حقیقت اورافسانہ (فلیش نان فکشن)


حقیقت کی تین اقسام ہیں : معروضی حقیقت، موضوعی حقیقت، سماجی حقیقت۔

معروضی حقیقت سائنسی نوعیت کی ناقابل تردید سچائی ہے جو کسی خاص زمان و مکاں میں خود کو دہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جیسے پانی کو جب جب ایک خاص درجہ حرارت تک گرم کیا جائے گا تو بخارات میں تبدیل ہو جائے گا۔ سادہ ملیریا کی وجہ ہمیشہ مادہ اینوفلیز مچھر ہوگی جو اپنے شکار کو کاٹ کر اس کے بدن میں پلازموڈیم نامی ایک جرثومہ داخل کر دے گی۔ ضیائی تالیف کا عمل ہر بار روشنی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا محتاج ہوگا۔ ٹیپ بال کو جتنی زور سے دیوار میں مارا جائے گا، اتنی ہی شدت سے واپس آئے گی۔ معروضی حقائق ہمہ گیر اور ہمیشہ درست ہوتے ہیں چنانچہ انہیں عالمگیر سچائی کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

موضوعی حقیقت کسی بھی ایک فرد کی ذاتی سچائی ہے جو اس کے تجربات، احساسات اور خیالات کے ملاپ سے جنم لیتی ہے۔ چونکہ موضوعی حقائق، وجدان اور حسیات سے نتائج کشید کرتے ہیں لہٰذا ان میں غلطی کا احتمال رہتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی فرد کا دعویٰ کہ اس نے سو فٹ لمبا اور چھ ہاتھوں والا ننگ دھڑنگ بھوت دیکھا ہے یا ایک نامعقول مگر حسین و جمیل چڑیل نے اس کی عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے، اس فرد کی موضوعی حقیقت کہلائے گی تاآنکہ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ فی الواقع بھوت پریت پائے جاتے ہیں، جن کا مسکن اسی کائنات میں ہے اور وہ ہماری زندگیوں میں مداخلت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہر آدمی کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے جو درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، مگر غلط ہونے کے باوجود اس کی سچائی کم از کم اس ایک فرد کی حد تک مستند ہوگی۔ خاکسار کو میؤ ہسپتال کی کینٹین پر ایک ضعیف العمر آدمی سے ملنے کا اتفاق ہوا جس نے قائد اعظم محمد علی جناح ہونے کا دعویٰ کیا اور ثبوت کے طور پر ایک روپے کا سکہ پیش کیا۔ اس آدمی کا قائداعظم ہونا ایک موضوعی حقیقت تھی جو اس کے اعصابی نظام کی شکست و ریخت سے تشکیل پا کر اس کی زبان تک آ گئی۔

”ہم دل دے چکے صنم“ کی نندنی کا اصرار کہ ہونٹ چومنے سے بچہ پیدا ہو جاتا ہے اور ’میگنولیا ”میں مینڈکوں کی بارش، موضوعی حقائق کی کچھ نمائندہ مثالیں ہیں تاہم ارشمیدس کا نظریہ کثافت اور آئن اسٹائن کا نظریہ اضافت بھی ابتدا ء میں موضوعی تھے جو اس بات کا واشگاف اظہار ہے کہ سائنسی یا سماجی اعتبار کے حصول سے قبل ہر حقیقت موضوعی ہوتی ہے۔

موضوعی حقیقت کے برعکس سماجی حقیقت کسی بھی معاشرے کا اجتماعی سچ ہے جس کی تشکیل میں کئی تاریخی، سیاسی، مذہبی اور ثقافتی عوامل اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ماضی قریب، ماضی بعید اور ماضی تمنائی سے اخذ کردہ نتائج کا مجموعہ ہے جو غلط بھی ہو سکتے ہیں اور درست بھی۔ چونکہ ہر انسانی سماج ایک مسلسل تغیر و تبدل سے گزرتا ہے چنانچہ سماجی حقائق بھی بدلتے رہتے ہیں۔ قرون وسطیٰ کے یورپی سماجوں کا عورت کو شر سمجھنا ایک سماجی حقیقت تھی، جسے صنعتی ترقی سے حاصل ہونے والے شعور نے رد کر دیا۔ یہ یقین کہ رنگ، نسل، جنس، ملک اور زبان کی بنیاد پر لوگوں کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے ایک سماجی حقیقت ہے، جو اس وقت تک رائج رہے گی جب تک سماج کی اکثریت اس سے منحرف نہ ہو جائے۔

افسانہ نثری ادب کی ایک معروف صنف ہے۔ بہ ظاہر تو افسانہ اور حقیقت دو متضاد چیزیں ہیں مگر دیگر اصناف ادب کی طرح افسانہ بھی حقیقت کو سمجھنے اور بیان کرنے کی ہی ایک کوشش ہے۔ ایک سماجی سرگرمی ہونے کے ناتے افسانے پر بہت سی اخلاقی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن میں سب سے نمایاں ہر اس سماجی یا موضوعی حقیقت کا ابطال ہے جو نا انصافی، عدم مساوات اور انسان دشمنی پر مبنی ہو۔

افسانہ اگر انسانی حقوق کی ترجمانی کرنا چھوڑ دے تو ممکن ہے اس کی ادبی حیثیت قائم رہے مگراس کا اخلاقی جواز ختم ہو جائے گا جبکہ ایک مابعد حقیقت دنیا میں اخلاقی جواز سے زیادہ اہم اور کچھ نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments