خوابوں کی راہ گزر


میری یاداشت ساتھ نہیں دے رہی کہ وہ کون سی تاریخ تھی لیکن اس شام ہم جس ہستی سے روشناس ہوئے تھے وہ بہت ہی عظیم اور عالی مرتبت تھی۔ کافی دیر تو ہم اس بات کا افسوس کرتے رہے کہ ان کے بارے میں ہم اتنے لاعلم کیوں تھے۔ خیر انہیں جاننے کی خوشی زیادہ تھی اس لئے وہ افسوس پر غالب آ گئی اور ہم سب یعنی میں عاطف اور صدف تاریخ کے اس ورق سے جو کچھ بھی کشید کر سکتے تھے وہ ہم نے کیا۔ ۔ ۔ کیا شاندار انسان تھے بی ایم کٹی صاحب۔

دبلے پتلے اور آنکھوں میں بلا کی ذہانت۔ اس شام شہر کے مختلف حلقوں سے وابستہ افراد جمع تھے۔ بائیں بازوں کے کارکنوں سے لے کر پیپلز پارٹی کی کئی نامی گرامی شخصیات، سول سوسائٹی کے کے سر گرم لوگ، مزدور تحریک سے وابستہ کئی مزدور لیڈر اور کئی جامعات کے پروفیسر اور ہم جیسے دیوانے لوگ۔ ۔ ۔ پی ایم اے ہاؤس کراچی میں بی ایم کٹی صاحب کے اعزاز میں اس تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا اور ان کے سبھی یار دوست اور مداح انہیں ان کی زندگی بھر کی جدوجہد پر شاندار خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔

اس تقریب کے روح رواں کرامت علی تھے جو کٹی صاحب کے دیرینہ دوست اور ان کے ساتھی رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب کرامت علی اپنے عزیز دوست کو خراج تحسین پیش کرنے روسٹرم کی طرف بڑھے تو وہ جذبات سے لبریز اور خوشی سے سرشار تھے، انہوں نے بہت محبت سے کٹی صاحب سے اپنے تعلق کو بیان کیا اور راز کی کئی باتیں ایسی بھی کر گئے کہ کٹی صاحب شرما کے نہ نہ ہی کرتے رہے۔

مجھے اس گزری شام کی ہر بات بہت یاد آ رہی ہے اور وہ سارے چہرے جو وہاں موجود تھے چشم تصور میں گردش کر رہے ہیں۔ خوشی اس بات کی آج بھی ہے کہ ہم بھی وہاں موجود تھے اور محبت، جدوجہد، کمٹ منٹ اور قربانی کی عمدہ مثال، بی ایم کٹی سے متعارف ہوئے تھے۔

آج اس تقریب کو یاد کرنے کی وجہ بہت اہم ہے اور وہ ہے کرامت علی کی یادوں پر مشتمل ایک کتاب کا شائع ہونا۔

اس کتاب کی اشاعت پر میں اپنے اندر خوشی اور غم دونوں طرح کی کیفیات محسوس کر رہی ہوں۔ ایک تو یہ کہ کتاب کرونا کے دنوں میں شائع ہوئی ہے اور کوئی تقریب منعقد کرنے کی بابت اگر سوچا بھی گیا تو فوری طور پر تو اس کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکے گا۔

خوشی کیوں ہے اس کا ذکر تو آگے چل کر کروں گی لیکن غم اس بات کا ہے کہ کرامت علی کے دیرینہ دوست بی اہم۔ کٹی اس کتاب کو نہیں دیکھ سکے اور اس دنیا سے پہلے ہی رخصت ہو گئے۔ سوچتی ہوں اگر وہ آج موجود ہوتے تو خوشی سے کتنے نہال ہوتے اور کتاب کو مزید بہتر اور تاریخی دستاویز بنانے کے میں بھی بھی بہت معاون ثابت ہوتے۔

کتاب ’راہ گزر تو دیکھو‘ کرامت صاحب سے لئے گئے کئی طویل نشستوں پر محیط انٹرویوز کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کے پیش کار ڈاکٹر سید جعفر احمد ہیں جو اس سے پہلے بھی یادداشتوں پر مشتمل کئی کتابیں مرتب کر چکے ہیں جنہیں علمی و ادبی حلقوں میں کافی سراہا گیا ہے۔

کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر جعفر نے اس کتاب کی تیاری سے اس کی اشاعت تک کی کہانی کو بڑے سلیقے سے بیان کیا ہے جسے پڑھ کر اس کتاب کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

پیش لفظ کی اخری سطور میرے لئے واقعی بے حد خوشی کا باعث تھیں جس کے لئے میں ڈاکٹر جعفر کی ممنون ہوں۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب ڈاکٹر صاحب نے کرامت علی سے لئے گئے انٹرویوز کی سی ڈیز مجھے دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کرامت صاحب کے انٹرویوز ہیں جو کئی گھنٹوں پر مشتمل ہیں، مجھے معلوم ہے کہ یہ کام آپ کے مزاج سے میل نہیں کھاتا لیکن آپ کو ہی ان انٹرویوز کو ٹرانسکرائب کرنا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت تک میں کرامت صاحب کو پائیلر کے ڈائریکٹر اور شیما کرمانی کے حوالے سے تھوڑا بہت ہی جانتی تھی۔ میں نے جب ان انٹرویوز کو ٹرانسکرائب کرنے کا کٹھن کام شروع کیا تو اسے مکمل کرنے میں کافی دن لگ گئے لیکن یہ مشکل کام مجھے بے حد پر لطف محسوس ہوا اور پاکستان میں مزدور تحریکوں اور ٹریڈ یونینز کی تاریخ سے آگہی کا بہترین موقع بھی میسر آیا۔

بلاشبہ کرامت علی پاکستان کے بائیں بازوں کی سیاست کا اہم نام ہیں اور مزدور تحریکوں کی آبیاری میں ان کی جد و جہد قابل ستائش ہے۔ ان کی زیادہ تر یادداشتیں اس دور سے متعلق ہیں جب صرف پاکستان میں ہی نہیں بل کہ پوری تیسری دنیا میں بائیں بازو کی سیاست، ٹریڈ یونین اور طلبا تحریکیں اپنے عروج پر تھیں۔ لاکھوں نوجوان خوابوں کی راہ گزر پر رواں دواں تھے۔ جدوجہد کرنے اور اعلی انسانی آدرشوں پر جانیں نچھاور کرنے والے ان گنت تھے۔

اب یوں لگتا ہے جیسے سب کچھ بکھر سا گیا ہے، اکیسویں صدی دنیا کو کہاں لے جا رہی ہے ہمیں کچھ خبر نہیں۔ عالمی سطح پر اس نظریاتی اور سیاسی زوال کے بعض بنیادی اسباب ضرور ہوں گے لیکن پاکستان میں ان تحریکوں کے زوال میں کمیونسٹ پارٹیوں کی آپسی کش مکش، اندرونی گروہ بندیوں اور کٹر نظریہ پرستی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کرامت صاحب کی یادداشتوں میں اس حقیقت کی جھلکیاں اپ کو جا بجا نظر آئیں گی۔

کتنی دلچسپ بات ہے کہ آج میں یہاں اٹلی میں مقیم ہوں اور ایک ایسے نجی ادارے سے منسلک ہوں جو یہاں کے کارکن طبقے اور تارکین وطن کو درپیش مشکلات کے حل میں ان کی معاونت کرتا ہے۔ اس ادارے میں اکثر اوقات فیکٹریوں میں کام کرنے والے کارکن آتے ہیں لیکن ان کے حالات اور وضع قطع کو دیکھ کر ایسا بالکل نہیں لگتا جیسے کہ وہ ہمارے ملک کی کسی فیکٹری میں کم کرنے والوں کی طرح کے کوئی کارکن ہیں۔

یہاں بھی محنت کش طبقے کو مختلف نوعیت کے مسائل اور استحصال کا سامنا رہتا ہے لیکن یہ دیکھ کر دکھ کم ہو جاتا ہے کہ ان مسائل کو سنیں اور انہیں حل کرنے کے لئے یہاں حکومتی سطح پر ادارے موجود ہیں جو ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔

جب تک انسان زندہ ہے وہ خواب دیکھتا اور خوابوں کی راہ گزر پر سفر کرتا رہے گا، خواب نئے ہوں گے، راستے بھی جدا ہوں گے لیکن خوابوں کا تعاقب جاری رہے گا۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ مستقبل میں پاکستان میں سیاسی، جمہوری، قومی اور مزدور حقوق کی جدوجہد میں بائیں بازو کے کردار پر تحقیق کریں گے ان کے لئے یہ کتاب ایک اہم ماخذ ثابت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments