پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ: مذہبی ہم آہنگی کی طرف قدم یا آزاد سوچ دبانے کی کوشش؟


کتابیں

پاکستان کے صوبے پنجاب کی اسمبلی نے حال ہی میں ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت ہر قسم کی ایسی کتابوں یا دیگر اشاعت پر پابندی ہوگی جن میں ’اللہ، پیغمبرِ اسلام، دیگر مذاہب کے انبیا، مقدس کتب، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، فرشتوں، اہلِ بیت کے حوالے سے کوئی گستاخانہ، تنقید یا ان کی عزت کم کرنے مواد شامل ہوگا۔’

اس کو پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ 2020 کا نام دیا گیا ہے اور قانون کے مطابق کتابوں میں ’جہاں بھی اسلام کے آخری پیغمبر کا نام لکھا جائے گا، اس سے پہلے خاتم النبیین اور اس کے بعد عربی رسم الخط میں صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم لکھنا لازم ہو گا۔‘

اسی طرح دیگر انبیا، صحابہ، خلفا راشدین، امہات المومنین اور دیگر مقدس ہستیوں کے نام کے ساتھ بھی اسلامی تعریفی القابات لکھنا لازمی ہوگا۔ ان تمام شقوں کا اطلاق ہر قسم کی ان کتابوں پر ہوگا جو پنجاب میں شائع کی جائیں یا کسی دوسرے صوبے یا ملک سے پنجاب میں لائی جائیں۔

صوبہ پنجاب کی حکومت اس قانون کی منظوری کو ’ایک تاریخی اقدام‘ قرار دے رہی ہے اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’اس قانون کے نفاذ سے مختلف کتب میں مذاہب (خصوصاً اسلام) کے بارے میں نفرت انگیز مواد کی اشاعت کی روک تھام ہوگی۔‘

تاہم انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اس قانون سازی پر ‘پنجاب اسمبلی کو خبردار کیا ہے کہ وہ تعصب کو ہوا دے رہی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

کیا ریاست کو کتابوں پر پابندی لگانی چاہیے؟

‘ثابت ہو گیا کہ اعجاز الحق انگریزی نہیں پڑھتے’

شجاع نواز کی کتاب کی تقریب رونمائی کیوں نہ ہو سکی؟

اس قانون کا ایک بڑا حصہ ان پابندیوں کی بات کرتا ہے جن کا تعلق اسلام یا مذہب سے نہیں ہے۔

نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ ہر اس قسم کے مواد پر پابندی ہو گی جو ’نظریہ پاکستان یا پاکستان کی خود مختاری، سالمیت اور سلامتی کو خطرے میں ڈالے۔‘

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسا مواد بھی نہیں چھاپا جائے گا ’جو اخلاقی اقدار اور تہذیب کے خلاف ہو یا بے حیائی یا پورنوگرافی وغیرہ کی تشہیر کرے۔‘

ایسی تمام کتابوں اور مواد پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جن میں دہشت گردی یا دہشت گردوں اور انتہاپسندی وغیرہ کی تشہیر ہو یا فرقہ واریت، تشدد اور نفرت انگیزی اور اس کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ ہو۔

کتابوں کی جانچ پڑتال اور شائع ہونے والے مواد کو اجازت دینے یا نہ دینے کے حوالے سے پنجاب کے اطلاعات و نشریات کے ادارے کو وسیع اختیارات دیے گئے ہیں جن میں چھاپہ خانوں پر چھاپے، مواد قبضے میں لینے، تحقیقات اور مالی اکاؤنٹ کی جانچ پڑتال جیسے اختیارات شامل ہیں۔

نئے قانون میں ایسا کیا ہے؟

اس نئے قانون کے تحت دو مختلف قسم کی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ایک سزا صرف قانون کی دفعہ 3 ایف کی خلاف ورزی پر ملے گی جو کہ موجودہ ضابطہ فوجداری کے تحت ہو گی۔

پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کی دفعہ 3 ایف وہ واحد دفعہ ہے جو اسلام کے حوالے سے ہے یعنی جس کے ذریعے مقدس شخصیات کے ناموں کے ساتھ اسلامی تعریفی القاب کا استعمال لازم بنایا گیا ہے۔

اس قانون میں پانچ سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی جو سزا رکھی گئی ہے وہ دفعہ 3 ایف کے علاوہ باقی تمام دفعات کی خلاف ورزی کی صورت میں دی جا سکے گی۔

قانون کی دفعہ 8 کی ذیلی دفعہ پانچ سے لے کر 11 تک ایک مرتبہ پھر دفعہ 3 ایف کی شرائط کو باری باری دوہرایا گیا ہے تاہم یہ دفعہ قومی اور بین الاقوامی کتابوں کے لیے قواعد و ضوابط کے حوالے سے ہے۔

ایچ آر سی پی کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اس بات کی توقع رکھنے کی کافی وجوہات موجود ہیں کہ نئے قانون کی دفعہ 3 ایف کو مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘

اطلاعات و نشریات کے ادارے کو کیا اختیارات دیے گئے ہیں؟

پنجاب حکومت کے شعبہ اطلاعات و نشریات ’ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشنز‘ کو نئے قانون میں بااختیار بنایا گیا ہے کہ:

  • کسی بھی چھاپہ خانے اور کتابوں کی دکان پر چھاپہ مار کر اور معائنہ کرنے کے بعد کوئی بھی کتاب کسی بھی مواد کے حوالے سے ضبط کرسکے گا چاہے وہ ابھی شائع ہوئی ہو یا نہیں
  • اس حوالے سے وہ کسی بھی عمل یا بھول چوک کی تحقیقات اور انکوائری کر کے تعین کر سکے گا
  • وہ موقع پر چھاپہ خانے کا ریکارڈ اور اکاؤنٹس چیک کر سکے گا یا اس کو پابند بنا سکے گا کہ وہ اس کے مقررکردہ نمائندے کے دفتر میں وہ ریکارڈ پیش کرے
  • وہ اپنے اختیارات کسی بھی افسر کو منتقل کر سکے گا

تاہم ڈی جی پی آر کے اختیارات یہاں ختم نہیں ہوتے۔ نئے قانون میں اسے تقریباً تمام احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔

قانون کی دفعہ 8 میں قومی اور بیرونی کتابوں کو منضبط کرنے کے لیے ڈی جی پی آر کو جو اختیارات دیے گئے ہیں ان کے مطابق:

  • کوئی بھی شخص ڈی جی پی آر کی اجازت کے بغیر کوئی بھی ایسی کتاب یا مواد شائع، نشر اور درآمد نہیں کر سکے گا جو پہلے پاکستان یا بیرونِ ملک میں شائع یا نشر ہو چکی ہے
  • کوئی بھی کتاب یا مواد شائع یا نشر کرنے کے لیے ڈی جی پی آر کو ایک فارم پر درخواست دینا ہو گی
  • قانون کی دفعہ ایک کے تحت اگر وہ کتاب یا مواد قومی مفاد، تہذیب، مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مخالف ہو گی تو ڈی جی پی آر یہ اجازت دینے سے انکار کرے گا
  • ڈی جی پی آر پابند ہو گا کہ وہ ہر وہ کتاب یا مواد جو مذہب کے حوالے سے ہوگا اسے قانون کی دفعہ ایک اور تین کے تحت متحدہ علما بورڈ کو بھجوائے

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ڈی جی پی آر کو کسی مواد کے قابلِ اعتراض ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا اختیار دیے جانے کو ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیا ہے۔

کیا پابندیاں صرف کتابوں تک محدود ہوں گی؟

نئے قانون میں ’کتاب‘ کی جو تعریف دی گئی ہے وہ صرف کتابوں تک محدود نہیں ہے۔ اس تعریف کے مطابق قانون میں جہاں بھی کتاب کا لفظ استعمال ہو گا اس کا مطلب ہو گا ’ہر وہ جلد یا جلد کا حصہ اور پمفلٹ جو کسی بھی زبان میں ہوں۔‘

’موسیقی، علامات، نقشے پر مبنی چارٹ یا پلان جو کہ انفرادی طور پر چھاپا گیا ہو یا دوبارہ چھاپا گیا یا بنایا گیا ہو یا لیتھوگراف پر بنایا گیا ہو یا پھر ڈسک اور اسی طرح کے ڈیجیٹل اور الیکٹرانک آلے پر کسی بھی دوسری سافٹ شکل میں بنایا گیا ہو۔‘

تاہم ان میں اخبارات، جرائد، رسالے، میگزین، نیوزلیٹر اور نصابی کتب شامل نہیں ہوں گی۔

کتابوں کا حساب رکھا جائے گا

قانون کے تحت ڈی جی پی آر ایک کیٹالوگ بنائے گا جو اس قانون کے تحت اسے ملنے والی کتابوں پر مبنی ہو گا اور اس میں کتاب کے حوالے سے تمام تر حقائق درج ہوں گے۔ ہر کتاب کو ایک منفرد نمبر الاٹ کیا جائے گا۔

کتاب صرف رجسٹرڈ چھاپہ خانے چھاپ سکیں گے اور ہر کتاب چھاپنے والا پابند ہو گا کہ وہ ہر تین ماہ کے بعد مقرر کردہ افسر کو چھاپے جانے والی کتابوں کی یادداشت جمع کروائے گا۔

اسی طرح کتابیں درآمد کرنے والے پر لازم ہو گا کہ وہ درآمد کے 15 روز کے اندر متعلقہ افسر کو درآمد شدہ کتابوں کی یادداشت جمع کروائے گا۔

ایچ آر سی پی کے اعلامیے کے مطابق ‘انھیں تشویش ہے کہ اس قسم کے اقدامات نہ صرف آزادی رائے بلکہ سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی پر بھی قدغن لگائیں گے۔’

’طاقت کو ہمیشہ کتاب سے ڈر لگتا ہے‘

ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کی طرف سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ضابطہ فوجداری کی دفعات 505 (2) اور انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی دفعہ 8 میں پہلے ہی نسلی اور فرقہ وارانہ نفرت انگیزی کے خلاف سزائیں موجود ہیں۔

’ایسے میں اس نئی قانون سازی کی نیت کتابیں جلانے کی دقیانوسی رسم کی طرح ہے۔‘

ایچ آر سی پی کے جنرل سیکریٹری اور شاعر و دانشور حارث خلیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسے اقدامات کوئی نئی بات نہیں ہیں مگر ان کے نتائج کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔

وہ کہتے ہی کہ ‘طاقت کو دوسری طاقت سے خوف محسوس نہیں ہوتا، بلکہ طاقت کو ہمیشہ خوف محسوس ہوتا ہے کتاب سے، موسیقی سے یا اس ادب سے جو انقلاب پسند ہو۔’

ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات کے دور رس نتائج کو تو تاریخ کا پہیہ کچل دیتا ہے تاہم اس کے فوری نتائج معاشرے کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔

حکومت یہ قانون کیوں لانا چاہتی تھی؟

پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کی ضرورت مذہب اور مقدس ہستیوں کی توہین جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے پیش آئی۔ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے قانون کی منظوری کے موقع پر بتایا کہ ماضی میں ایسے واقعات کی نشاندہی قرارداد کی صورت میں اسمبلی کے اراکین کر چکے ہیں۔

’ان قراردادوں کو بھی منظور کیا گیا تھا اور اب ہم نے اس پر قانون سازی بھی کر دی ہے، امید ہے کہ اس قانون کے بعد مذہبی اور فرقہ وارانہ جارحیت میں کمی آئے گی۔‘

انھوں نے تجویز دی کہ وفاق اور باقی صوبوں کو بھی اس قانون کے حوالے سے پنجاب کی تقلید کرنی چاہیے۔

’کتابوں پر پابندی مسائل کا حل نہیں‘

کتابوں پر پابندی کے حوالے سے تاریخ دان اور مصنف ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا تھا کہ ‘لوگوں کو خود سے اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق ہونا چاہیے کہ وہ کسی کتاب کو پڑھیں یا نہ پڑھیں یا مسترد کر دیں۔ کسی کتاب پر پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ قانون میں استعمال ہونے والی مختلف اصطلاحات ایسی ہیں جن کی تعریف نہیں کی گئی اور نہ ہی کی جا سکتی ہے۔ اس طرح ان کا استعمال اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر مبارک کا کہنا تھا کہ کتابوں پر پابندی سے پاکستان میں تخلیق کا عمل رک جائے گا جو پہلے ہی مسائل کا شکار تھا اور لوگ کتابیں نہیں لکھ رہے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ بنیادی طور پر نوجوان نسل کو جدید اور ترقی پسند نوعیت کا لٹریچر پڑھنے سے روکنے کی کوشش ہے۔ کیا یہ چاہتے ہیں کہ وہ صرف افسانوی کتابیں پڑھیں۔‘

مصنفہ اور ڈرامہ نگار آمنہ مفتی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی نیا لٹریچر تو ویسے بھی تخلیق نہیں ہو رہا۔ ’تو یہ کس کو ڈرانا چاہتے ہیں؟ یہ بنیادی طور پر ڈیجیٹل سپیس سے خوفزدہ ہیں اور اس کو قابو میں کرنا چاہتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp