دار الامان: بیمار معاشرے کی ٹیسٹ رپورٹ


شنو نے اسے سیدھا کر کے لٹایا اور برابر والے بیڈ پہ بیٹی کو لے کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد بسمہ نیند میں سسکیاں لینے لگتی ہلکی آواز میں کچھ بڑبڑاتی بھی تھی شنو چونک کے اسے دیکھتی مگر وہ گہری نیند میں تھی۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ ایک گھنٹے تک تو شنو بیٹھی رہی پھر اکتا گئی دروازہ کھول کے باہر چلی گئی اور باہر سے کنڈی لگادی۔ کام وام نپٹا کر گھنٹہ ڈیڑھ بعد واپس آئی تو بھی بسمہ سو ہی رہی تھی۔

وہ پھر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ بیٹی کو دودھ پلا کے سلا دیا اور خود ایک قمیض کاڑھنے لگی۔ تقریباً دو گھنٹے مزید ایسے گزر گئے باہر بارش تیز ہوگئی تھی۔ بادل گرجتے تو بسمہ نیند میں ہی ڈر جاتی۔ رات زیادہ ہونے لگی تو کمرے میں رہنے والی ایک اور لڑکی دروازہ بجانے لگی۔ شنو نے آہستہ سے دروازہ کھول کے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کے خاموشی سے اندر آنے کا اشارہ کیا۔

”نشہ کر کے آئی ہے کیا سوئے جارہی ہے“
لڑکی نے دبی آواز میں پوچھا
”دوا کھلائی ہے نوشین باجی والوں نے۔ تم بھی چپ چاپ سو جاؤ۔ سو کر اٹھے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔“
لڑکی نے کندھے اچکائے اور اپنے بیڈ پہ لیٹ گئی۔

کچھ دیر بعد بسمہ کے آنسو بھی بند ہوگئے وہ کافی پرسکون سو رہی تھی اب۔ باہر بارش ہلکی ہوگئی تھی۔ تقریباً رات کے تین بجے اس کی آنکھ کھلی کمرے میں ملگجا اندھیرا تھا باہر سے لائٹس کی ہلکی روشنی اندر آ رہی تھی۔ بسمہ کو پہلے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے اس کے ذہن میں اپنے میکے سے نکلنے کا وقت آ گیا ایک دم سارا واقعہ فلیش بیک کی طرح دماغ میں تازہ ہوگیا اسے یہاں تک تو یاد آیا کہ وہ گھر کے دروازے پہ بیٹھی تھی اس کے بعد کا کچھ یاد نہیں تھا وہ گھبرا کے اٹھی۔

”میں کہاں ہوں“ وہ ایک دم گھبرا کے گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔ شنو اس کی آواز سن کے جاگ گئی شاید چھوٹی بیٹی کی ماں ہونے کی وجہ سے ہلکی سی آواز پہ جاگنے کی عادت ہوگئی تھی اسے۔ وہ ایک دم اٹھ کے بسمہ کے پاس آئی

”آپ کون ہیں؟ میں کہاں ہوں؟ مجھے گھر جانا ہے۔“ وہ گھبرا کے رونے لگی۔
شنو نے اس کا ہاتھ پکڑ کے تسلی دی۔
”میں شنو ہوں۔ تم پریشان مت ہو یہاں کوئی تمہیں تنگ کرنے نہیں آئے گا۔“
”مگر میں ہوں کہاں یہ کون سی جگہ ہے“

شنو کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اسے بتائے یا نہیں کہ یہ دارالامان ہے۔ اسے بھی پتا تھا کہ کہنے کو یہ امان کی جگہ کہلاتی ہے مگر جو لڑکی یہاں آجاتی ہے ہمیشہ کے لیے اس کا کردار مشتبہ ہوجاتا ہے۔ وہ بسمہ کی جو حالت دیکھ چکی تھی ایسے میں وہ نہیں چاہتی تھی کہ دوبارہ وہ اسی ذہنی حالت میں چلی جائے۔

”تمہیں اپنا نام یاد ہے“
بسمہ نے سر ہلایا
”بسمہ۔ ۔ ۔ بسمہ عبدالباسط رانا۔ باسط میرے ہسبینڈ ہیں۔ آپ پلیز بتائیں ناں میں کہاں ہوں“
”بسمہ تم محفوظ جگہ ہو۔ پریشان مت ہو یہاں صرف عورتیں ہیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔“
”مگر میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔“

”دیکھو رات کافی ہو رہی ہے۔ تمہیں پولیس یہاں چھوڑ کے گئی ہے صبح آکر وہ تمہیں لے جائیں گے تمہارے گھر۔“

شنو کافی دیر اسے جھوٹی سچی تسلیاں دے کر سمجھاتی رہی دوسری لڑکی بھی جاگ گئی۔ بسمہ کے شور پہ وہ کافی ناراض لگ رہی تھی۔ بسمہ خاموش تو ہوگئی مگر بیڈ کے سرہانے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ شنو دوبارہ بیٹی کے پاس جاکر لیٹ گئی۔ شنو کے سونے تک بسمہ یونہی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ رک رک کر اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

بسمہ کی نظریں کھڑکی سے دکھتے بلب پہ تھیں۔ یہاں تک کہ صبح کے اجالے نے اسے اس کی روشنی سمیٹ کر ایک پیلے نقطے تک محدود کردی۔ کمرے سے باہر ہلکی پھلکی چہل پہل محسوس ہونے لگی۔ کچھ دیر بعد شنو بھی جاگ گئی۔ دوسری لڑکی سو ہی رہی تھی۔ اس نے سب سے پہلے اٹھ کر بیٹی کو دودھ پلایا۔ پھر دوبارہ سلا دیا۔ وہ باہر جانے لگی تو کچھ خیال آیا مڑ کے بسمہ کو آواز دی

”سنو“ اس نے ذہن پہ زور ڈالا ”بسمہ؟ چلو منہ دھو آئیں تو ناشتہ لینے چلیں گے۔“
”پولیس کب آئے گی مجھے لینے؟“

”ابھی تو آفس والے بھی نہیں آئے، 9 بجے سب آتے ہیں پھر ہی پولیس آتی ہے۔ اتنی دیر میں ہم ناشتہ کر لیں گے۔ پتا نہیں تمہارے لیے ڈبل روٹی ہو یا نہیں؟ اصل میں شام والی باجی آتی ہیں تو روز لڑکیوں کی گنتی کر کے صبح ناشتے کی ڈبل روٹی منگاتی ہیں۔ میں بھول گئی کہ انہیں تمہارا بتا دوں۔“ پھر اسے کچھ خیال آیا

”میرا نام شہنیلا ہے مگر سب شنو کہتے ہیں۔ پہلے تین سال رہ کے گئی ہوں دارالامان پھر ایک این جی او نے ایک جگہ شادی کروا دی آٹھ نو مہینے کے بعد شوہر نے گھر والوں کے دباؤ میں آکر چھوڑ دیا تو پھر یہیں آ گئی۔ یہ بھی یہیں ہوئی“ اس نے اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کیا۔

” تمہارے گھر والے نہیں ہیں“
”سب ہیں مگر ان کے لیے میں مر گئی ہوں۔“
”کیوں“

” میں اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتی تھی اس لڑکے کے لیے گھر بھی چھوڑ کے نکلی بس اسٹینڈ پہ پتا نہیں کتنے گھنٹے بیٹھی رہی مگر وہ لڑکا نہیں آیا جب رات ہوگئی تو پولیس پکڑ کے یہاں چھوڑ گئی۔“

شنو کی بات سن کر بسمہ کو اس پہ افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی۔ شنو کو دیکھ کر بالکل نہیں لگتا تھا کہ وہ اس قسم کی لڑکی ہوگی۔

بسمہ کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا ناشتے کا مگر بیٹھے بیٹھے وقت نہیں گزر رہا تھا۔ وہ منہ ہاتھ بھی دھونا چاہتی تھی۔ وہ اور شنو باہر نکل آئیں۔ کل کا تو اسے کچھ یاد نہیں تھا اب باہر نکلی تو لگا پہلی دفعہ سب کچھ دیکھا ہے۔ انگلش کے حرف ایل سے مشابہہ عمارت میں ایک طرف کمرے بنے تھے اور سامنے راہداری جس پہ آدھی دیوار تھی اور باقی چھت تک گرل لگی ہوئی تھی۔ یہ گرل ہوا دار ہونے کے باوجود قید کا احساس دے رہی تھی۔ دیکھنے میں اندازہ ہورہا تھا کہ اوپر نیچے ملا کر تقریباً 40 سے زائد کمرے ہوں گے اور ہر کمرے میں تین سے چار بیڈ نظر آرہے تھے۔

کچھ عورتیں ابھی بھی سو رہی تھیں کچھ اپنے بچوں کو سنبھال رہی تھیں کچھ ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں۔ بسمہ نے کچھ عورتوں کو موبائل پہ بات کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ کمرے کے کونے میں بیٹھ کر، کسی دیوار سے ٹیک لگائے۔ گرل کی طرف منہ کر کے۔ دیکھنے میں ہی لگ رہا تھا کہ وہ کوئی پرائیویٹ بات کر رہی ہیں۔ کچھ عورتیں صاف ستھری تھیں اور پڑھی لکھی بھی لگ رہی تھیں۔ کچھ کے حلیے بہت میلے کچیلے تھے۔ کچھ نے بہت سلیقے سے دوپٹہ سر پہ اوڑھا ہوا تھا اور کچھ ایسے گھوم رہی تھیں جیسے اکیلی ہوں۔ شنو تھوڑا تھوڑا سب کے بارے میں بتاتی جارہی تھی۔

”یہ دو مہینے پہلے آئی ہے اس کو اس کے شوہر نے الزام لگا کے نکال دیا اب اس کے بدلے میں اسی کی بھتیجی سے اپنے بھائی کا نکاح کروایا ہے۔

یہ تین بچوں کے ساتھ آئی ہے شوہر مر گیا ہے سسرال والوں نے جائیداد میں حصہ دینے کی بجائے گھر سے نکال دیا۔ میکے میں کوئی ہے نہیں۔

اس پہ سسر اور دیور کی غلط نظر تھی شوہر کو بتایا تو اس نے مار پیٹ کے گھر سے نکال دیا۔ گھر والوں نے بھی رکھنے سے انکار کر دیا۔

اس کی گھر والوں نے پیسے لے کر تین بار شادی کروائی یہ اپنے دوسرے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے۔ گھر والوں نے طلاق بھی نہیں کروائی تھی۔ اب مقدمہ چل رہا ہے۔ ”بسمہ چلتے چلتے رک گئی اسے لگا ایک کمرے میں گل بانو کو دیکھا اس نے

”یہ کون ہے؟“ بسمہ کی کیفیت عجیب تھی۔

یہ صفیہ ہے، دونوں ماں بیٹیاں چھ مہینے سے ہیں یہاں۔ چچا نے کسی لڑکی سے بھاگ کے شادی کی تھی تو عوض میں اس کی شادی اسی ( 80 ) سال کے ایک بڈھے سے کر رہے تھے گھر والے، ماں اسے لے کر پولیس اسٹیشن پہنچ گئی ابھی 12 سال کی ہے یہ۔ ”

”یہ تو بہت چھوٹی ہے مگر“ بسمہ دوبارہ آگے چلنے لگی

”یہاں شہر میں یہ عجیب بات ہے مگر گاؤں وغیرہ میں تو لڑکی کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس کا نکاح کر دیا جاتا ہے۔ اسے ملا کر چھ یا سات لڑکیاں تو ابھی بھی دارلامان میں ہیں جن کی عمر ابھی 15 بھی نہیں ہوئی اور یا تو نکاح ہوچکا ہے ایک یا دو بچے بھی ہیں۔ جیسے اسے دیکھو مہتاب کو۔ یہ ابھی 14 سال کی ہے تین سال پہلے اس کی شادی ہوگئی تھی۔ اب یہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہے تو گھر سے نکل آئی ابھی 7 مہینے کی امید سے ہے جب بچہ ہوگا تبھی مسئلہ حل ہوگا۔

اس کا مسئلہ اس لیے بھی الجھا ہوا ہے کیونکہ اس کے نکاح کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے۔ قانونی طور پہ اس عمر میں اس کا نکاح ہو ہی نہیں سکتا اب عدالت میں اس کا شوہر مکر گیا کہ اس سے تو میری شادی ہی نہیں ہوئی یہ کسی اور کا گناہ مجھ پہ لگا رہی ہے۔“ بسمہ کو یاد آیا اس کے نکاح نامے پہ بھی اس کی عمر تین سال بڑھا کے لکھوائی گئی تھی۔

پھر اسے کچھ خیال آیا
”یہ دارلامان ہے؟“

شنو نے دل میں خود کو لعنت دی جوش میں آکر وہ بتا گئی جو وہ نہیں بتانا چاہتی تھی۔ اس نے صرف سر ہلا دیا۔ بسمہ کا چہرہ فق ہوگیا۔

وہ لوگ باتیں کرتے کرتے اب باتھرومز والی سائیڈ پہ آ گئیں۔ یہاں بھی کافی رش تھا۔ یہ اوپر سے کھلا ایریا تھا دیواریں اونچی تھیں اور دو طرف باتھ رومز بنے ہوئے تھے کل ملا کے چھ ہر ایک کے ساتھ واش بیسن بھی تھا۔ ایک طرف بیٹھ کے کپڑے دھونے کی جگہ تھی۔ بسمہ ایک دم گم سم ہوگئی تھی۔ اس نے ایسے ہی منہ ہاتھ بھی دھویا۔ شنو کو اس کی ایک دم بدلی ہوئی کیفیت محسوس ہوئی تو ہاتھ پکڑ کے تسلی دی

”بسمہ تم یہاں محفوظ ہو۔ پریشان مت ہو انشاءاللہ تمہارا مسئلہ جلدی حل ہو جائے گا۔“

شنو نے اسے تسلی تو دے دی مگر خود اسے بھی اپنی بات پہ یقین نہیں تھا۔ یہاں آنا آسان تھا مگر نکلنا صرف ان عورتوں کے لیے آسان تھا جن کی مدد کے لیے کوئی باہر موجود ہو۔ اسے یہ بھی پتا تھا کہ ایک دفعہ اس چاردیواری میں داخل ہوجانے والی لڑکی ہمیشہ کے لیے باہر والوں کے لیے ناقابل قبول ہوجاتی ہے۔ حالانکہ یہاں کچھ نرالا نہیں تھا۔ بلکہ شنو کو تو یہ معاشرے کی ٹیسٹ رپورٹ لگتی تھی جیسے بندے کی شکل دیکھ کر سب ٹھیک لگ بھی رہا ہو تو ٹیسٹ رپورٹ اندر کا سب حال کھول کے دکھا دیتی ہے اسی طرح دارالامان میں آنے والا بندہ ذرا بھی شعور رکھتا ہو تو اس بیمار معاشرے کا صحیح حال سمجھ سکتا ہے۔ شنو نے سر جھٹکا۔ اسے بھی بسمہ کی طرح سوچتے رہنے کی عادت تھی۔ مگر وہ کر ہی کیاسکتی تھی سوائے سوچنے کے۔

وہ لوگ منہ دھو کر فارغ ہی ہوئی تھیں کہ پیچھے سے ان کے کمرے کی تیسری لڑکی آ گئی اس کی گود میں شنو کی بیٹی تھی۔

”لو بھئی تمہارا باجا جاگ گیا۔ اور مجھے بھی جگا دیا۔“
”تو خالہ ہو دومنٹ سنبھال نہیں سکتیں اسے۔“

” خالہ سنبھال لیتی مگر پیٹ میں جنگ مچی ہوئی ہے، جلدی پکڑ اپنی بیٹی میں لیٹرین جاؤں۔ وہ فوراً شنو کو بچی پکڑا کر ایک کھلے باتھ روم میں گھس گئی۔

”چلو کچن اور کھانے کا کمرہ نیچے ہے“ وہ لوگ سیڑھیاں اترنے لگیں تو شنو نے دوبارہ بتانا شروع کیا۔

”یہ ذکیہ ہے موڈی ہے بہت کبھی بہت خیال رکھنے والی کبھی منہ پہ بیستی کردینے والی۔ ویسے یہاں کا ماحول ہی ایسا ہے خوش ہوتی ہیں تو ذرا سی مٹھائی بھی نوالا نوالا سب میں بٹتی ہے اور ناراض ہوں یا جھگڑا ہو جائے تو ایک دوسرے کو بال پکڑ پکڑ کے مارتی ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کے لیے جان قربان کرنے کو تیار کبھی ایسی بے مروت کے مرتے کو دوا کے لیے دو روپے بھی نہ دیں۔“

”یہ کیوں آئی ہے یہاں؟“

”اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ گھر والے مان نہیں رہے۔ لڑکا دوسری ذات کا ہے۔ ان کی اپنی برادری میں اس کی عمر کا کوئی ہے ہی نہیں اس کا رشتہ اس سے 8 سال چھوٹے لڑکے سے طے ہے۔“

شنو اسے مزید چھوٹی موٹی باتیں بتاتی رہی کہ یہاں دن میں 4 فیمیل اسٹاف ہوتا ہے 1 کچن کے سامان کی انچارج ہیں اور باقی تین دوسرے کام دیکھتی ہیں دو ماسیاں اور ایک سوئیپر دو کلرک ایک مالی اور ایک پیون، ایک پولیس والی بڑی عمارت کے گیٹ پہ اور ایک پولیس والا باہر مین گیٹ پہ، رات میں بس ایک خاتون اور ایک چوکیدار ہوتے ہیں وہ خاتون سامان وغیرہ دیتی ہیں اور صبح ناشتہ ان کی نگرانی میں ملتا ہے یعنی چائے اور ڈبل روٹی۔ کچھ عورتیں جن کے پاس اپنے پیسے ہوتے ہیں وہ اپنی مرضی کا ناشتہ بھی پکا لیتی ہیں۔

”رات والی باجی بہت اچھی ہیں فاطمہ نام ہے ان کا۔ ابھی وہی ہوں گی کچن میں۔“

اتنی دیر میں وہ لوگ ایک بڑے سے کمرے میں پہنچ گئیں جس کے بیچ میں دو لمبی لمبی ٹیبل لگی ہوئی تھیں۔ کوئی نو دس عورتیں مختلف چیزیں کھا رہی تھیں عموماً کے پاس چائے ڈبل روٹی تھی۔ اس کے سائیڈ پہ ایک اور کمرہ نظر آ رہا تھا شنو اسے لے کر اسی کمرے میں چلی گئی تو اسے پتا چلا کہ یہ کچن ہے۔ کچن بھی عام گھریلو کچنز سے تو کافی بڑا تھا۔ بیچ میں اسکول میں استعمال ہونے والی ٹیبلز جیسی ایک لکڑی کی ٹیبل رکھی تھی جس پہ تین بڑے بڑے فلاسک رکھے تھے ساتھ ہی ایک چئیر پہ ایک ادھیڑ عمر خاتون سادے سے کپڑوں میں نماز کی طرح سر سے دوپٹہ لپیٹے بیٹی تھیں۔

”بسمہ یہ فاطمہ باجی ہیں یہاں کی سب سے اچھی باجی“
وہ خاتون مسکرا دیں
”اچھا بس مکھن نہ لگاؤ آج سب سے آخر میں آئی ہو ناشتہ لینے۔“

”باجی رات سونے میں دیر ہوگئی تھی۔ پھر صبح اس کو تھوڑا دارلامان کا ٹور لگوایا سب سے جلدی جلدی ملوایا۔ ابھی بھی کافی عورتیں رہ گئی ہیں ملنے سے۔ نخرے پیٹیوں سے تو ملوایا ہی نہیں۔ کچھ نظر نہیں آئیں۔ یہ بسمہ ہے کل جب آپ کی ڈیوٹی شروع ہوئی تو یہ سو رہی تھی میں بھی بھول گئی بتانا۔ اس کے لیے ڈبل روٹی نکل آئے گی؟ نہیں تو میں اور یہ آدھی بانٹ لیں گے“

”اچھا یہ ہے وہ بچی کل مجھے نرگس نے بتایا تھا مگر اسے نام نہیں پتا تھا۔ اسی لیے میں نے اس کے حساب سے منگا لی تھی ڈبل روٹی۔“

پھر شفقت سے بسمہ کی ٹھوڑی ہلکے سے چھوئی
”بیٹا اب طبیعت کیسی ہے“
ان کے اتنے پیار سے پوچھنے پہ بسمہ کے گلے میں آنسوؤں کا گولا سا اٹکا۔ اس نے بس سر ہلا دیا۔
پھر خود پہ تھوڑا قابو پا کر پوچھا
”شنو کہہ رہی تھی 9 بجے تک پولیس آکر مجھے گھر پہنچا دے گی؟“

”بیٹا ابھی تو کسی کو آپ کا ایڈریس ہی نہیں معلوم۔ پہلے آپ کی اسٹیٹمنٹ لکھی جائے گی۔ کل آپ کی ٹیسٹ رپورٹس اور بیان کے ساتھ آپ کو عدالت لے کر جائیں گے۔ پھر جج جو فیصلہ کرے۔“

”مجھے اپنے گھر کا رستہ پتا ہے مجھے چھوڑ دیں تو میں خود چلی جاؤں گی۔“

”دیکھو گڑیا یہ حکومت کا ادارہ ہے اور شیلٹر ہوم ہے عورتوں کی حفاظت کے لیے تو عورتوں کے آنے جانے کی اجازت عدالت سے ہی لینی پڑتی ہے۔ ہمیں تونہیں پتا ناں کہ کس بچی کو جان کا خطرہ ہے تو بس ہم آرڈر پہ چلتے ہیں۔“ بسمہ نے سمجھنے کے انداز میں سر ہلا دیا۔ اتنی دیر میں شنو نے اپنی بیٹی فاطمہ باجی کو تھمائی اور چائے اور ڈبل روٹی نکال لی۔ بسمہ خاموشی سے چائے کے ساتھ ڈبل روٹی کھانے لگی شنو مسلسل فاطمہ باجی کو کل کے قصے سنا رہی تھی۔

”فاطمہ باجی کل تو طاہرہ اور چھوٹی میں زبردست جنگ ہوئی۔ طاہرہ نے چھوٹی کا چارجر لے لیا تھا اور اس کی پن ٹیڑھی ہوگئی۔“

” توبہ ہے شنو بری بات ہے تم نے ان کا جھگڑا ختم کروانا تھا ناں آکر مجھ سے غیبت کر رہی ہو۔“

”اللہ نہیں باجی غیبت کرنے کے لیے تھوڑی بتایا اس لیے بتایا کہ آپ جھگڑا ختم کروا دیتی ہیں۔ باقی تو بس پرس بغل میں دبائے ادھر ادھر گھومتی رہتی ہیں۔“

”اچھا وہ تو غیبت نہیں تھی اور یہ جو اب کی وہ۔“ فاطمہ باجی نے پیار سے گھورا اسے
”آپ سمجھائیں ناں چھوٹی کو اتنی اتنی سی چیزوں کے لیے اتنا جھگڑا کرتی ہے۔“

”بیٹا وہ بچاری بھی کیا کرے ایک یہی موبائل تو یہاں کی بچیوں کے لیے ایک آسرا ہے اپنے گھر سے دور اجنبیوں کے درمیان تو بچیاں ویسے ہی ہول ہول کے آدھی ہوجائیں۔“ پھر بسمہ کو بتانے لگیں

”اصل میں موبائل کی اجازت نہیں ہے یہاں۔ مگر میڈم زیادہ سختی نہیں کرتیں۔ بچیاں بہت گھبرا جاتی ہیں۔ گھر والوں سے تھوڑی بات چیت ہوتی رہتی ہے تو تسلی رہتی ہے انہیں۔“

بسمہ نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔ وہ لوگ ناشتہ کر ہی چکی تھیں شنو نے دونوں کپ دھو کر الماری میں رکھے پھر بیٹی فاطمہ باجی سے واپس لے لی۔ فاطمہ باجی بھی اٹھ گئیں۔

”چلو بھئی میری بھی چھٹی کا وقت ہوگیا۔ بانو بھی آ گئی ہوگی۔

”آئے ہائے باجی بانو باجی تو اتنا رلا رلا کر چیزیں دیتی ہیں مجھے بالکل اچھی نہیں لگتیں۔ آپ اپنی ایک اور فوٹو اسٹیٹ کروا لیں دن میں بھی آپ رات میں بھی آپ کتنا مزا آئے گا۔“ شنو کے مزاحیہ انداز پہ فاطمہ باجی اور بسمہ دونوں ہی ہلکے سے مسکرا دیں۔ شنو کی اس طرح کی باتوں پہ عموماً دیکھنے والے یہ سمجھتے تھے کہ یہ دارلامان میں بہت خوش ہے مگر یہ صرف وہی جانتی تھی کہ اس کی عموماً راتیں جاگ کے گزرتی تھیں پہلے تو صرف اپنا بوجھ تھا اب بچی کا بھی۔

فاطمہ باجی اپنا سامان اٹھا کر باہر نکلیں پیچھے پیچھے یہ دونوں بھی ہال سے باہر نکل آئیں۔
”شنو یہ لڑکیاں موبائل کے لیے اتنی جذباتی کیوں ہیں؟“
”بسمہ ایک سیدھا جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لڑکوں سے دوستیوں کے لیے مگر یہ آدھا سچ ہوگا۔“
”کیا مطلب“

” مطلب یہ کہ دارلامان سے نکلنا صرف اس کے لیے ممکن ہے جس کے گھر والے یا شوہر سپورٹ کرنے والا ہو۔ جس کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو اس کی ساری زندگی یہیں گزر جاتی ہے۔ ایسے میں ان لڑکیوں کو مجبوراً باہر سپورٹ تلاش کرنی پڑتی ہے۔ جب کوئی لڑکی نئی آتی ہے تو عموماً پرانی والی عورتیں اسے یہی مشورہ دیتی ہیں کہ یہاں سے نکلنا ہے تو یار ڈھونڈ لو کوئی۔“

”انہیں شرم نہیں آتی اتنا گھٹیا مشورہ دیتے ہوئے۔“
بسمہ کو ایک دم غصہ آ گیا اتنا نامناسب مشورہ سن کے۔

”بسمہ سننے میں جتنا یہ تلخ ہے کرنے میں اس سے زیادہ مشکل مگر یہ عورتیں جو کچھ سہہ کر آئی ہیں اور جو کچھ سہہ رہی ہیں انہیں پتا ہے کہ یہ مشورہ انہوں نے نیک نیتی سے ہی دیا ہے۔ بس اپنی زندگی کی سختی ان کے لہجوں سے جھلکتی ہے اب۔ بہت سی ایسی بھی آئیں جو شروع میں دعوے کرتی ہیں کہ ہم مر جائیں گے مگرباہر نکلنے کے لیے کسی لڑکے سے دوستی نہیں کریں گے۔ مگر چند ہی مہینے میں گھبرا جاتی ہیں۔ ورنہ خود سوچو کسی ایسے بندے پہ اعتبار کرنا کتنا مشکل ہے جسے کبھی دیکھا بھی نہ ہو۔“ بسمہ اگر یہاں صرف دیکھنے آئی ہوتی تو شاید پلٹ کے کہتی کہ کیا مسئلہ ہے رہنے میں حفاظت سے رہ رہی ہیں کھانے پینے کو سب میسر ہے۔ مگر وہ خود اتنی سے دیر میں اس ماحول سے گھبرا گئی تھی۔ اور سب سے بڑی گھبراہٹ ہے یہ تھی کہ وہ اپنی مرضی سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔ شنو نے مزید بتایا

”عام جھگڑے تو روز کی بات ہیں مگر کبھی کبھی ایسے بھی حالات ہو جاتے ہیں کہ ان کی ہمتیں جواب دے جاتی ہیں۔ ابھی دو مہینے پہلے ایک عورت نوراں آئی تھی یہاں۔ ٹی بی کی مریض تھی۔ بہت غریب گھرانے سے تعلق تھا اور تقریباً آخری اسٹیج پہ تھی۔ اولاد کوئی تھی نہیں شوہر کی دوسری بیوی نے مار پیٹ کے گھر سے نکال دیا تو رشتہ دار یہاں چھوڑ گئے۔ اپنے بستر پہ پڑی کھانستی رہتی تھی اور خون تھوکتی رہتی تھی۔ بالکل کونے والا کمرہ دیا تھا اسے اور کوئی اس کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں تھی۔

ماسیاں کھانا رکھ آتی تھیں اس کے پاس۔ ایک دن جب کافی دیر اس کے کھانسنے کی آواز نہیں آئی تو پتا چلا کہ پتا نہیں کب مر گئی تھی وہ۔ پورا ایک دن اس کی لاش کمرے میں ایسے ہی پڑی رہی کیونکہ کوئی وارث آکر لے جانے کو تیار نہیں تھا۔ پھر اگلے دن ایدھی والے لے گئے لاوارثوں کی طرح دفنانے۔ اس کے بعد کئی دن تک کوئی عورت اس کمرے میں رہنے کو تیار نہیں تھی۔ کچھ عورتوں کا کہنا تھا انہیں اس کمرے میں نوراں بیٹھی روتی دکھائی دیتی ہے۔“

”کیاواقعی یہاں پہ اس کی روح ہے“
بسمی ایک دم خوفزدہ ہوگئی

”نہیں نہیں وہ بچاری زندگی میں کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکی مرنے کے بعد کیا بگاڑے گی۔ عورتوں کا اپنا خوف تھا۔ میڈم نے ان کی تسلی کے لیے اس کمرے میں قرآن خوانی اور میلاد شریف کروائی اس کے بعد سے سب ٹھیک ہے۔ مگر تم بتاؤ ایسی موت کون مرنا چاہتا ہے۔ اس واقعے کے بعد لڑکیاں بہت ڈر گئی تھیں۔“

بسمہ گنگ سی سب سن رہی تھی۔ صبح تک اسے لگ رہا تھا کہ اس کی زندگی میں سب سے زیادہ تکلیفیں ہیں۔ مگر اب اسے احساس ہوا کہ دنیا میں کہیں زیادہ مسائل موجود ہیں۔ اور لوگ اس سے اپنی اپنی ہمت کے مطابق لڑ رہے ہیں۔

ایک دم اسے خیال آیا۔ وہ تو کبھی اپنے حالات سے نہیں لڑی۔ اگر باسط اسے نہ نکالتا تو وہ کبھی خود سے اس گھر سے نہ نکلتی۔ اب تک اس کا خیال تھا کہ بد چلنی کا الزام اتنا خوفناک ہے ایک عورت کے لیے کہ وہ مرجائے گی مگر یہ الزام نہیں سہہ سکتی اور اب اسے اندازہ ہوا کہ اس الزام کے بعد بھی زندگی ہوتی ہے اور گزارنی پڑتی ہے۔

*****۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ہے ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ******

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments