وزیرستان کا نوعمر مصنف: بلاول داوڑ


پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بار بار نظر سے گزری کہ 12 سالہ بچے نے ”پشتون ہیروز“ کے عنوان سے پشتونوں کی تاریخ پر مبنی ایک کتاب لکھی ہے، یہ پوسٹ دیکھتے ہی یک دم میرے ذہن میں علامہ اقبال (رح) کا یہ شعر گردش کرنے لگا،

نہیں ہے نا امید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں اللہ رب العزت نے پاکستان کو لازوال خوبصورتی سے نوازا ہے، وہیں لاجواب قابل افرادی قوت سے بھی معمور فرمایا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں، کئی ایسے ستارے آپ کو ملیں گے جنہوں نے نہایت کم عمری میں ہی اس ملک کا نام روشن کیا ہے۔ چاہے وہ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جدوجہد ہو، یا ارفعہ کریم کی ٹیکنالوجی میں مہارت اور مائیکروسافٹ کی کم عمر ترین سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز اپنے نام کرنا ہو، یا پھر حماد صافی جیسے نوجوان پروفیسر اور موٹویشنل سپیکر کا پوری دنیا میں اپنا لوہا منوانا ہو۔ غرض ٹیلنٹ کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے، جنہوں نے نہ صرف اپنے خاندان کا سرفخر سے بلند کیا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کا نام بھی روشن کیا۔

حرف کو حرف سے جوڑ کر لفظ بنانا، پھر ان لفظوں کو ساتھ ملا کر ایک جملہ بنتا ہے، اور ایسے ہی ایک کتاب لکھنے میں سالوں لگتے ہیں۔ بلاول لطیف داوڑ جس کی عمر ابھی صرف 12 سال ہے، وہ ساتویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کا تعلق معاشی اور تعلیمی حوالے سے بے شمار مسائل کے شکار خیبر پختونخوا کے شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ سے ہے۔ اس نے حال ہی میں ”پشتون ہیروز“ کے عنوان سے انگریزی زبان میں اپنی کتاب مکمل کرکے پاکستان کے نوعمر مصنفین کی صف میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔

اس حوالے سے جب ان سے سوال کیا گیا کہ عمر کے ایک ایسے حصہ میں جب بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں آپ کو کتاب لکھنے کا خیال کیسے آیا تو اس کا کہنا تھا ”کہ 16 اگست، 2014 کو جب اے پی ایس پشاور پر حملہ ہوا، تو تب وہ حملہ جہاں میرے لئے ایک صدمہ کا باعث بنا، وہیں میرے اندر اپنے غیور قوم کی خاطر کچھ نیا کرنے کا جذبہ بھی ابھر آیا“ ، اس کو یہ کتاب مکمل کرنے میں تین سال کا عرصہ لگا، جب ان کی عمر محض 9 سال تھی تب اس نے اس کتاب پر کام شروع کیا تھا۔

وہ خود آرمی پبلک سکول کوہاٹ کا ہی طالب علم ہے اور مستقبل میں آرمی افسر بننے کا خواہشمند ہے۔ کتاب لکھنے کے پس پردہ مقاصد کے حوالے سے وہ مزید کہتے ہیں کہ ”اکثر ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے علاوہ کتابوں اور لطیفوں میں پشتون قوم کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور یہ رویہ میرے لئے انتہائی تکلیف دہ رہتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری اس کتاب میں موجود عظیم پشتونوں کی تاریخ کو پڑھا جائے، کیونکہ میرا خیال ہے کہ تاریخ پشتونوں کے بغیر ادھوری ہے“ ۔ وہ پشتو شاعر غنی خان اور انگریزی کتاب ”دہ پشتونز“ کے مصنف ”اولف کور“ کو اپنے پسندیدہ مصنفین میں شمار کرتے ہیں۔

بلاول نے اپنی کتاب میں سیاسی، ادبی، سماجی اور عسکری شخصیات کا ذکر کیا ہے، جبکہ اس کے علاوہ پشتونوں کی تاریخ اور اقوام کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ 131 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مکمل کرنے کے لیے ان کے والد اور استاد نے تحقیق کرنے میں ان کی مدد کی، ان کی یہ کتاب مستقبل قریب میں مارکیٹ میں آجائی گی۔

بلاول داوڑ نے اپنی کتاب کا آغاز معروف پشتون بادشاہ درانی سلطنت موجودہ افغانستان کے بانی احمد شاہ درانی (احمد شاہ ابدالی) سے کیا ہے، اس کے بعد سوری سلطنت کے بانی شیر شاہ سوری کا ذکر ہے، اور ابراہیم لودھی کے حوالے سے بھی اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ پاکستان کے نامور آرمی افسر کیپٹن کرنل شیر خان شہید کو بھی اس کتاب میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، ان کی بہادری اور جوانمردی کا اعتراف خود دشمن نے بھی کیا ہے، کارگل جنگ میں ان کی لازوال قربانی کو کون بھول سکتا ہے۔

جنرل ایوب خان، معروف پشتو شاعر رحمان بابا جن کی شاعری کو پشتو زبان میں ایک اعلی مقام حاصل ہے اور اس نے معروف پشتون رہنما باچا خان پر اپنی کتاب کا اختتام کیا ہے۔ نوعمر بلاول داوڑ نے اپنے آنے والے منصوبوں کے بارے میں بتایا کہ بلوچستان کے حوالے سے ایک کتاب پر ان کا کام جاری ہے اور وہ مستقبل میں پاکستان کی نامور شخصیات کے حوالے سے بھی ایک کتاب لکھنا چاہتے ہیں۔

بلاول کی یہ کتاب کسی شاہکار سے کم نہیں، ایک ایسے وقت میں کہ جب نوجوانوں کا ایک ہجوم سوشل میڈیا پر اپنا قیمتی وقت ٹک ٹاک اور دیگر ایسے غیر فائدہ معمولات پر ضائع کر رہے ہیں، ایسے میں بلاول نے کتاب دوستی کی ایک عظیم مثال قائم کردی ہے اور پاکستان میں رہنے والے نوجوانوں اور بچوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے اندھیروں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بلاول کی اس کم عمری میں عظیم کام کو سراہتے ہوئے ان کے لئے انعام کا اعلان کرے۔ اور بلاول کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کا اعلان کرے تاکہ دیگر نوجوان بھی اس سمت آنے کے بارے میں سوچیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments