے یعنی معلومات یا انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس چرانا۔

تاہم ماہرین چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں دونوں ملکوں کے درمیان دیگر عوامل کے کردار کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے ہیں۔

امریکہ اور چین کے تعلقات کے اہم موڑ

چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات چیئرمین ماؤزے تنگ کی قیادت والے سنہ 1949 کے کیمیونسٹ انقلاب کے زمانے سے کشیدہ چلے آرہے ہیں۔

لیکن جب ستر کی دہائی میں تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی تو اسی کی دہائی تک امریکہ چین میں سرمایہ کاری کا آغاز کر چکا تھا اور پھر نوے کی دہائی تک امریکہ چین میں سب سے بڑا سرمایہ کار ملک بن چکا تھا۔

چین، امریکہ

نوے کی دہائی تک امریکہ چین میں سب سے بڑا سرمایہ کار ملک بن چکا تھا

امریکہ اس صدی کے اوائل میں چین کا سب سے بڑا مقروض ملک بن گیا کیونکہ چین 600 ارب ڈالر مالیت کے امریکی بانڈ خرید چکا تھا۔ اس کے بعد امریکہ میں چین کے ساتھ تجارتی عدم توازن تشویش کا باعث بن گیا۔اور اسی دوران چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔

یہیں سے امریکہ کی بحر الکاہل کے ساحلی ممالک کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی آئی اور اُس وقت کی وزیرِ خارجہ ہیِلری کلنٹن نے چین کے بڑھتے ہوئے اثرو نفوذ کے خلاف سفارتی سرگرمیاں بڑھانے پر ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا۔

جس کے نتیجے میں اس خطے کے آٹھ ممالک نے آپس میں آزاد تجارت کے لیے ٹرانس پیسیفک ٹریڈ پارٹنر شاپ کا معاہدہ کیا، جس کے بعد میں گیارہ ممالک رکن بن گئے۔

سنہ 2012 میں جب چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی خسارہ مزید بڑھا تو امریکہ نے یورپی ممالک کے ساتھ مل کر چین سے مشاورت کی درخواست کی۔ جہاں سفارت کاری جاری رہی وہیں امریکہ نے آسٹریلیا میں 2500 امریکی فوجی تعینات کرنے کا بھی اعلان کیا جس کی چین نے مذمت کی۔

اسی دوران چین میں شی جن پنگ چین کے نئے صدر منتخب ہو گئے۔ ان کے اور امریکی صدر باراک اوبامہ کے درمیان ذاتی نوعیت کی دوستی بھی بڑھی لیکن اسی دوران امریکہ نے چینی فوج کے پانچ اہلکاروں کو جاسوسی اور تجارتی راز چرانے کے الزام میں گرفتار بھی کیا۔ چین نے جواباً امریکہ سے سائبر سکیورٹی میں اپنا تعاون معطل کر دیا۔

اس کے باوجود دونوں ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ایک مشترکہ اعلان کیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد امریکہ نے چین کو بحیرہ جنوبی چین میں متنازعہ سرگرمیوں پر انتباہ دیا۔

امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھلنے کے فوراً بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ تائیوان کے صدر سے ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کی روایت کو توڑتے ہوئے ’ایک چین‘ کی پالیسی کا اعلان کیا۔

سنہ 2017 میں امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹِلرسن نے بیجنگ میں امریکہ اور چین کے تعلقات کو ’غیر متصادم، بغیر کسی تنازعہ کے، باہمی عزت اور ہمیشہ دونوں کے لیے فائدہ مند‘ بنیادوں پر کھڑا قرار دیا۔ اسی برس صدر ٹرمپ نے چینی صدر شی جن پنگ کے اعزاز میں ایک بڑی تقریب کا بھی انعقاد کیا۔

پھر سنہ 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمد کیے جانے والے پچاس ارب ڈالر کے سامان پر ٹیکس لگانے کا اعلان کیا کیونکہ مبینہ طور پر چین امریکہ سے انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس چرا رہا ہے۔ یہ ٹیکس چین کے ایلومنیم اور سٹیل کی مصنوعات پر عائد کیا گیا تھا۔

اسی برس مزید چینی درآمدات پر امریکہ نے ٹیکس عائد کیا اور کہا کہ چین امریکہ کی نرم پالیسیوں کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔ امریکی نائب صدر نے چین کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کی نئی پالیسی کا اعلان کیا۔اور اسی برس کے آخر میں کینیڈا نے امریکہ کے کہنے پر ہواوے کی چیف فنانشل آفیسر کو گرفتار کر لیا۔

ہواوے نے امریکی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ مزید تیز ہوتی گئی۔ امریکہ نے چینی درآمدات پر 200 ارب ڈالر کے نئے ٹیکس عائد کیے جواباً چین نے 60 ارب ڈالر کے ٹیکس امریکی درآمدات پر عائد کیے۔

اگلے برس یعنی سنہ 2019 میں امریکہ نے چین پر اپنی کرنسی یوآن کو کمزور رکھنے کے لیے زرِ مبادلہ کو متاثر کرنے، یعنی ’کرنسی منیپیولیٹ‘ کرنے کا الزام عائد کیا اور اس کے بعد چینی مصنوعات کی درآمد پر 300 ارب ڈالر کے نئے ٹیکس عائد کر دیے۔

پھر جب ہانگ کانگ میں شہریوں کے مظاہروں کا آغاز ہوا تو نومبر سنہ 2019 میں امریکہ نے ان چینی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کرنے کا قانون منظور کیا کہ جو ہانگ کانگ میں شہریوں پر سختی کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔

لیکن جنوری سنہ 2020 میں امریکہ اور چین کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں تجارتی جنگ کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایک نیا تجارتی معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں امریکہ نے چینی درآمدات پر کچھ ٹیکس کم کیے اور چین نے 200 ارب ڈالر کی امریکی مصنوعات خریدنے کا وعدہ کیا۔

شی جن پنگ، ڈونلڈ ٹرمپ

جنوری سنہ 2020 میں امریکہ اور چین کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں تجارتی جنگ کی کشیدگی کو کم کرنے کا ایک نیا تجارتی معاہدہ ہوا

اس معاہدے سے چند دن پہلے امریکہ نے چین پر ’کرنسی مینیپیولیٹر‘ کا الزام واپس لے لیا اور پھر جنوری میں کورونا وائرس کی وبا چین کے شہر ووہان میں پھوٹتی ہے تو امریکہ چین سے آنے والے تمام غیر امریکیوں کی آمد پر پابندی عائد کردیتا ہے۔ اس کے بعد صحت کا عالمی ادارہ اس وبا کو عالمی وبا قرار دیتا ہے۔

امریکہ اور چین دونوں جانب سے سینئیر اہلکاران ایک دوسرے پر کورونا وائرس پھیلانے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کورونا وائرس کو بار بار ’چینی وائرس‘ کا نام دیتے ہیں۔

تاہم اپریل میں دونوں ممالک اس وبا پر قابو پانے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی صدر ٹرمپ صحت کے عالمی ادارے پر چین کا ساتھ دینے کا الزام لگا کر اس ادارے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا سلسلہ برقرار رہتا ہے اور اس دوران چین 13امریکی صحافیوں کو ملک بدر کردیتا ہے اور ساتھ ساتھ وائس آف امریکہ کے عملے پر الزام عائد کرتا ہے یہ اپنی جمع کی ہوئی معلومات امریکی حکومت سے شیئر کرتے ہیں۔

چین اپنے اقدامات کے جواب میں کہتا ہے یہ امریکہ کے ان اقدامات کے جواب میں کیے گئے ہیں جن کے تحت امریکہ نے چین کے سرکاری میڈیا پر پچلے برس پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس دوران کورونا وائرس کے معاملے پر دونوں ملکوں کی درمیان کافی بیان بازی جاری رہی۔

تازہ پیشرفت

لیکن حال ہی میں جس بات نے واشنگٹن میں بظاہر پریشانی پیدا کی وہ نیویارک ٹائمز کی ایک خبر کہ چین ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کرنے جا کر رہا ہے۔

امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق اب تک چین امریکی پابندیوں کے خطرے کے پیشِ نظر ایران سے لین دین میں بہت احتیاط برت رہا تھا لیکن اس مجوزہ معاہدے سے اشارہ ملتا ہے کہ چین اب امریکہ کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔

تاہم ایک اور معروف امریکی تحقیقی ادارے سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹیڈیز سے وابستہ سکیورٹی اور دفاعی امور کے ماہر اینٹونی کورڈزمین کہتے ہیں کہ چین اور امریکہ کے درمیان اس معاہدے کے بارے میں خبر غیر واضح ہے لیکن کچھ باتیں اس میں صاف بھی ہیں۔

ان کے مطابق ’فرض کریں کہ اس کے بارے میں دی گئی تمام رپورٹیں غلط بھی ہوں، تب بھی ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ امریکہ کو اب تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین کے علاوہ خلیجی خطے میں چین سے مقابلہ کرنا ہوگا۔‘

چینی فوج

امریکی فوج کو اس صدی میں کئی جنگیں لڑنے کا تجربہ حاصل ہے جو اُس نے اپنے سے کمزور ملکوں کی فوجوں سے لڑی ہیں جبکہ چین کو کوئی بھی جنگ لڑنے کا اتفاق نہیں ہوا

’یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اس خطے میں امریکہ اس وقت تک اپنے عرب تزویراتی حصہ داروں پر بھروسہ نہیں کر سکتا ہے جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے کہ وہ خلیج میں ٹھہرے گا اور ان کا حقیقی معنوں میں ساتھی بنے گا۔ بجائے اس کے وہ یہ خطہ چھوڑ کر چلے جانے کی باتیں کرے یا اس ذمہ داری کے خرچ میں حصہ ڈالنے کی باتیں کرے۔‘

’تھسائیڈائیڈز ٹریپ‘

ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آف گورنمنٹ گراہم ایلیسن نے کچھ عرصے قبل ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا Destined for War: Can America and China Escape Thucydides’s Trap?۔

اس کتاب میں پروفیسر ایلیسن نے یونانی تاریخ کے ایک جرنیل، تھسائیڈائیڈز کے حوالے سے مشہور ہونے والی فوجی حکمتِ عملی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیا ایتھنز کی ابھرتی ہوئی طاقت سے خوف زدہ ہو کر سپارٹا سے اُس کی جنگ ناگزیر تو نہیں ہو گئی۔

ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے خوف سے موجودہ طاقت کو اپنی اجارہ داری کے ختم ہونے کا خوف اور اس کے بعد دونوں کے درمیان جنگ کے امکانات کے اس جال یا ’ٹریپ‘ کو پروفیسر ایلیسن نے ’تھسائیڈائیڈز ٹریپ‘ کہا۔

ان کے مطابق اس وقت چین اور امریکہ دونوں ایک ایسی جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں جس سے دونوں ہی بچنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ پانچ صدیوں میں اس طرح کے سولہ ’ٹریپ‘ بنے ہیں اور ان میں بارہ کا انجام جنگ و جدال ہوا۔

اس وقت چین اور امریکہ دونوں ہی میں ایسے سربراہان (صدر شی جن پنگ اور امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ) ہیں جو اپنی داخلی پالیسیوں کی وجہ سے اپنے اپنے ملکوں کو عظیم طاقت بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

دونوں ہی عالمی سیاسی بساط میں ایک دوسرے سے ٹکراتے نظر آرہے ہیں جس کی شکل کبھی تجارتی جنگ کی صورت میں، کبھی سائبر جنگ اور کبھی تجارتی معلومات چرانے جیسے الزامات کے واقعات بنتی ہے۔

اگرچہ پروفیسر ایلیسن کے خیال میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ناگزیر نہیں۔

جنگی صلاحیت

اگرچہ امریکہ اور چین دونوں ہی جوہری طاقتیں ہیں لیکن وسائل کے لحاظ سے دونوں کی فوجی طاقت میں کافی زیادہ فرق ہے۔ امریکی افواج کا بجٹ 610 ارب ڈالر جبکہ چین کا دفاعی بجٹ 228 ارب ڈالر ہے۔

امریکی فوج کو اس صدی میں کئی جنگیں لڑنے کا تجربہ حاصل ہے جو اُس نے اپنے سے کمزور ملکوں کی فوجوں سے لڑی ہیں جبکہ چین کو کوئی بھی جنگ لڑنے کا اتفاق نہیں ہوا تاہم جنگیں صرف ریسرچ رپورٹوں سے نہیں جیتی جاتی ہیں۔

جنگ سے اجتناب

بہرحال ایک دوسرے کے قونصل خانے بند کرنے کی کارروائی یہ اشارہ دیتی ہے کہ دونوں طاقتیں کشیدگی کو مزید گہرا کرنے سے کافی حد تک اجتناب کر رہی ہیں۔

لیکن جہاں امریکہ اور چین کے درمیان تزویراتی سطح پر ٹیکنالوجی اور اقتصادی معاملات میں تنازعہ گہرا ہو رہا ہے، وہیں صدر ٹرمپ کے امریکی انتخابات کی سیاست میں چین مخالف رویہ اختیار کرنے سے جو سیاسی فائدے ہیں وہ کسی غلط اندازے کی وجہ سے کی گئی کارروائی میں دونوں ملکوں کو کسی فوجی تصادم کی جانب بھی دھکیل سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp