پائلو کوئلو: گہر ہونے تک


اس سے پہلے کہ کیمروں کی فلیش لائٹس اور ریفلیکٹرز کی نیلی ڈسکو اسٹائل چمک کے بغیر پائلو کوئلو کے قدم اٹھنے سے بیزار ہو جائیں، رپورٹرز اور پاپا رازیوں کے ہجوم کے بغیر اس کا سانس دوبھر ہونے لگے، انٹرویوز، سیلفیاں اور آٹوگراف اس کے لیے زندگی کی اہم ترین خوشیاں بن جائیں اور وہ ایک عام انسان کی طرح عام بے نیاز لوگوں میں اک بے اثر بے نیازی کے ساتھ چل نہ سکے، ا س مشہور زمانہ لکھاری کی زندگی میں وہ وقت بھی آتا ہے، جب وہ اندھیرے کمروں مں تنہائیوں کو دکھڑے سناتا ہے۔ تاریک راتوں میں موم بتیوں کے سرہانے ان کے ساتھ سلگتا ہے۔ گیلے کاغذ پر سیاہ حروف اور غم زدہ لمحے اتارتا ہے۔ پلکیں سوکھ جانے کے بعد سورج کی پہلی شعاوں کے ساتھ نئے عزم اور نئے حوصلوں کے وعدے کرتا ہے اور ہر آنے والے دن اپنی محنت اپنی جنگ کا صفر سے دوبارہ آغاز کرتا ہے۔

پائلو کوئلو کی زندگی بھی کوپا کبانا بِیچ (Copacabana beach) کی سمت کھلنے والی کھڑکیوں، مہنگے اور پرتعیش فلیٹ سے پہلے رِیو ڈی جینیرو کے ایک متوسط علاقے کے متوسط گھرانے کے نا کام سپوت کی کہانی تھی۔ ایک ایسا نا کام بیٹا، بے کار انسان، جو نا تو اپنے اساتذہ سے توصیف سمیٹ سکا نہ والدیں کی پلکوں پر اترنے والے خوابوں کا بوجھ اپنی پوروں سے اٹھا سکا۔ ایسا عام آدمی جو اپنے اندر ایک مضطرب روح، ایک بے چین وجود کی شناخت کے سفر میں تھا اور سفر بھی ایسا جو طویل بھی تھا کٹھن بھی اور پر آشوب بھی۔

سالوں کی دھوپ سر پر کاٹنے، صدیوں کا بوجھ کندھوں پر اٹھا لینے کے بعد جب یہی مضطرب روح منظرعام پر آئی تو نا صرف شہرت کی تمام حدیں پار کر گئی، بلکہ ہزاروں لوگوں کو خواب دینے، نئی دنیائیں دریافت کرنے کی تحریک دینے اور تعمیر کے اسباق سکھانے لگی۔ دنیا بھر میں دوسو ملین سے زیادہ بکنے والے کتابوں اور اسی زبانوں میں ترجمہ ہونے والے ناول الکیمسٹ کا مصنف جس کے الفاظ سے ہزاروں لاکھوں لوگ روزانہ سونے سے پہلے زندگی اور معاشرے کے ہاتھوں اپنی کچلی روحوں کو تسلی دیتے ییں، اپنے ماضی کو دفن کرنے اور نئی صبح کو روشن کرنے کا عزم کرتے ہیں، اسی کا نام پائلو کوئلو ہے۔

اپنی پیدایش ہی سے بد قسمتیوں کے شکار پائلو کوئلو نے زندگی کے پہلے سانس سے اس کی سختیوں اور مصائب سے لڑنے کی ہمت پکڑ لی تھی۔ اسی لیے جب غم زدہ باپ اور آنسو بہاتی ماں اس نوزائیدہ بچے کے کفن دفن کی تیاری کر رہے تھے، وہ انگڑائیاں لیتا اٹھ بیٹھا۔ اپنے نصیب میں لکھی گئی نایاب زندگی کے ایک طویل عرصے تک پست قد کے ساتھ بلندیوں کے لیے لڑنے والا پائلو آخر اپنے ریگزاروں، پتھریلی مسافتوں اور نم شبوں سے گزر کر اپنے ہنر کی معراج پر پہنچ جاتا ہے۔

پتلی ٹانگوں اور بڑے سر والا بد صورت لگنے والا بچہ پائلو، ابتدائی عمر سے ہی غیر مقبول ثابت ہوا۔ سہیلیوں کو متوجہ کرنے کی خوب صورتی نہ تھی دوستوں میں دھاک بٹھانے کو ہمت تھی۔ نا بہادری۔ والدین کا لاڈلا بننے کو روایت پسندی نہ تھی۔ ا یسے میں خود کو خوش رکھنے اور دوستو ں کو متاثر کرنے کا ایک ہی ذریعہ تھا، اس کے پاس۔ اس کی کتابیں اور مطالعہ۔ بچپن ہی سے مطالعے کے شوقین پائلو کوئلو نے اسکول کے دور سے ہی آنکھوں کی پتلیوں پر لکھاری بننے کا ایک خواب، ایک جذبہ بن لیا تھا۔

اسکول کی نصابی قابلیت اپنے والدین کی تمام تر کوشش کے باوجود، وہ آسانی سے حاصل نہ کر سکا۔ اسکول کے رِکارڈ میں ہمیشہ آخری نمبر پر رہنے والا اور ہر وقت اسکول سے نکالے جانے کے خوف میں پروان چڑھنے والا نوجوان، جب ایک دن ایک تخلیقی شاعری کے مقابلے میں، اپنے اسکول سے نمبر ون آتا ہے، تو اس کی آنکھوں کو ایک خواب ملتا ہے۔ ایک ایسا راستہ جس پر اس کے لیے تالیاں بج سکتی ہیں۔ وہ انعامات جیت سکتا ہے اور ناکامیوں سے نکل کر کامیابی کا مزہ چکھ سکتا ہے۔ اس پر آشکار ہوتا ہے کہ اسی سمت اس کی طبعیت کا دریا بہتا اور اس کے جذبوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔

جلد از جلد والدین کو یہ خوش خبری دینے، خوابوں کی اونچی اڑان اور لکھاری بننے کا خواب سنانے کی چاہ لیے، وہ اسکول سے نکلنے والے پہلے طلبا میں سے تھا۔ اس کے ہاتھ جیسے قارون کا خزانہ لگا تھا کہ جسے دیکھ کر اس کے والدین خوشی سے اچھل پڑتے۔ اس کے بوسے لیتے اور اس پر فخر کرتے۔ کم سے کم اس کا نوجوان دل ایسے ہی سوچ رہا تھا۔ گھر پہنچتے ہی دروازے پر باپ کو کھڑے گھڑی دیکھتے پایا۔ پائلو کے دیر سے گھر آنے پر باپ کا غصہ اور لہجے کی سختی نا اس کی ٹرافی ختم کر سکی، نا انعام کی رقم۔

‘مجھے اچھا لگتا، اگر تم یہ ٹرافی اپنی اسکول کی پڑھائی میں لیتے اور وقت پر گھر آتے۔’

کیا آپ کو بھی یہ جملہ اپنی زندگی میں کئی بار کا سنا لگتا ہے؟ وہ ٹوٹے دل کے ساتھ ماں کی سمت بڑھتا ہے کہ شاید اس کے جذبات اس کی ماں کے دل میں کوئی سر جگا سکیں۔ اس کی کامیابی ماں کے چہرے پر رونق اور آنکھوں میں چمک لا سکے،۔ مگر وہاں بھی روایتی ماں کا عکس ایک غیر روایتی جنون کو کچلنے کے لیے موجود تھا۔

‘برازیل میں چالیس ملین لوگ ہیں، جن میں ہزاروں لکھاری ہیں لیکن اپنے اس فن سے کمانے والا صرف جارج آماڈو ہے۔ ۔ ۔ صرف ایک!’

یقیناً پائلو کوئلو کی زندگی میں آنے والی یہ پہلی روتی سلگتی، کالی رات تھی جو اس نے گزاری۔ اپنی جیت جس کو تھامتے اس کی ٹانگیں کانپیں اور دل کی دھڑکنوں میں طوفان بپا رہا۔ اس کے والدین، جو اس وقت اس کی زندگی کا واحد محور تھے، کے چہرے پرایک مسکراہٹ تک نہ لا سکی تھی۔ تاریک شب کے سناٹوں میں وہ اپنے بستر پر بہتے آنسوؤں، ٹوٹے ارمانوں اور زخمی جذبات کو سنبھالتا رہا اور اگلی صبح کی پہلی کرن کے ساتھ اس عزم کے ساتھ جاگا کہ اگر اسے لڑنا ہی ہے تو وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے لڑے گا۔ چاہے اس کے مدمقابل اس کے اپنے والدین ہی ہوں۔

پائلو کا دل مکتب کی کتابوں اور اسباق میں نہ لگتا ایک روایتی اطاعت گزار بیٹے اور رائج طریقوں کے مطابق چلنے والے نوجوان کا کردار نبھانا اس کے لیے کٹھن تھا۔

‘اگر سب لوگ زمانے کے طریقوں کو اسی طرح سیکھ لیں گے، تومعاشرے میں تبدیلی کہاں سے آئے گی؟’

ایک انٹرویو میں پائلو نے کہا:: دوسری طرف والدین کے لیے اس کے لکھاری بننے کا خواب نا قابل قبول تھا۔ انہیں پائلو کو ایک عام ذہین انسان بنانا، دو جمع دو، چار کر کے پیسہ کمانے والا مرد اور روزگار کی درجہ بندیوں میں انجینیئر کی صفوں میں دیکھنا تھا۔ دنیا کے بانٹے ہوئے درجوں میں صف اول پہ لانے کی، ان کی کوشش نے پائلو کی روح پر خوب کچوکے لگائے۔

‘کیا تم کو پتا بھی ہے کہ رائٹر ہونے کا کیا مطلب ہے!’

یقیناً برازیل میں اس کا مطلب بھوک، افلاس، غربت اور ناکامی ہی تھا اور پائلو نے اپنی اس لگن میں ان سب کا جی بھر کے مزہ لوٹا۔ سالوں تک لکھاری بننے کی دھن اس کے لیے ایک روزگار پیدا نہ کر سکی۔ والدین پر منحصر ہونا اس کے لیے پاگل خانے کی راتوں کا باعث بنتا رہا اور اس کی قید سے فرار کی کوشش اس کے لیے فاقے اور بیماری کا باعث بنتے رہے۔ یہ ممکن تھا کہ پائلو والدین کے مشوروں پر چل کر کوئی فنی تعلیم حاصل کرنے کی اور بہ روزگار بننے کی کوشش کرتا، مگر اس کوشش میں اس کا دل دماغ اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتے۔ چناں چہ سالوں تک ایک اصل لکھاری کی طرح غربت افلاس اور مسکینی اس کا لباس بنا رہا۔ پھر بھی عجیب ہٹ دھرم اور ڈھیٹ دل تھا پائلو کا کہ کاغذ قلم اور لفظوں کے علاوہ کہیں لگتا نہ تھا۔ مگر کتابوں میں گم رہنے والے پائلو کے لیے نصابی کتابیں ایک سزا تھیں کہ جن پر اس کا دل ٹھہر ہی نہ پاتا۔

‘مجھے (نصابی پڑھائی سے) چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بھٹکا دیتی تھی، چاہے وہ خود کتنی ہی بے کار کیوں نہ ہو۔’

پیڈرو (باپ) اور لیگیا (ماں) اسے کتابوں اسکول اور پڑھائی کی طرف دھکیلتے تاکہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلے اور پائلو کا دل اسے کھینچ کھینچ کر کاغذ قلم تک لاتا۔ سزائیں، گھر میں محدود ہونا، جیب خرچی کی بندش اس کے لیے عام تھیں، جو اکثر و بیش تر اس کے ڈوبتے ابھرتے گریڈوں کی وجہ سے اس کا مقدر بنی رہتیں۔

‘شہرت اور عزت جب گھر کی باندی ہو گئی تو یہ کہنا اس کے لیے خاصا آسان تھا کہ یہ سب انہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کے لیے نہیں کیا۔ اصل میں وہ میرا بھلا ہی چاہتے تھے۔’

لیکن ان سزاوں اور سختیوں کو خود پر جھیلتے پائلو ہزارہا اذیتوں سے گزرا۔ اس کے اندرکتاب لکھنے اور لکھاری بننے کی آرزو تڑپ رہے تھی۔ اس کے خواب لفظوں کی صورت صفحات پر اترتے رہے اورکاپیاں پر ہوئی جاتی تھیں۔ وہ اپنے دل کی موسیقی پر سر دھننے کے لیے بے چین تھا۔ راستہ تھا کہ سامنے کوئی کھلتا نہ تھا اور اگر کھل جاتا تو پیڈرو اور لیگیا اس کو بند کرنے میں پوری طرح مستعد تھے۔ اس کی لگامیں پکڑنے اور اس کے قبلے کو درست کرنے کی کوشش کرنے والے، اس کے لیے کس قدر تکلیف کا باعث ہوں گے اس کا اندازہ، ان رستوں اور ان پتھروں سے گزرنے والا باآسانی کر سکتا ہے۔

اپنی بصیرت پر یقین رکھنے والا پیڈرو بیٹے کو ایک کامیاب اور نارمل فرد بنانے کی جدوجہد میں دراصل اس کے فطری میلان کو بدلنے اور اپنی مرضی کے رنگ میں ڈھالنے کی کی کوشش کرتا رہا۔ پائلو کا حوصلہ ہر قدم، ہر مشکل اور ہر بندش پر اس کی پیٹھ تھپکتا۔ اسے حوصلے دیتا رہا۔ سب کچھ ہار کر وہ جو چیز بچا لیتا تھا، وہ اس کا عزم اور خواب کی تکمیل کا جنون تھا۔

‘زندگی میں صرف ایک چیز ہے جو آپ کو ہرا سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ ہے ہار کا خوف!’

اور یہ خوف پائلو کی کسی جیب میں نہ تھا۔

سترھویں سال میں اسکول سے جان چھڑاتے پائلو کو ایک مقامی اخبار میں رپورٹر کی عارضی نوکری مل گئی۔ لکھنے لکھانے کے شوق کے لیے یہ ایک پرلطف نوکری تھی اور جرنلسٹ کہلانے کے شوق میں پائلو اسکول بھلا کر دل و جان سے اپنی نوکری میں مگن ہو گیا۔ عارضی نوکری سے جہاں پائلو خود بے تحاشا مطمئن اور خوش تھا وییں پڑھائی کی دن بدن بگڑتی حالت اور کچھ چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے والدین کے لیے سردرد بن کر رہ گیا تھا۔ چناں چہ ایک دن جب پائلو کی عارضی نوکری باقاعدہ صحافت میں بدلنے والی اور اس کی تنخواہ اور جرنلسٹ کارڈ کا اجرا  ہونے والا تھا، پیڈرو کوئلو اور لیگیا اسے بہلا پھسلا کر نفسیاتی اسپتال میں لے پہنچے، جس کی نویں منزل کی قید تنہائی میں ایک کمرا اس کے لیے اگلے بیس دن تک کے لیے وقف ہو چکا تھا۔

ماں اور باپ اس کی اخبار میں ملنے والی کامیابی سے مکمل لاتعلق، بے خبر اور اس کی پڑھائی میں ناکامی اور دن بدن بگڑتے ہوئے رویے اور مصنف بننے کے شوق سے شدید پریشانی کا شکار تھے۔ ایک بے نیاز لاعلمی سے پائلو کے خوابوں کی تکمیل کی راہ میں حائل ہو گئے تھے۔ باپ کے خیال میں ایک روایتی خاندان میں اس کے غیر روایتی رویے اس کی بیماری کی دلیل تھے۔ لیگیا، اس کی ماں کو شک تھا کہ بیٹے کو کچھ جنسی امراض لاحق ہیں۔ شاید!

‘میں نے وہاں بیس دن بتائے۔ میری کلاسیں چھوٹیں، نوکری گئی اور مجھے ایسے رہا کیا گیا، جیسے میں صحت مند ہو گیا۔’

حالات سے لڑنے، اور خود کو حوصلہ دیے رکھنے کے لیے پائلو کے پاس ‘ایک خاص راستہ’ تھا، جو اس کے کالے پانیوں میں روشنی کر دیتا۔ اس کی اندھیری مضطرب راتوں کو پرسکون کر دیتا۔ وہ خاص راستہ اس کا قلم اور ڈائری کے اوراق پر مشتمل تھا۔ اپنی ڈائری کے اوراق پر اپنے من مندر کھول کر بیاں کر دینا، پائلو کی عادت ثانیہ تھی۔ اس کی تنہائی کی تلخیوں کی اکیلی رازدار۔ اس کے وجود کی تہوں میں پنپتے جذبوں کو راستہ دینے والی دوست اور تکلیف دہ لمحوں کی سختی کم کرنے والی واحد غم گسار! یہی وہ سہولت تھی جس سے وہ سورج کی تمازتوں کو سہنا اور زہریلے رویے پینا سیکھ گیا۔ نفسیاتی اسپتال میں نفسیاتی ڈاکٹر کی رائے کے مطابق:

‘پائلو زیادہ تکلیف اس حقیقت کی وجہ سے برداشت کر گیا، کیوں کہ اس کے پاس الفاظ تھے۔’

پائلو کے پاس لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے نہ ہیرو سا چہرہ تھا، نا باکسر سی باڈی اور نا ڈسکو سی پھرتی! اس کی کتابیں اور مطالعہ اس کا اثاثہ تھے، جو اسے ایک خاص مقام دلائے رکھتے۔ سترہ سال کی عمر میں پائلو نے اپنی کچھ نظموں کا مجموعہ ایک لوکل اخبار کے ایڈیٹر کو اس کی رائے لینے کے لیے بھیجا۔ اخبار میں چھپنے والا ایڈیٹر کی طرف سے تذلیل کی حد تک حوصلہ شکن اور سنگ دل جواب ایک بار پھر پائلو کو آسمان سے گرانے کے لیے کافی تھا۔ مگر پائلو کے چٹان حوصلے بھی کمال تھے۔

”اگر تم اپنے دوستوں اور دشمنوں سے ایک اور موقع کی درخواست کر سکو اگر تم ‘نہیں’ سنو اور سمجھو کہ ‘شاید’ اگر تم میں ہمت ہے کہ تہہ سے شروع کرو اور اپنے تھوڑے کو زیادہ سمجھو اور خود کو ہر لمحہ نکھارو اور مغرور ہوئے بغیر بلندیوں تک پہنچو تو تم ایک لکھاری ہو گے۔”
پائلو نے اپنی ڈائری کے اوراق پر خود کو تسلی دی۔

اسپتال سے رہای کے بعد صحافی بننے کے مواقع ختم ہو چکے تھے۔ جو وقتی کام ملا، وہ اس کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی نظر ہو گیا۔ پائلو خالی ہاتھ ہو کر سڑک پر آ گیا۔ ایسے وقت میں اسے ایک مقامی تھیٹر میں بچوں کے کلاسک ڈرامے پنچیو میں ایک انتہائی معمولی کردار کی آفر ہوتی ہے، جس کا کام صرف وقفے کے دوران میں بچوں کو متوجہ رکھنا تھا۔ نظریہ ضرورت کے پیش نظر ہنسی خوشی اس موقع کو قبول کرنے کے سوا، اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔

پائلو نے اس ڈرامے میں ‘آلو’ کے روپ میں ایک جوکر بن کے اپنے تھیٹر کے سفر کا آغاز کیا۔ اپنی دل چسپی اور لگن سے کچھ ہی دنوں میں خود کو اس ڈرامے کا لازمی حصہ بنا لیا۔ پوسٹرز پر فن کاروں کے ساتھ، اس کا نام لکھا جانے لگا۔ پائلو بڑے بڑے خواب ضرور دیکھتا ہے، پر اس کی تکمیل کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے سے نہ جھجکتا ہے، نہ تھکتا ہے۔ آغاز چاہے کتنا ہی حقیر اور گھٹیا ہو۔ اگر یہی منزل تک لے کر جاتا ہے، تو پائلو اسے اسی شوق اور لگن سے سرانجام دیتا ہے کہ قدم خود بخود اگلی منزل کی طرف اٹھنے لگے۔

یہ ڈراما پائلو کے تھیٹر کے سفر میں اس کی کامیابی کے در وا کرتا ہے۔ اس کے بعد پائلو کو مختلف ڈراموں میں مواقع حاصل ہونے لگتے ہیں۔ اگر معاشی پس ماندگی کو نظر انداز کیا جائے، تو اگلے کچھ عرصے میں وہ بھرپور تالیوں کی گونج میں، لڑکیوں میں مقبولیت، رات بھر کی ریہرسل اور اخباروں اور رسالوں میں شہرت کے ساتھ اپنے خوابوں کی زندگی جیتا دکھائی دیتا ہے۔ اس دوران میں اس کا لکھا پہلا ڈراما اسٹیج ہوتا ہے، جو اگرچہ بری طرح ناکام ہوتا ہے، مگر اس کے فخر کے لیے یہ بات کافی تھی کہ ”کم از کم میں نے کوشش ضرور کی۔

اسٹیج پر فن کار کے طور پر ملنے والی اس کامیابی کے ساتھ اسکول کی نا کامی خوب وفا کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پائلو کو ناکامی سے بچنے کے لیے شہر کا دوسرا بہترین اسکول اینڈریو کالج چھوڑ کر ایک نچلے درجے کے کالج میں داخلہ لینا پڑتا ہے۔ شہر کا پہلا بہترین اسکول، وہ بہت پہلے ہی انہی وجوہ کی بنا پر چھوڑنے پر مجبور ہو چکا تھا۔ باپ کے ٹوٹے ہوئے ارمان کافی حد تک اپنی موت مر چکے۔ پیڈرو کی توجہ اب صرف اس بات پر ہے کہ وہ اپنے لیے کسی مناسب روزگار کا بندوبست کر کے اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔

پائلو گھر میں کچھ آسانیاں حاصل کرنے کی خاطر پیڈرو کی شرط اور سفارش پر کچھ چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرتا ہے۔ حتی کہ ایک فیکٹری میں نچلے درجے کے مددگار تک کی نوکری وہ پورے حوصلے سے نبھاتا ہے، تا کہ ایک مخصوص تنخواہ حاصل کر کے اپنا خرچہ اٹھا سکے۔ جب کہ دن بھر کی اس مزدوری کے بعد رات دیر تک اپنے شوق کی تسکین کے خاطر تھیٹرکی ریہرسل میں حصہ لیتا ہے۔

‘ یہ ایک دھیمی رفتار کی خود کشی تھی۔ میں یہ کر ہی نہ پا رہا تھا کہ ہر صبح چھے بجے اٹھوں، سات تیس پرجھاڑو لگانے سے کام شروع کروں اور سارا دن کھانے کے لیے رکے بغیر، سامان ادھر سے ادھر لے جاتا رہوں اور پھر آدھی رات تک مجھے ریہرسل کے لیے جانا پڑے۔’

اس حقیر نوکری کی بدولت ہی اسے گھر میں رات گیارہ بجے کے بعد داخلے کی اجازت ملتی۔ اب وہ پوری توجہ سے تھیٹر کی صورت میں اپنی من چاہی زندگی اور کام میں غرق ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف سخت طبیعت پیڈرو، پائلو کی رات دیر تلک ریہرسل برداشت نہ کر سکا اور ایک بار پھر رات گیارہ بجے واپسی تک کا سخت قانون نافذ ہو گیا۔ ایک رات گھر پہنچنے پر اس کو ہمیشہ کی طرح گھر کا دروازہ بند ملتا ہے، تو طیش میں آکر لوگوں اور باپ کے غصے کی پروا کیے بغیر وہ گھر کی کھڑکیاں اور دروازے تؤڑنے پر تل گیا۔

اس سے پہلے کہ آس پڑوس کے لوگ جھانکیں کہ باہرکیا تماشا برپا ہے، پائلو کے گھر کا دروازہ اس پر کھل جاتا ہے۔ پائلو بغیر کسی بحث میں پڑے سیدھا اپنے کمرے میں جا کر دُھت سو جاتا ہے۔ اگلی صبح اس کی آنکھ دوبارہ اسی نفسیاتی اسپتال کے عملے کے درمیان کھلتی ہے، جو اسے لے جانے آئے تھے۔ وہ نفسیاتی اسپتال جو اس کی زندگی کو آسیب بن کر چمٹ کر گیا تھا۔

‘کچھ ہمسایوں نے فاصلے سے وہ کم زور سا لمبے بالوں والا نوجوان سر جھکائے کار میں بیٹھتا دیکھا۔ جی ہاں! اپنا سر جھکائے! وہ ہار چکا تھا۔’

اس کے خوابوں کی اُڑان اور اس کی رسائی کے بیچ میں ایک بار پھر والدین کا خودغرض پیار اور غصہ آ کر اس کو پھر سے زنداں میں لے آیا تھا۔ نفسیاتی اسپتال میں گزارے اعصاب شکن دن پائلو نے سینے پرکھائی جانے والی گولی کی طرح سہے۔ اک ذی شعور فردکے اپنے خوابوں اور مستقبل کی جستجو میں مصروف دن جب ایک دم سے نفسیاتی مریضوں کے بیچ نویں منزل پر سلاخوں کے پیچھے بند ہوجائیں۔ وہ مہینوں سورج کی صورت دیکھنے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کو چھونے کو ترس جائے۔ دوست احباب کو ایک گم گشتہ خواب کی طرح پکارنے اور بجلی کے جھٹکوں اور غنودگیوں کے بیچ میں گم شدہ ہو جائے، تو ایک کم حوصلہ شخص کی ہمت ٹوٹتے، امید چھوٹتے دیر کتنی لگتی ہے۔ مگر ایک عام سا بد قسمت نوجوان جس کی زندگی ناکامیوں سے اٹی پڑی ہے۔ جو اپنے ماحول اور لوگوں کے لیے ایک بے کار بد صورت حقیقت سے بڑھ کر کچھ نہیں، پہاڑ سا حوصلہ دکھاتا ہے۔

‘آپ ان تجربات کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں، پائلو کی زندگی دکھی ہے، لیکن میں ایسے نہیں دیکھتا! میں خود میں کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہوں، جس نے خود کے ساتھ بے تحاشا سچا رہنے کی کوشش کی۔ جی ہاں! اس کی ایک قیمت ہے لیکن مجھے یقین ہے، یہ زندگی ان لوگوں کے لیے بہت فیاض ہوتی ہے، جو مشکلوں سے گھبراتے نہیں۔’

اس قید کے دوران میں لکھنے کا شوق، پائلو اپنے محبوب ٹائپ رائٹر کے ساتھ جو اس کی فرمایش پر پیڈرو نے اسے تحفتہ دیا تھا، اپنی روزانہ کی روداد، ”دی بالڈ آف کلینیکل گول” لکھتا رہا، جو ایک پر کترے پنچھی کی پنجرے میں بند آپ بیتی سے کم نہیں۔

آسکر وائلڈ کی ”دی بالڈ آف ریڈنگ گول” کی طرز پر لکھی اس روداد کے الفاظ، ان کی جلن اور تلخی پائلو کے اندر کی اذیت کا پتا دیتی ہے۔ اپنی سال گرہ پر لکھا اس کا نوحہ اور فادڑز ڈے پر اپنے باپ کو لکھے خط اس کی بے چارگی اوربے بسی کی زندہ داستان ہیں۔

‘صبح بخیر ڈیڈ! میرے ہاتھ خالی ہیں۔ میں آپ کو دیتا ہوں، یہ ابھرتا سورج، سرخ اور طاقت ور، تا کہ آپ کم افسردہ ہوں اور زیادہ مطمئن۔ یہ سوچ کر کہ آپ ٹھیک ہیں اور میں خوش!’

محبتیں اپنی جگہ موجود رہتی ہیں۔ ان کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ مگر بعض اوقات تکلیف دہ رویے محبت کرنے والوں کی محبت دھندلا کر خسارے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہ خسارہ صرف پائلو کے حصے میں نہیں تھا اس کے والدین بھی اسی تکلیف سے گزر رہے تھے، جس سے وہ خود برسر پیکار تھا۔

‘میں اپنے والدین کے لیے ایک ڈراونا خواب تھا۔’

فرنانڈو مورس نے پائلو کے ان تکلیف دہ لمحوں کو اس کی ڈائری سے لے کر پائلو کی داستان حیات ”ایک جنگ جو کی زندگی” میں واضح جگہ دی ہے۔

یہی پر یہ نغمہ ختم ہوا اور میں بھی
کوئی پیغام بھیجنے کو نہیں، کچھ نہں،
نہ جیتنے کی کوئی خواہش
ایک خواہش جسے انسانی نفرت نے چیر پھاڑ دیا
ایسا محسوس کرنا اچھا لگا! مکمل شکست!
چلو اب پھر دوبارہ شروع کریں!

پائلو خود کو حوصلہ دیتا، اپنے ہی کاندھے پر سر رکھتا اور اپنی ہی ہتھیلیوں سے آنسو پونچھتا ہے۔ اچھے دنوں کی امید سے ذہنی بیماری کے خوف اور نفسیاتی تشدد کو برداشت کرتا ہے۔ اپنے تجربے کو مفید اور کارآمد بنانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آگ برساتا سورج آخر ڈوب جائے گا۔ موسم بدل جائیں گے۔ وقت گزر جائے گا۔ قیامت سا کٹھن سفر پوری شدت اور طاقت سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا عزم لیے، پائلو اپنے حوصلے تھامے بیٹھا رہا۔ لکھتا رہا۔ اس امید پر کہ یہ تجربات اور مشاہدات کسی دن کسی دوسرے شخص کے کام آ سکیں۔ جیسے بہت سارے پرانے لوگوں کی باتیں، اس کے کام آتی رہی تھیں۔

‘اب مجھے سب پھر سے شروع کرنا ہے۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ جو ہوا، مذاق تھا یا ایک جان بوجھ کر کی گئی غلطی! اس سے مجھے ایک موقع ملا ہے، با شعور ہونے کا اور خود اعتمادی حاصل کرنے کا۔ اپنے دوستوں کو اچھی طرح سمجھنے کا۔ ان چیزوں کو جاننے کا جن پر میں نے پہلے کبھی نہیں سوچا۔’

ایک بڑے کامیاب شخص کی عظیم الشان کامیابی کے پیچھے قسمت کا چھکا کم ہی ہوتا ہے۔ عام طور پر اس کے پیچھے عمر بھر کے گرم راستوں کی سختیاں، لہولہان کرنے والے پتھر اور پتھروں کو توڑ دینے والی ناکامیاں ہوتی ہیں، جن کو بہت حوصلے اور ظرف کے ساتھ، اس نے قطرہ قطرہ پی رکھا ہوتا ہے۔

نفسیاتی اسپتال میں جہاں چیختے چلاتے یا ہواؤں میں گھورتے، آسمانوں کو سر پر اٹھائے اور کائنات کو بغل میں دبائے نفسیاتی مریضوں کے بیچ میں اپنا شعور قائم رکھنے کی ایک کٹھن جنگ تھی، وہیں اس قیام نے پائلو کو زندگی کی تلخ صورتیں دکھا کر اس کے اندر مثبت تحریک پیدا کی۔ ادراک دیا کہ وہ زندگی کی مشکلوں سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ رکھنے میں بہت لوگوں سے بہتر صورت احوال میں ہے۔

‘اپنے کہیں بہت اندر میں جانتا ہوں کہ میں دنیا کا بد قسمت ترین انسان نہیں ہوں! میری رگوں میں جوانی بہتی ہے ا ور میں ہزاروں دفعہ سب کچھ دوبارہ سے شروع کر سکتا ہوں!’

دوسری بارتین ماہ سے زیادہ دنوں پر محیط، یہ قید بالآخر اس کے اسپتال سے بھاگ جانے پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ کچھ دن ادھر ادھر کی دھول اور فاقے چاٹ کر جب پائلو گھر لوٹتا ہے، تو پیڈرو اور لیگیا کو سرنگوں پاتا ہے۔ بیٹے کی گم شدگی کی اذیت ان کی بوڑھی ہڈیوں سے ضد کو نچوڑ چکی ہے۔ اس جدائی نے ان کو مجبور کر دیا کہ وہ بیٹے کی کامیابی کو اس کی زندگی پر قربان کریں۔ پائلو کی مرضی کو تسلیم کر کے، وہ گھریلو زندگی کے سخت پیمانے نرم رویوں میں بدل دیتے ہیں۔ کچھ عرصے کے لیے پائلو کی زندگی کی ایک مشکل آسان ہو کر اسے پرسکون اور مطمئن دن نصیب ہو نے لگتے ہیں۔ وہ پھر سے پوری توجہ سے لکھنے لکھانے کی کوشش اور تھیٹر کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

لکھاری بن جانے کا خواب ابھی اپنی مٹی نرم نہیں کر پایا، مگر تھیٹر کی دنیا اپنے در پائلو پر وا کر چکی ہے۔ پائلو بچوں کے ڈراموں سے مقبول ہو کر باقاعدہ تھیٹر کا رائٹر، ایکٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہونے کا سفر، اکیس سال کی عمر تک مکمل کرتا ہے۔ کچھ عرصے میں (SBAT ( BRAZILIAN SOCIETY OF THEATRE WRITERS کا ایک معزز رکن بن جاتا ہے۔

پائلو کا اتار چڑھاو لیے کیریئر، نشیب و فراز کو پار کرتے جاتا ہے۔ پائلو کی 69 سال کی زندگی کا مختصر جائزہ لیا جائے تو بیس سال کی عمر ان گھمبیر مشکلوں اور بہترین کامیابیوں کے لیے خاصی کم سن ہے۔ ان کامیابیوں کی دستک اس کی زندگی کے دروازے پر سنائی دینے لگی تھی۔ مگر بیس سال کی عمر میں جب جذبات اور خواب اپنے عروج پر ہوں، آس پاس کے ہم عمر لوگ ڈاکٹر انجینیئر بن کر خود کفیل ہو چکے ہوں، وہ اپنی ذاتی ضرورتوں کا بوجھ بھی بہت مشکل سے پورا کر پاتا تھا۔

ایسی تیز رفتاری سے چلنے کی جنونی عمر میں زندگی کی ننھی کامیابیاں اسے ناکامیوں کی یہی اک صورت دکھتی تھیں اور وہ اپنی حالت بہتر سے بہتر بنانے کے خواب دیکھتا تھا۔ اس کے خوابوں کی اڑان زندگی کے حقائق سے بہت اونچی تھی۔ یہ بھی سچ تھا کہ کامیابی کے پلڑے میں شوق اور جنون جتنا بھی ان مول ہو کمائی کے بغیر بے مول ہی رہتا ہے۔

پائلو کی زندگی میں صرف کیریئر کی ناکامیاں ہی نہ تھیں۔ لڑکیوں میں مقبول رہنے کی خواہش اس کی بچپن کی بد صورتیوں کی وجہ سے خود کو منوانے کی ایک لاشعوری کوشش تھی۔ یا ماں کے اندیشوں کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کی ایک شعوری کوشش۔ لیکن اس کے مطالعے کا دیا ہوا اعتماد اسے لڑکیوں میں مقبول رکھنے لگا تھا۔ اگر چہ ان کے سمجھدار والدین اکثر اس بد صورت اور نا کام ایکٹر کو پسند نہ کرتے تھے۔ نوجوانی کے معاملات اور گرل فرینڈز کے دییے ہوئے دکھ بھی اس کی زندگی کی بڑی اداسیوں اور غم کی ایک وجہ تھے۔

ایسے ہی ناکامی کے ایک جذباتی اور کم زور لمحے میں پائلو افسردگی اور مایوسی سے الجھ کر اپنے کمرے میں توڑ پھوڑ کربیٹھتا ہے۔ زبردستی پکڑ کر تیسری بار نفسیاتی مریضوں کے اسپتال پہنچا دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس کیے گئے اس کے پہلے معائنے سے اس کی فائل میں لکھی گئی یہ رپورٹ:
‘شیزوفرینیا کی گنجائش ہے۔’
اس کی ہر حرکت پر بار بار گھیر کر اسائلم کے دروازے پر لے آتی ہے۔ جہاں سے پائلو کو ایک بار پھر فرار ہو کر ہی واپس اپنی دنیا میں آنا پڑتا ہے۔

بالآخر قسمت کی ایک مہربانی سے چوتھی بار اس کے خراب رویے اور غصے کا پالا ایک نئے شفیق ڈاکٹر سے پڑتا ہے، جو پائلو کو اسپتال داخل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ یوں نفسیاتی اسپتال کی راہداریوں سے مستقل رہائی اس کا مقدر بنتی ہے۔ اگر چہ نوجوانی کے فوبیا کی وجہ سے نفسیاتی ڈاکٹروں سے اس کا تعلق ساری عمر چلتا رہا۔

1969ء میں اپنی گرل فرینڈ ویرا کے ساتھ مل کے کر پائلو نے بالغوں کے لیے اپنا پہلا ڈراما۔ O APOCALYPSE۔  ڈرامہ نگار اور ہدایت کار کے طور پر پیش کیا، جو نا صرف ان کا سب خرچہ ڈبو بیٹھا، بلکہ اگلے دن کی اخباروں پر یہ ڈراما سیاہی بن کر اترا۔ ہر جگہ تنقید کا نشانہ بننے والا یہ ڈراما، کچھ ہی دنوں میں اسٹیج سے اتر کر پائلو اور ویرا کو نا صرف خاصے مالی نقصان میں چھوڑ گیا، بلکہ ایک ایسی نیاز بھی دے گیا جو آنے والی کامیاب زندگی میں بھی وفا نبھانے والی تھی۔ یہ تھی ناقد کی سنگ دل اور ظالمانہ تنقید، جس نے اس کا پیچھا کامیابی کی انتہاوں پر بھی نہ چھوڑا۔ ویرا کے مجبور کرنے پر پائلو لا کے لیے داخلہ لیتا ہے، مگر اپنی متزلزل عادت کی بنا پر یہ سفر بھی رستے میں ہی چھوڑ جاتا ہے۔

غیر مناسب حالات، والدین کی حوصلہ شکنی اور مد و جذر کا شکار زندگی کسی بھی شخص کو گھیر کرمنشیات کے دروازے پر لا سکتی ہے۔ نا کامی قسمت سے لڑتا بھڑتا پائلو بھی اس زہر تک جا پہنچتا ہے۔ منشیات کے دھوئیں میں غم دوراں اور غم جاناں بھلانے کی خواہش بھی، اس سے اس کے لکھاری بننے کے خواب جدا نہ کر سکی۔ مشہور مصنف بننے کا شوقین پائلو نشے کے کرشمے تک درج کیے جاتا ہے۔ منشیات اس کے الجھے دماغ کے لیے تریاق ثابت ہوتی ہے اور وہ عام حالات سے بڑھ کر لکھنے لکھانے پر توجہ دیتا ہے۔

1970ء میں اسٹیج کے لیے کچھ ڈرامے لکھتا اور پروڈیوس کرتا ہے۔ تھیٹر ورکشاپس میں حصہ لیتا ہے۔ شاعری اور لٹریچر کے مقابلوں میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ ایک ڈرامے A Revolta da chibata نے خاصی کامیابی بھی حاصل کی۔ اخباروں اور رسالوں میں پائلو کا اچھے الفاظ میں تذکرہ آیا۔ برازیل کے بڑے بڑے ناقدین نے اس ڈرامے کو سراہا۔

1973ء کے آخر میں اس کی زندگی میں ایک اور بڑی اہم اور نمایا ں تبدیلی آئی، جب اس کی پہلی کتاب منظر عام پر آئی۔ نغمہ نگاری سے ملنے والی بے تحاشا دولت اور اس کی پہلی کتاب کی ناکامی جس کی تین ہزار میں سے صرف پانچ سو کاپیاں بک سکیں۔ بھی اس کے سالوں سے پلکوں پہ رکے خواب کو مدھم نہ کر سکے۔ اس کی ڈائری میں اوپر نیچے لکھے چھوٹے بڑے فقرے اس کے نہ ٹوٹنے والے خواب کی گواہی دیتے تھے کہ ایک دن اسے کچھ ایسا لکھنا ہے جو اسے شہرہ آفاق بنا دے۔

‘میں ایک ایسا جنگ جو ہوں، جو میداں میں اپنے داخلے کا منتظر ہے۔ اور میرا مقدر کامیابی ہے اور میری بہترین صلاحیت میرا اس کے لیے لڑنا ہے۔’

یہ وہ زمانہ تھا جب ہپی کلچر کے لمبے بالوں ملگجے کپڑوں، راک اور منشیات نے عالمی پیمانے پر ماحول کو خاصی حد تک جکڑ لیا تھا تو پائلو کیسے اس ماڈرن تحریک سے پیچھے رہتا۔ ہپی کلچر میں لت پت ہو کر منشیات کے نشے میں ڈوب کر بھی مشہور مصنف بننے کی ضدی خواہش نے پائلو کو زندگی سے جوڑے رکھا تھا۔ وہ اکثر خواب دیکھتا کہ خود کو انکل جوزے کے دوردراز کے اپارٹمنٹ کے کسی تنہا خاموش کمرے میں بند کر لے اور خود کو

‘لکھنے کے لیے، بہت سارا لکھنے کے لیے، اور ہر شے لکھنے کے لیے!’وقف کر دے۔ مگر اس کی مضطرب طبیعت لکھنا ٹال کر دوستوں کے ساتھ سیاحت پر لے گئی۔

سیاحت سے فراغت کے بعد کچھ عرصے مختلف چھوٹے اور گھٹیا اخباروں کے لیے بھی کام کیا۔ انہی دنوں میں پراسرار علوم اور جادو میں اس کی دل چسپی بڑھی۔ معاشی حالات اور مصنف بننے کی خواہش تو اس دور میں ہزار طرح کی چھوٹی چھوٹی اخبار رسالوں کی نوکریاں، شیطانی کمالات اور پراسرار علوم پر ڈھیروں اپنے اور جعلی ناموں سے لکھنے کے باوجود پوری نہ ہو سکی۔ مگر اس دور میں انہی پراسرار علوم کی وجہ سے پائلو کو Raul۔

کی صورت میں ایک ایسا ہم راہی ضرور ملا، جس کا ساتھ اس کی زندگی کو پوری طرح بدلنے والا تھا۔ رال، ایک میوزیشن، سنگر بننے کی خواہش کے ساتھ اپنی ملازمت چھوڑ کر نکلتا ہے اور پائلو کو ساتھ ملنے کی دعوت دیتا ہے۔ پائلو کے لکھے گیت کے بولوں کے ساتھ جلد ہی ان کے گیت برازیل کی گلیوں میں مقبول عام ہونے لگتے ہیں۔ اس کے بعد پائلو کے معاشی حالات یک سر بدل جاتے ہیں۔ قسمت کی دیوی ان کے بنک اکاونٹ کو نوٹوں سے لبالب بھر دیتی ہے۔

‘چھبیس سال کی عمر میں، میں پائلو کوئلو، اپنے جرائم کی قیمت ادا کرنا بند کرتا ہوں۔ صرف چھبیس سال کی عمر میں میں اس بات سے مکمل آگاہ ہو چکا ہوں۔ اب مجھے میرا انعام دو! مجھے اپنا ادھار چاہیے۔ اور میرا ادھار وہی ہو گا جو میں چاہتا ہوں۔ اور مجھے دولت چاہیے۔ مجھے طاقت چاہیے۔ مجھے شہرت ابدیت اور محبت چاہیے۔’

جواں عمری کی ناکامیوں اور مایوسیوں نے نہ صرف پائلو کو منشیات کی طرف راغب کیا بلکہ۔ چرچ اور عیسائیت سے متنفر کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اگر کوئی رب ہوتا تو اس کے جنوں کو سراہتا۔ اس کی کوششوں کو نوازتا! رب کے وجود سے انکار نے شیطانی علوم اور ایجنسیوں کی طرف راغب کیا، جن میں ایک عالمی تنظیم۔ OTO۔ کے ساتھ اپنی روح شیطان کو کامیابی کے بدلے میں بیچنے کا باقاعدہ معاہدہ کیا۔ یہی مصنف بننے کی ایک آخری امید تھی، جو اس کو دکھائی دی۔ اپنے خوابوں کے شجر کو سینچنے کے لیے اس نے اپنی روح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شیطانی قوتوں اور جہنم کی آگ کے نام کر دی۔

مگر بدی کے سنگ چلنے کی یہ جرات زیادہ دن نہ چل سکی اور جب ایک صبح اس کے کمرے میں جنازہ گاہ کی ہزاروں موم بتیوں کی خوشبو اور دھواں پھیلنے لگا، کمرے کا فرش اچھل کر اس کی طرف لپکنے لگا اور کمرے کی دیواریں لرزنے لگیں، ہر طرف ٹوٹ پھوٹ کا شور اور کہرام بپا ہو گیا، پائلو کے لیے قیامت کی رونمائی ثابت ہوئی۔ طویل دن اس طوفانی اور شیطانی آمد کی ہول ناک میزبانی کرنے کے بعد پائلو کو آخر بائبل میں پناہ ملی۔ باتھ روم میں پانی کے فوارے کے نیچے بیٹھ کر پائلو اور گسا، بائبل کی لائنیں تب تک ورد کرتے رہے، جب تک یہ شیطانی رقص تھم نہ گیا۔

ایک لمحہ تھا، دن تھا، سال یا صدیاں! اس کی تمیز کی صلاحیت کھو گئی۔ جب سب طوفان تھم جانے کے بعد وہ شاور سے نکلے تو ان کی انگلی کی پوریں تک نیلی ہو چکی تھیں۔ کمرا صیح سلامت اپنی جگہ موجود تھا۔ یہ جہنم صرف ان کے وجود پر کھلی تھی۔ پائلو اور گسا نے وہ شیطانی معاہدہ پھاڑا اور اپنی اپارٹمنٹ سے بھاگ کر پیڈرو اور لیگیا کے پاس پناہ لی۔ مگر اس کے چند دن بعد ایک اور عذاب ان کا منتظر تھا۔ جس کی کڑیاں پائلو کے خیال میں اس واقعے سے جڑی تھیں۔

دوسرا واقعہ برازیل میں فوجی حکومت کے ہاتھوں پائلو کے گاوں میں کچھ باغی مواد استعمال کرنے کے شبہے میں اس کی گرفتاری، خوف اور وحشت میں اس سے کی گنا زیادہ نکلا۔ جیل میں گزارے چند دن اور وہاں سے رہائی کے وقت کانپتی ٹانگوں اور ہاتھوں کے ساتھ اغوا ہوتے ہوئے، لاپتا افراد میں شمولیت کے وقت وہ جانتا نہ تھا کہ اس کے آگے اندھیری کوٹھریوں میں عمر قید ہو گی یا سیدھا پھانسی کے گھاٹ پر لے جایا جائے گا۔ پائلو اور اس کی گرل فرینڈ گیسا کی یہ قید چند دن میں ختم تو ہو گئی، مگر پائلو کے لے بہت برا اور زوردارجھٹکا ثابت ہوئی۔ اس کے نفسیاتی اثرات بہت لمبے عرصے تک رہے۔ یہی آزمائش اس کے گسا سے تعلق ختم ہونے کا باعث بنی۔ گسا کے زندگی سے نکل جانے کے بعد خوف ہراس کا شکار پائلو اپنے اپارٹمنٹ میں اکیلا نہ رہ سکا، بلکہ والدین کے گھر بھی کئی دن تک دستک سے ڈر کر کمروں میں چھپتا رہا۔ اس قدر خوف ہراس کے باوجود۔ آفرین ہے پائلو کے حوصلے پر کہ پاگل خانے اور منشیات کے تجربات رقم کرنے والے میں اگرچہ اتنا دم خم نہ بچا تھا کہ اس کی روداد ہی لکھ سکتا، مگر ٹوٹ کر بھی اس کا حوصلہ چٹان کا ہی تھا۔

‘یہ زندگی کے بدترین واقعات میں سے ایک تھا۔ ایک بار پھر نا انصافی سے قید۔ لیکن جلد میرا یقین میرے خوف پر حاوی ہو جائے گا اور میری محبت میری نفرت سے جیت جائے گی۔’
فوجی چنگل سے نکلتے ہی پال اور رال نے خودساختہ ملک بدری اختیارکی جو زیادہ دیر نہ چل سکی۔ اس عرصے میں پائلو نے اپنے شیطانی معاہدے توڑ کر دوبارہ سے عیسائیت کی طرف رجوع کیا۔

برازیل واپسی کے ساتھ ہی اس کے سارے خوف اور اندیشے دوبارہ سے جاگنے لگے۔ اپنے اپارٹمنٹ میں اکیلا رہنا اس کے لیے عذاب ہو کر رہ گیا۔ خوفناک تنہائیوں سے ڈر کر اس نے فوراً شادی کا فیصلہ کیا۔ پائلو کے کم زور دل کو ایک فوری سہارے اور جذباتی مدد کی ضرورت تھی۔ مگر اس کی رنگین مزاج طبیعت اس کی ایک منگنی کی ناکامی کا باعث بنی۔ کیسا سے پورے رسم و رواج اور اہتمام کے ساتھ آخر اس کی شادی ہو گئی۔ اسی عرصے میں رال اور کئی دوسرے گلوکاروں کے لیے لکھے اس کے گا نے مقبول عام ہوئے اور کئی چھوٹے بڑے پراجیکٹس پر کام کے ساتھ ایک مقبول رِکارڈنگ کمپنی میں افسرانہ عہدہ بھی حاصل کیا، جس سے اس کی دولت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔ پیسے اور پراپرٹی کی اس ریل پیل کے درمیان کچھ تھا، جو ادھورا تھا! ایک سپنا جو ابھی تک سفر میں تھا۔ ایک شہرہ آفاق لکھاری بننے کا۔ اب پائلو یہ بات سمجھنے لگا تھا کہ صرف تین ہزار کاپیاں چھاپنے والے ملک برازیل میں لکھ کر اور چھپ کر کبھی وہ شہرت اور مقبولیت نہیں پا سکتا، جو اس کا خواب تھا۔

‘یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اگر مجھے لکھاری بننا ہے تو مجھے یہاں سے نکلنا ہی ہو گا۔’

جلد ہی پائلو اور کیسیا لندن منتقل ہو گئے۔ روپے پیسے کی بہتات نے لندن جانا اور رہنا آسان کر دیا تھا۔ لندن گزارے ایک سال نے پائلو کے لکھنے لکھانے کے باب میں صرف مایوسیوں اور ناکامیوں کا اضافہ ہوا۔ کچھ چھوٹی چھوٹی کوشش ناکام ٹھہریں اور بڑا کام کرنے کے لیے وہ خود کو راضی نہ کر سکا۔ بچپن سے دیکھا خواب لیے وہ لندن میں بیٹھا تھا اور سال گزر جانے کے بعد بھی کچھ ایسا نہ لکھ سکا تھا، نہ چھپوانے میں کامیاب ہو سکا تھا، جو اس کے لیے ایک مصنف کے طور پر بلندیوں کے در وا کر دے۔

سال بھرلندن کی خاک چھاننے کے بعد پائلو اور کسا برازیل واپس آ گئے۔ اسی ناکام جگہ پر ان کی سمجھوتوں سے بندھی شادی بھی آخرکار ناکامی سے دوچار ہوئی۔ برازیل واپسی کے بعد پائلو پھر سے اپنے ادھورے سپنے کے لیے افسردگی اور مایوسی کے عذاب سے دوچار ہوتا ہے۔ دولت اور شہرت بھی اس کے اس خواب کا نعم البدل ثابت نہیں ہو پاتی۔ ایسے وقت میں ایک راستہ اس کے سامنے کھلا ہے اور وہ تھا جنس اور محبت کی سستے انداز کی تحریر جس کی مقبولیت کے امکان خاصے روشن تھے۔ لیکن وہ ایسا کیوں کرتا؟ کیا صرف شہرت اور پیسے کے لیے جو اس کے پاس نغمہ نگاری کی وجہ سے خاصا موجود تھا۔ تو پھر اس طرح کا ادب اس کے کسی کام کا نہ تھا۔

کسا سے علیحدگی بھی پائلو کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث بنی۔ جلد ہی پائلو کو کرس۔ کی شکل میں متبادل مل گیا۔ آزاد خیال گھرانے سے تعلق رکھنے والی کرسٹینا مستقبل میں ایک بہترین ہم سفر اور مددگار ثابت ہوئی۔ اگرچہ چینی انداز میں سکے پھینک کر فیصلے کرنے والا اچھے اور برے شگون پر ایمان رکھنے والا پائلو ایک زندگی کے بارے میں بڑی سیدھی اور پریکٹکل سوچ رکھنے والی کرس کے لیے اتنا آسان ہم سفر ثابت نہ ہو رہا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ ان کے اتفاقات اختلافات قابو پانے لگے۔ ان کا درمیانی تعلق مضبوطی سے بندھتا چلا گیا۔ اس کی وجہ دونوں کی مشترک کوشش اور محبت تھی۔

۔ 1981ء میں کرس کے مشورے پر ‘زندگی کے صحیح معانی’ ڈھونڈنے کے لیے وہ 17900 $ US لیے بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے وسطی یورپ کی سیاحت کو نکلتے ہیں۔

پائلو کی پہلی شہرت پانے والی کتاب 1987ء میں لکھی گئی مگر 23 فروری 1982ء کو چھتیس سال کی عمر میں مصنف پائلو کوئلو کا جنم اسی سفر کے دوران میں جرمنی میں ڈاچو کنسنٹریشن کیمپ کے دورے کے دوران میں ہوا۔ برازیل۔ کی ڈکٹیٹرشپ کے چنگل سے بچ جانے والا پائلو، کنسنٹریشن کیمپ کے دروازے پر کھڑا ہو کر رو پڑا۔ نازی حکومت کے ہاتھوں تیس ہزار لوگوں کی قید، موت اور جلائے جانے کی زندہ گواہی نے، اس کا انسان اور دنیا پر سے ایمان اٹھا دیا۔

لاشوں کے ڈھیر وں کو تصور کی آنکھ سے دیکھتے اسے اندازہ ہوا کہ طاقت کی لڑائی اور نشے میں مارے اور جلائے جانے والے ہزاروں لوگ بے نام و نشان زرے نہ تھے، بلکہ انسانیت کی زندہ شکلیں تھے۔ جن کو جلا دیا گیا۔ یہیں اسے اپنا پیشوا جے ملا، جس سے اس کو روحانی رہنمائی ملی۔ یہ سفر پائلو کی زندگی کو بدل دینے کا باعث بنا۔

برازیل واپسی پر 1982ء میں پائلو اور کرس نے اپنا پبلشنگ ہاؤس شوگن قائم کیا، جس نے نے خاصی ترقی کی۔ 1986ء میں اپنے روحانی پیشوا جے کی صلاح اور کرس کے مجبور کرنے پر پائلواور کرس سینٹیاگو کے رستہ پر نکلے، جو ایک روحانی زیارت مانا جاتا ہے۔ یہی سفر اس کی پہلی کتاب the pilgrimage کا موضوع بنا۔ پائلو نے جانا کہ ہمیشہ کل پر ٹالتے رہنے سے وہ کبھی بھی لکھاری نہیں بن سکے گا۔
‘اگر مصنف بننا ہے تو کتاب لکھو۔ٌ

3 مارچ 1987ء کو پائلو اپنا ٹائپ رائٹر لے کرلکھ دینے کے عہد کے ساتھ کمرے میں خود کو بند کرتا ہے۔ اکیس دن کی ان تھک محنت کے دوران میں پائلو نے بغیر کسی بنیادی ضرورت کے اپنی جگہ نہ چھوڑی اور اکیسویں دن اس کے ہاتھ میں دو سو الفاظ کا۔ Pilgrimage کا مسودہ تیار تھا۔ Ernest Mandarino نامی پبلشر نے اسے چھاپا۔ عام لکھاریوں سے ہٹ کر پائلو نے خود اس کتاب کی بے تحاشا پبلسٹی کی، چرچ، پارک اور تھیٹرز میں اس کے پمفلٹ بانٹے گیے۔

پائلو کے پاس پیسے کی کمی نہ تھی۔ اس نے کمیشن پر کچھ نوجوان بھی پبلسٹی کے لیے مقرر کیے۔ جلد ہی اس کے راستے کی رکاوٹیں ہٹنے لگیں اور صحافیوں اور لکھاریوں کی فون بکس میں اس کا نمبر محفوظ ہونے لگا۔ ایک مصنف کے طور پر خبریں لگنے سے پائلو کو وہ سکون ملا جو راک سٹار کے ساتھ ملنے والی شہرت اور پیسہ بھی نہ دے سکا تھا۔ دو سال کے عرصے میں دوسرا ناول Alchamist کے دو سو صفحات پائلو نے دو ہفتوں میں لکھے۔

یہی وہ وقت تھا جب پائلو کی زندگی کے سب خواب پورے ہو چکے تھے۔ وہ خوشی جس سے محرومی، اس کے چین اڑائے رکھتی تھی، اس کے دامن میں آ گئی۔ اندھیری راتوں کا اختتام اور چمکتے سورج طلوع ہو چکے تھے۔ اس کے باوجود کہ ناقدوں نے پائلو کا ناطقہ بند کیے رکھا، مگر کالے ترین دن بھی پائلو کا رستہ نہ روک سکے تھے، تو یہ پھر بھی دن کے اجالے تھے۔

1988ء میں الکیمسٹ کی پبلشنگ کے وقت برازیل جیسے تین ہزار کاپیاں چھاپنے والے ملک میں The Pilgrimage کی اشاعت چالیس ہزار کاپیوں سے بڑھ چکی تھی۔ ا ور برازیل کی اخباروں میں مسلسل انیس ہفتوں تک بیسٹ سیلر پر رہ چکی تھی۔ الکیمسٹ جب ابھری تو ایسی کہ فروخت کے سب رِکارڈ توڑ گئی۔ ایک ہی وقت میں پائلو کی دونوں کتابیں بیسٹ سیلر میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے لگیں۔ اس کے بعد پائلو کی شہرت کا سورج پوری دنیا میں ہر نئی کتاب کے ساتھ پہلے سے زیادہ چمکا، کبھی مدہم نہیں ہوا۔ یہی وہ طویل اور کٹھن سفر تھا، جس نے پائلو کو یہ وجدان دیا۔

‘کوئی بھی خواب سچ تب بنتا ہے، جب اس کی طرف قدم اٹھایا جائے۔ سو جب بھی تم کوئی خواب دیکھو، پوری کائنات اس میں تمھاری کامیابی کے لیے سازش کرنے لگتی ہے۔ لیکن اس کے لیے تمھیں قدم اٹھانا پڑے گا۔ اور پھر تمھاری رہنمائی کی جاتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments