یہ قومی مفاد کیا بلا ہے؟


قومی مفاد یا نیشنل انٹرسٹ کسی بھی ریاست کے رولنگ ایلیٹس کی پسندیدہ اصطلاح ہے۔ ویسے تو عام طور پر قومی مفاد سے مراد کسی ملک کے عزائم و مقاصد ہے۔ لیکن درحقیقت قومی مفاد ایک ایسا جادوئی چراغ ہے جس کو رگڑنے سے حکمران طبقہ اپنی ذاتی مفادات اور خواہشات کے حصول میں با آسانی کامیاب ہو جاتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے اس اصطلاح نے پندرہویں صدی میں جنم لیا جب قوم پرستی یا نیشنلزم اپنے ابتدائی مراحل میں تھا اور قومی ریاستیں وجود میں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس سے قبل مذہبی مفادات کو قومی مفادات پر فوقیت حاصل تھی۔ دراصل مذہبی مفادات کو قومی مفادات پر فوقیت کے پیچھے بھی سیاسی محرکات شامل تھیں۔ چونکہ اس دور میں روم مذہب کے نام پر ایک عظیم سلطنت قائم کر چکا تھا، اس لیے مذہبی مفادات کی تحفظ دراصل سلطنت روما یا با الفاظ دیگر حکمرانوں کے مفادات کی تحفظ تھی۔

اس رواج کو اپناتے ہوئے تمام مغربی اقوام نے خارجہ پالیسی کی تشکیل یا کسی بھی سیاسی عمل کو قومی مفاد کے نام پر جسٹیفائی کرنا شروع کیا۔ جنگیں لڑی گئیں قومی مفاد کے نام پر، بے شمار معصوم انسانوں کا قتل عام کیا گیا قومی مفاد کے نام پر۔ امن معاہدے ہوئے قومی مفاد کے نام پر، عالمی ادارے تشکیل دیے گئے قومی مفاد کے نام پر، اور توڑ بھی دیے گئے تو قومی مفاد کے نام پر۔ اس پورے سلسلے میں مفاد کا معیار عام آدمی کی خواہشات یا ضروریات نہیں بلکہ ریاست کے سر کردہ حکمرانوں کی ذاتی خواہشات اور مفادات کو قرار دیا گیا۔

مملکت خدا داد پاکستان میں بھی پچھلے ستر سال سے عام آدمی کو قومی مفاد کے نام پر ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ جس کے ڈرائیونگ سیٹ پر اسٹیبلشمنٹ نامی ایک ڈرائیور براجمان ہے اور پیچھے دوڑتا ہوا غافل عوام کا ایک جم غفیر ہے۔ ریاست پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں گنتی کے چند افراد یا ادارے خود کو قوم اور اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہاں صرف بالادست اور طاقت ور طبقہ اپنے ہی نقطہ نظر کو قومی مفاد سے جوڑتا ہے، جبکہ دیگر فریقین کے نقطہ نظر کو ملک دشمنی اور غداری کے فہرست میں ڈال کر رد کر دیتے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد آئین بننے میں آٹھ، نو سال کی تاخیر اس لیے ہوئی کہ اس دور کے بیوروکریسی اور وڈیروں کے مطابق یہ قوم کے دور رس مفاد میں تھا۔ جنرل ایوب خان نے 1958 میں پاکستان کے پہلے آئین کے یہ کہہ کر پرخچے اڑائے کہ سیاست دان ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو لہذا ان کی آمریت قومی مفاد میں ہے۔ مشرقی پاکستان کے باسیوں کو ان کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق سے محروم رکھنا اور 1970 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کو واضح فتح کے باوجود انہیں اقتدار حوالہ نہ کرنے کے پیچھے بھی شاید یحییٰ خان کی قومی مفاد والی پالیسی ہی کار فرما تھی۔ کچھ حضرات کے مطابق تو پاکستان کا دو ٹکڑے ہونا بھی پاکستان کے مفاد میں تھا۔

جنرل ضیا الحق کا اقتدار پر قابض ہوتے ہی ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پہ لٹکانا او برسوں تک اسلام کے نام پر ریاست اور آئین کی دھجیاں بکھیرنا بھی ملک کے مفاد میں تھا۔ اور پھر امریکہ کی وفاداریاں نبھاتے ہوئے ملک کو مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت، اور دہشت گردی کی تجربہ گاہ بنانا بھی ملکی مفاد کے لئے نہایت ضروری تھا۔

مشرف کا ایمرجنسی نافذ کر کے آئین کو معطل کرنا اور برسوں تک امریکی مفادات کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرنا بھی قوم و ملت کے دور رس مفاد میں ہی تھا۔

قومی مفاد کا مفہوم سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے قوم کا مفہوم سمجھنا ہوگا کہ کیا قوم سے مراد عام آدمی ہے، قوم سے مراد ریاست کا ہر شہری ہے یا قوم کچھ مخصوص افراد کے ٹولے کا نام ہے۔ ہمیں ایک عام آدمی کے مفادات و ضروریات اور ریاست کی ترجیحات کے بیچ فرق کو سمجھنا ہو گا۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ریاست کا کوئی بھی ایسا اقدام جو انسانی حقوق کی پامالی، صوبائیت، لسانیت، باہمی تعصب، صوبوں کا احساس محرومی یا فرقہ واریت کو جنم دے تو وہ کسی خاص ٹولے کا مفاد تو ہو سکتا ہے لیکن ملکی مفاد ہر گز نہیں ہو سکتا۔

پس ریاست اگر بقول حبیب جالب ”چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے“ کے مصداق، صرف بالادست طبقے کی سرپرستی کرنا شروع کردے اور رولنگ ایلیٹس قومی مفاد یا نیشنل انٹرسٹ کی آڑ میں اپنے ذاتی مقاصد کے حصول میں لگ جائے تو عوام کو بھی خواب غفلت سے بیدار ہو کر ”میں نہیں مانتا“ کا نعرہ بلند کر دینا چاہیے وگرنہ زوال اور ہلاکت ہی اپنا مقدر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments