سنگاپور کے شہری کا امریکہ میں چین کے لیے جاسوسی کرنے کا اعتراف


سنگاپور کے ایک شخص نے امریکہ میں چین کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین حالیہ دنوں میں بڑھتے ہوئے تنازعے میں تازہ ترین پیش رفت ہے۔

اس کے علاوہ ایک دوسرے واقعے میں امریکہ نے کہا کہ چین کی فوج سے اپنے تعلقات چھپانے کے الزام میں ایک چینی محقق کو حراست میں لیا گیا ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے ایک بیان میں کہا جون وی ییو جنھیں ڈکسن ییو بھی کہا جاتا ہے، انھوں نے جمعے کے روز ایک وفاقی عدالت میں چینی حکومت کے لیے سنہ 2015 سے 2019 کے درمیان غیر قانونی ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

اس سے قبل ان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے اپنی سیاسی کنسلٹینسی کی آڑ میں چینی انٹلیجنس کے لیے قیمتی اور غیر عوامی معلومات اکٹھی کیں۔

اپنے جرم کے اعتراف مں انھوں نے کہا کہ وہ اعلیٰ سطحی سکیورٹی کلیئرینس رکھنے والے امریکیوں کو تلاش کرتے اور ان سے جعلی کلائنٹس کے لیے رپورٹ لکھوایا کرتے تھے۔

مسٹر ییو کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ سنہ 2019 میں امریکہ پہنچے۔

یہ بھی پڑھیے

چین کا ردعمل، چنگدو میں امریکی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم

امریکہ معاونت کرنے کے بجائے خوف پھیلا رہا ہے: چین

امریکہ کا چینی قونصل خانہ بند کرنے کا فیصلہ، دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ

کیا کورونا وائرس چین اور امریکہ میں لڑائی کی وجہ بن سکتا ہے؟

اور گرفتار چینی محقق کے متعلق کیا معلومات ہیں؟

ان محقق کا نام امریکی عہدے داروں نے جوان تانگ بتایا ہے اور وہ 37 سال کی ہیں۔

وہ چار چینی شہریوں میں شامل تھیں جن پر رواں ہفتے کے شروع میں چین کی فوج یعنی پیپلز لبریشن آرمی میں خدمات انجام دینے کے بارے میں مبینہ طور پر غلط بیانی کرنے پر ویزا فراڈ کا الزام عائد کیے گئے تھے۔

جوان تانگ کیلیفورنیا میں حراست میں لی جانے والی چوتھی اور آخری فرد تھیں۔ امریکہ کی جانب سے سان فرانسسکو میں واقع چینی قونصل خانہ پر انھیں پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ انھیں کس طرح گرفتار کیا گیا۔

ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کی خبروں کے مطابق امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ایجنٹس نے جوان تانگ کی چينی فوجی وردی میں تصاویر دیکھیں اور ایسے مضامین کا مطالعہ کیا جن میں ان کی چینی فوج سے وابستگی کا اظہار ہوتا تھا۔

اے پی نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس کے حوالے سے بتایا ہے کہ انھوں نے شعبہ ریڈی ایشن اونکولوجی میں وزیٹنگ ریسرچر کی اپنی ملازمت جون میں چھوڑ دی تھی۔

گارڈ

ہیوسٹن میں چینی قونصل خانے کو زبردستی کھولے جانے کے بعد سرکاری گارڈز نے وہاں اپنی پوزیشن لے لی

سفارت خانوں کی بندشیں

اس سے قبل چین نے چینگدو میں امریکی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

جنوبی مغربی شہر چینگدو میں امریکی سفارتی مشن کو بند کرنے کا فیصلہ امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں چین کے قونصل خانے کو بند کرنے کے جواب میں آیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ چین دانشورانہ املاک ‘چوری’ کررہا تھا۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکی اقدام ‘چین مخالف جھوٹوں کا ایک پلندہ’ ہے۔

چینی سفارتکاروں کو ہیوسٹن قونصل خانے چھوڑنے کے لیے جو 72 گھنٹے دیے گئے تھے اس کی میعاد جمعے کو مقامی وقت کے مطابق شام چار بجے (گرینچ کے مطابق شام نو بجے) ختم ہو گئی۔ اس کے بعد نامہ نگاروں نے دیکھا کہ ایسے افراد جو بظاہر امریکی حکام تھے، انھوں نے احاطے میں داخل ہونے کے لیے زبردستی دروازہ کھولا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے محکمہ سفارتی سکیورٹی کے باوردی عملے نے دروازے پر حفاظت کے لیے پوزیشن سنبھال لی۔

دنیا کی دو بڑی جوہری طاقتوں کے مابین کئی اہم امور پر کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ تجارت اور کورونا وائرس کے وبائی مرض کے معاملے پر بیجنگ کے ساتھ مستقل تصادم میں ہے۔ اس کے علاوہ ہانگ کانگ میں چین کی جانب سے ایک متنازع سکیورٹی قانون نافذ کیے جانے کے معاملے میں بھی دونوں میں ٹکراؤ ہے۔

ٹرمپ اور شی جن پنگ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ تجارت اور کورونا وائرس کے وبائی مرض کے معاملے پر بیجنگ کے ساتھ مستقل تصادم میں ہے

چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کیوں ہے؟

اس میں بہت سے عناصر بیک وقت کام کرہے ہیں۔ امریکی حکام نے کووڈ 19 کے عالمی پھیلاؤ کے لیے چین کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ خصوصی طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغیر کسی شواہد کے یہ الزام لگایا ہے کہ یہ وائرس ووہان کی ایک لیبارٹری سے نکلا ہے۔

جوابی بیان میں چین کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے بھی بغیر ثبوت پیش کیے مارچ میں کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ امریکی فوج یہ وائرس ووہان میں لائی ہو۔

اس کے علاوہ امریکہ اور چین سنہ 2018 سے ہی محصولات کی جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔

مسٹر ٹرمپ ایک طویل عرصے سے چین پر غیر منصفانہ تجارتی طریقوں اور دانشورانہ املاک کی چوری کا الزام عائد کرتے رہے ہیں، لیکن بیجنگ میں یہ تاثر ہے کہ امریکہ عالمی اقتصادی طاقت کے طور پر اس کے عروج کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

امریکہ نے چینی سیاست دانوں پر بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ سنکیانگ میں مسلم اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کے ذمہ دار ہیں۔ چین پر بڑے پیمانے پر مسلم اوئیغور اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نظربندیوں، مذہبی ظلم و ستم اور زبردستی نس بندی کا الزام ہے۔

بیجنگ نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور امریکہ پر اپنے داخلی معاملات میں ‘واضح مداخلت’ کا الزام عائد کیا ہے۔

ہانگ کانگ مظاہرے

برطانیہ نے ہانگ کانگ کے تقریباً 30 لاکھ باشندوں کے لیے برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے منصوبے کا جو خاکہ پیش کیا ہے، اس نے چین کو ناراض کر دیا ہے

ہانگ کانگ کا ماجرا کیا ہے؟

چین کی جانب سے ہانگ کانگ پر ایک وسیع تر سیکیورٹی قانون نافذ کرنا بھی امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کا باعث بھی ہے۔ خیال رہے کہ ہانگ کانگ سنہ 1997 تک برطانیہ کے زیر انتظام تھا۔

اس کے جواب میں امریکہ نے گذشتہ ہفتے ہانگ کانگ کی خصوصی تجارتی حیثیت کو کالعدم قرار دے دیا، جس کی وجہ سے چینی سازو سامان پر عائد امریکی ٹیکسوں سے اسے چھوٹ مل جاتی تھی۔

امریکہ اور برطانیہ نئے سکیورٹی قانون کو ہانگ کانگ کی آزادی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق چین اور برطانیہ کے مابین سنہ 1984 کے معاہدے کے تحت ہانگ کانگ کو جو آزادیاں حاصل تھیں، چین کے نئے قانون سے اس کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

برطانیہ نے ہانگ کانگ کے تقریباً 30 لاکھ باشندوں کے لیے برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے منصوبے کا جو خاکہ پیش کیا ہے، اس نے چین کو ناراض کر دیا ہے۔

چین نے اس کا جواب اس دھمکی کے ساتھ دیا ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں رہنے والے بہت سے لوگوں کے پاس موجود ایک قسم کے برطانوی پاسپورٹ بی این او کو تسلیم کرنا بند کر دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp