پاکستان کا دورہ انگلینڈ 2020: پاکستان انگلینڈ سیریز کا شیڈول اور اہم باتیں جن کا سیریز میں فیصلہ کن کردار ہو سکتا ہے


بابر اعظم اور آرچر

اچھے کھیل کی داد رسی کرنے والے تماشائی، تاریخ ساز میدان اوول اور لارڈز کی گھر جیسی وکٹیں اور برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی گراؤنڈز میں موجودگی: یہ وہ مناظر ہیں جو آپ پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران نہیں دیکھ پائیں گے۔

تاہم پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان متنازع اور یادگار میچوں کی تاریخ اور انگلینڈ کی بیٹنگ اور بولنگ دونوں ہی کے لیے سازگار پچز ہمیشہ کی طرح اس سیریز کی دلچسپی میں اضافہ ضرور کر دیتے ہیں۔

تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے لیے پاکستان کی ٹیم گذشتہ ماہ کے اواخر سے انگلینڈ میں تیاریوں میں مصروف ہے۔

ہمیشہ سے ہی آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے دوروں کے برعکس پاکستان میں کرکٹ کے مداح دل کے کسی کونے میں دورہ انگلینڈ کے دوران اچھی کارکردگی کی امید ضرور رکھتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ تو اعداد و شمار میں چھپی ہے۔ اگر بات ایشیا سے باہر کھیلنے کی ہو تو ٹیسٹ میچوں میں نیوزی لینڈ کے بعد انگلینڈ میں پاکستان کا فتح اور شکست کا تناسب سب سے بہتر یعنی صفر اعشاریہ پانچ ہے۔

پاکستان کے دورہ انگلینڈ سے متعلق مزید پڑھیے

رضوان: سرفراز کا پرستار ہوں ان کی موجودگی سے خائف نہیں

وقار یونس: ہم پر بھروسہ رکھیے، مایوس نہیں کریں گے

شان: یہ سوچ کر بیٹنگ کے لیے نہیں جانا کہ پہلے کیا ہوا تھا

پھر پاکستان نے سنہ 2009 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ اور سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی بھی یہیں جیت رکھی ہے۔

تو اس مرتبہ پاکستان کے میچ کن گراؤنڈز پر ہوں گے، ان گراؤنڈز پر پاکستان کی کارکردگی کیسی رہی ہے؟ پاکستان کے سکواڈ میں موجود کھلاڑی ماضی میں انگلینڈ میں کیسا کھیل پیش کر چکے ہیں اور تمام نظریں پاکستان کے کس بلے باز اور بولر پر مرکوز ہوں گی، آئیے جانتے ہیں۔

مانچسٹر، اورلڈ ٹریفرڈ

اولڈ ٹریفرڈ میں پاکستان نے اب تک چھ میچ کھیلے ہیں جن میں سے اسے دو میں شکست اور ایک میں فتح حاصل ہوئی ہے جبکہ باقی تین میچ ڈرا ہوئے ہیں

پاکستان کے دورہ انگلینڈ کا شیڈول اور گراؤنڈز سے متعلق اعداد و شمار

لندن میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث لارڈز اور اوول میں کوئی بھی میچ منعقد نہیں ہو رہا ہے۔

یہ پاکستانی مداحوں کے لیے اس لیے بری خبر ہے کیونکہ پاکستان نے اب تک انگلینڈ میں 12 ٹیسٹ میچوں میں فتح حاصل کی ہے جن میں سے 10 فتوحات ان دونوں گراؤنڈز پر حاصل کی گئیں۔

سیریز کا پہلا ٹیسٹ پانچ اگست کو مانچسٹر میں اولڈ ٹریفرڈ کے میدان پر کھیلا جائے گا۔ یہ وہی میدان ہے جہاں پر پاکستان نے سنہ 2001 میں انگلینڈ کو ایک سنسنی خیز میچ کے بعد ہرایا تھا لیکن وہ ٹیسٹ میچوں میں اس گراؤنڈ پر پاکستان کی واحد فتح تھی۔

یہاں پاکستان نے اب تک چھ میچ کھیلے ہیں جن میں سے اسے دو میں شکست اور ایک میں فتح حاصل ہوئی ہے جبکہ باقی تین میچ ڈرا ہوئے ہیں۔

پاکستان کا دوسرا اور تیسرا ٹیسٹ ساؤتھ ہیمپٹن میں ‘دی روز بول’ کے میدان پر کھیلا جائے گا۔ اس میدان پر اب تک صرف چار ٹیسٹ میچ کھیلے گئے ہیں اور 13 اگست کو پاکستان کی ٹیم پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ کھیلنے اس میدان پر اترے گی۔

پاکستان

یہ وہی میدان ہے جہاں پر پاکستان نے سنہ 2001 میں انگلینڈ کو ایک سنسنی خیز میچ کے بعد ہرایا تھا لیکن وہ ٹیسٹ میچوں میں اس گراؤنڈ پر پاکستان کی واحد فتح تھی

ان چار ٹیسٹ میچوں میں سے انگلینڈ نے دو مرتبہ انڈیا کو ہرایا ہے اور رواں ماہ ویسٹ انڈیز سے شکست کا سامنا بھی کیا جبکہ ایک میچ ڈرا ہوا۔

پاکستان سیریز کا آخری ٹیسٹ میچ 21 سے 25 اگست کے درمیان اسی میدان پر کھیلے گا اور تمام ٹیسٹ میچوں کا آغاز پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر تین بجے ہو گا۔

ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے درمیان سیریز کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اب تک دونوں گراؤنڈز پر بولرز کو معاونت تو ملی ہے لیکن ویسی نہیں جس کی انگلینڈ کی تازہ پچز سے امید کی جا رہی تھی۔

تاہم اب تک دو ٹیسٹ میچوں کے دوران یہ اندازہ ضرور ہوا ہے کہ روز بول کی وکٹ فاسٹ بولرز کے لیے سازگار ثابت ہو سکتی ہے جبکہ مانچسٹر کی وکٹ دن گزرنے کے ساتھ بلے بازوں کے لیے مشکلات کا باعث بنی۔

پاکستانی ٹیم تین میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز کا پہلے میچ 28 اگست کو کھیلے گی۔ یہ پوری سیریز ہی مانچسٹر میں اولڈ ٹریفرڈ کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلی جائے گی۔

بابر

انگلینڈ میں اب تک بابر اعظم نے سنہ 2018 کی سیریز کے دوران ایک ہی اننگز کھیلی جس میں وہ 68 رنز بنانے کے بعد زخمی ہو گئے اور بیٹنگ جاری نہ رکھ سکے۔

انگلینڈ بابر اعظم کا آخری امتحان؟

گذشتہ برس جب پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی ہوئی اور راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم برسوں بعد سجا تو وہاں موجود اکثر شائقین کی بس ایک ہی خواہش تھی، اور وہ یہ کہ بابر اعظم کی بیٹنگ کی ایک جھلک دیکھی جائے۔

بابر اعظم یقیناً پاکستان کی بیٹنگ کا ایک مرکزی جزو بن چکے ہیں۔ عام طور پر ایشیائی بلے بازوں کی مہارت کا اندازہ ان کے ایشیا سے باہر کے ریکارڈ کے ذریعے لگایا جاتا ہے اور بابر اعظم نے اس حوالے سے مایوس نہیں کیا۔

آغاز میں انھیں ٹیسٹ کرکٹ کے داؤ پیچ سمجھنے میں دشواری ضرور ہوئی لیکن جنوبی افریقہ میں ڈیل سٹین کے خلاف پراعتماد بیٹنگ اور پھر آسٹریلیا میں برسبین کے مشہور گابا کرکٹ گراؤنڈ میں عمدہ سنچری بنا کر ثابت کیا کہ وہ کنڈیشنز کے اعتبار سے اپنی بیٹنگ میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔

سنہ 2016 میں ان کی اوسط 32 تھی جو اگلے برس گر کر 16 ہو گئی لیکن سنہ 2018 میں انھوں نے 56 جبکہ گذشتہ برس 68 کی اوسط سے رنز بنائے۔

تاہم انگلینڈ کی پچز سوئنگ بولنگ کے لیے سازگار ہوتی ہیں اور یہاں اچھے سے اچھے بلے بازوں کی تکنیکی خامیاں اجاگر ہو جاتی ہیں۔

بابر اعظم نے اب تک 26 ٹیسٹ میچوں میں پانچ سنچریوں اور 13 نصف سنچریوں کی مدد سے 1850 رنز بنا رکھے ہیں۔ ان کی اوسط 45 کی ہے تاہم یہ ایک موقع پر یہ 20 کے پیٹے میں تھی۔

انگلینڈ میں اب تک انھوں نے سنہ 2018 کی سیریز کے دوران ایک ہی اننگز کھیلی جس میں وہ 68 رنز بنانے کے بعد زخمی ہو گئے اور بیٹنگ جاری نہ رکھ سکے۔

اظہر

ایک سنچری اور تین نصف سنچریوں کے باوجود اظہر علی کی انگلینڈ میں اوسط محظ 29 کی ہے

اسد اور اظہر آخر کب ذمہ داری لیں گے؟

پاکستان کی ٹیم میں دو ایسے بلے باز ہیں جو نہ صرف تجربہ کار ہیں بلکہ ماضی میں انگلینڈ میں عمدہ کارکردگیاں دکھا چکے ہیں۔

پاکستان کے کپتان اظہر علی نے تو سنہ 2010 کی متنازع سیریز میں انگلینڈ میں ہی ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا اور دوسری اننگز میں نصف سنچری بھی سکور کی تھی۔

تاہم ایک سنچری اور تین نصف سنچریوں کے باوجود اظہر علی کی انگلینڈ میں اوسط محظ 29 کی ہے۔ اظہر اب تک انگلینڈ میں 12 میچ کھیل چکے ہیں۔

گذشتہ دو برسوں میں بھی اظہر علی کی ٹیسٹ میچوں میں پرفارمنس خاطر خواہ نہیں رہی۔ سال 2017 میں ان کی رنز بنانے کی اوسط 42 کی رہی جو ان کی موجودہ اوسط بھی ہے لیکن اگلے برس یہ گر کر 30 جبکہ گذشتہ برس صرف 21 رہی۔

حالیہ وارم اپ میچ کے دوران سنچری سکور کر کے انھیں ضرور اعتماد حاصل ہوا ہو گا لیکن ٹیسٹ سیریز میں ان کے بلے کا رنز اگلنا پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے۔

اسی طرح اسد شفیق کے بھی انگلینڈ میں ملے جلے اعداد و شمار ہیں۔ انھوں نے اب تک یہاں ایک سنچری اور دو نصف سنچریاں بنائی ہیں۔

اسد شفیق بھی اظہر علی کی طرح اس گذشتہ دہائی میں پاکستان کی بیٹنگ کا مستقل حصہ رہے ہیں تاہم ان کی کارکردگی میں گذشتہ تین سے چار سالوں کے دوران گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔

ہر سیریز شروع ہونے سے پہلے اسد اور اظہر کو مصباح اور یونس کی میراث کا ضامن گردانہ جاتا ہے لیکن گذشتہ دو برسوں میں ان کی جانب سے اہم موقعوں پر ذمہ دارانہ بیٹنگ کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔

انگلینڈ کو انگلینڈ میں ہرانے کے لیے سینئر بلے بازوں کو ذمہ داری لینی ہو گی جیسے سنہ 2016 میں مصباح اور یونس نے لی تھی۔

عباس

البتہ 2018 کے اواخر میں جنوبی افریقہ کی سریز سے قبل ان کی کندھے میں انجری ہوئی جس کے بعد جب ان کی واپسی ہوئی تو وہ پہلے والے عباس نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 2019 میں ان کی اوسط 44 کی ہے

محمد عباس کے پاس اپنا لوہا منوانے کا سنہری موقع

اگر آپ کی نظر محمد عباس کے بولنگ کے اعداد و شمار پر پڑے تو آپ یہ سوچ کر ضرور پریشان ہوں گے کہ ان کا نام موجودہ بہترین فاسٹ بولرز کے ساتھ کیوں نہیں لیا جاتا۔

انھوں نے اب تک صرف 18 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں وہ 20 کی اوسط سے 75 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔ چار مرتبہ میچ میں پانچ وکٹیں جبکہ ایک بار 10 وکٹیں بھی لے چکے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کی سب سے اچھی اوسط انگلینڈ اور آئرلینڈ میں ہی ہے۔ انگلینڈ میں انھوں نے دو ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں 14 کی اوسط سے 10 وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

صرف آئرلینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ میں انھوں نے نو وکٹیں حاصل کی تھیں۔

ان کی بولنگ کی خاص بات ان کی نپی تلی لائن ہے جس کے باعث یہ کل 26 فیصد بلے بازوں کو ایل بی ڈبلیو کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ انگلینڈ کی ٹیم میں موجود بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والوں کے لیے بھی عباس خطرہ بن سکتے ہیں۔

البتہ 2018 کے اواخر میں جنوبی افریقہ کی سریز سے قبل ان کی کندھے میں انجری ہوئی جس کے بعد جب ان کی واپسی ہوئی تو وہ پہلے والے عباس نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 2019 میں ان کی اوسط 44 کی ہے۔

یہ کنڈیشنز عباس کے لیے سازگار ثابت ہوں گی، جیسے اس سے قبل ویسٹ انڈیز کے جیسن ہولڈر کے لیے ہوئی تھیں۔

تاہم ایک نوجوان پیس اٹیک کی سربراہی کرنے کے لیے عباس کو یقیناً بہترین مہارت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

فواد

ٹیسٹ ٹیم کی سلیکشن اور بات فواد عالم کی

پاکستان کو پہلے تو 30 رکنی سکواڈ کو پاکستان سے انگلینڈ بھیجنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم اب یہ مشکل دور ہو چکی ہے اور سکواڈ کے آخری رکن محمد عامر بھی انگلینڈ پہنچ چکے ہیں اور کچھ ہی دن میں سکواڈ میں شامل ہو جائیں گے۔

تاہم اب اگلی مشکل 11 کھلاڑیوں کا انتخاب ہو گا۔ یاد رہے کہ اس مندرجہ زیل سکواڈ میں محمد عامر کے علاوہ تمام ہی کھلاڑیوں نے ضرورت پڑنے پر اپنی دستیابی ظاہر کر دی ہے۔

تاہم اب بھی بیٹنگ پوزیشن نمبر چھ کا خاص طور پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ بولنگ میں تو تبدیلیوں اور روٹیشن کا امکان ہے لیکن بیٹنگ میں نمبر چھ کے علاوہ تمام پوزیشنز پر ہو چکی ہیں۔

یہ وہ جگہ ہے جو حارث سہیل کی انگلینڈ ذاتی وجوہات کی بنا پر سفر نہ کرنے کے باعث خالی ہوئی۔ اس پوزیشن پر فواد عالم کے ٹیسٹ کرکٹ میں 11 برس بعد کم بیک کر سکتے ہیں۔

مصباح اور اظہر علی کے پاس اس حوالے کم از کم تین اور متبادل بھی موجود ہیں۔ اگر وہ آلراؤنڈر کے ساتھ ٹیم میں توازن لانا چاہیں تو وہ فہیم اشرف اور شاداب خان کی خدمات لے سکتے ہیں۔

ورنہ ان کے پاس تین اوپنرز کے ساتھ جانے کی آپشن بھی موجود ہے لیکن کیونکہ اظہر خود بھی بطور اوپنر کھیل چکے ہیں اور وہ نمبرتین پر آتے ہیں تو اس بات کے امکانات کم ہیں۔

فی الحال فواد عالم کو اگر ٹیم میں جگہ بنانی ہےتو انھیں دوسرے وارم اپ میچ کے دوران پہلے میچ سے بہتر کارکردگی دکھانی ہو گی۔

سکواڈ

اظہر علی (کپتان)، بابر اعظم (نائب کپتان)، اسد شفیق، فہیم اشرف، فواد عالم، افتخار احمد، عماد وسیم، امام الحق، خوشدل شاہ، محمد عباس، موسیٰ خان، نسیم شاہ، روحیل نذیر، سرفراز احمد، شاہین شاہ آفریدی، شان مسعود، سہیل خان، عثمان شنواری، یاسر شاہ، وہاب ریاض، محمد حفیظ، محمد رضوان، حیدر علی، شاداب خان،محمد عامر، کاشف بھٹی، عمران خان، فخر زمان، محمد حسنین اور عابد علی شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp