ڈالرائزیشن سے ڈی۔ ڈالرائزیشن


گزشتہ سات دہائیوں میں د نیا کے مالیاتی امور پر ڈالر کا راج رہا ہے زیادہ تر ممالک کے درمیان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں لین دین اور معاہدوں میں لاگت کے تخمینے کے لیے ڈالر کا استعما ل ہوتاہے۔ اس عمل کے لئے ڈالرائزیشن کی اصطلاح استعما ل ہوتی ہے۔ ڈالرائزیشن کے کچھ فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ وہ ممالک جن کی معیشتیں کمزور ہوتی ہیں اور جہاں افراط زر زیادہ ہوتاہے دیگر ممالک ان کے ساتھ لین دین کے لئے مقامی کرنسی کے استعمال سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ افراط زر کی وجہ سے مقامی کرنسی کی قدر گرتی رہتی ہے۔

اس لیے یہ ممالک لین دین کے لئے ایسی کرنسی کو ترجیح دیتے ہیں جس کی عالمی سطح پر قدر مستحکم ہو۔ اس وجہ سے دنیا میں ڈالرائزیشن کو فروغ ملا ہے۔ ڈالرائزیشن سے ان ممالک کی معاشی حالت کا ندازہ ہوجاتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر معاشی لحاظ کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔ چونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی نظام کی تشکیل میں امریکہ نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے اور ایک لمبے عرصے سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بھی ہے اس لیے ڈالرائزیش میں امریکی ڈالر کو استعما ل کیا جاتا رہا ہے۔

تاہم اپنی معیشت کو ڈالر میں ظاہرکرنے کے بعد مختلف ممالک کو معیشت کی قدر کا اندازہ امریکہ کی سینٹرل ریزرو کرتی ہے یہ وہ ادارہ ہے جو ڈالرائزیشن اختیار کرنے والے ممالک کو بتاتاہے کہ کہ ان کی معیشت کہاں کھڑی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس ادارے کی رائے کو پیمانہ سمجھا جاتا ہے اسی بنیاد پر دیگر ممالک اور ادارے ڈالرائزیشن اختیار کرنے والے ممالک کے ساتھ لین دین اور دیگر مالی معاملات کا تعین کرتے ہیں۔ کسی ملک کی کرنسی کی قدر کا تعین کس طرح کیا جاتا ہے یہ ایک اورتفصیلی موضوع ہے جو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں۔

دنیا کے اکثر مرکزی بینک ڈالرئزیشن کے ذریعے ہی لین دین کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کے ساتھ آئی ایم ایف اوردوسرے ممالک یا بین الاقوامی ادارے ڈالرائزیشن کی بنیاد پر لین دین اور دیگر معاملات طے کرتے ہیں۔ ڈالرائزیشن کے بعد ممالک کی معیشتیں آزاد نہیں رہتیں کیونکہ اسی بنیاد پر بین الاقوامی ادارے لین دین کرتی ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پرامریکہ کے سیاسی اثرورسوخ میں اضافے کے ساتھ ساتھ امریکہ نے ڈالرائزیشن کا سیاسی استعمال بھی شروع کیا۔ جس سے تنگ آکر ڈی۔ ڈالرائزیشن کا رجحان شروع ہوا۔ ڈالرائزیشن کے سیاسی استعمال کی سب سے بڑی مثال ایران کا معاملہ ہے۔ ایران ڈالرائزیشن اختیار کرنے والا ملک ہے۔ جب امریکہ کی ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھ گئی تو ڈالرائزیشن کو استعمال میں لاتے ہوئے ایران پر پابندیاں لگائی گئیں۔ ایران ڈالرائزیشن کے ذریعے ہی تیل فروخت کرتاتھا جس کی وجہ سے یورپ کو تیل کے حصول میں مشکلات پیش آتے لگیں۔ یورپ نے اس بحران پر قابو پانے کے لئے متبادل کے طور پر ایک اور نظام بنایا اور ایران کے لئے یورپ تیل بیچنا ممکن ہوگیا۔

امریکہ کے اس رجحان اور اپنی آزاد معاشی پالیساں ترتیب دینے کی خاطربہت سے ممالک نے ڈی۔ ڈالرائزیشن کی طرف سفر اختیار کیاہے۔ ڈی۔ ڈالرائزییشن کے لئے عالمی پالیسیوں میں امریکی قرضوں پر انحصار کو تیزی سے کم کرنا، اینکر کرنسی کے طور پر امریکی ڈالر کی حیثیت کو چھوڑنا، غیر ڈالر اجناس کی تجارت میں اضافہ، غیر ڈالر کرنسیوں کے ذخائر میں اضافہ، اور ڈالر کے مقابلے میں سونے کی حیثیت کو بڑھانا شامل ہیں۔ امریکی قرض کے تناظر میں، اپریل 2018 سے مارچ 2020 تک لگاتار 22 ماہ میں عالمی مرکزی بینکوں نے اپنے امریکی قرضوں کو کم کیا۔

مارچ میں، امریکی فیڈرل ریزرو نے لامحدود مقدار میں آسانی پیدا کرنے کا وعدہ کیا، اورایک مہینے میں 1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کے خزانے خریدے۔ فیڈرل ریزرو امریکی خزانے کا سب سے بڑا وصول کنندہ بن گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، مارچ میں، ایک ماہ اور تین ماہ کے ٹریژری بل پر پیداوار منفی رہی، جبکہ 10 سالہ ٹریژری کی پیداوار پہلی بار 1 فیصد سے کم ہوگئی۔ اس سے کمزور امریکی معیشت سے عالمی توقعات اور ڈی۔ ڈالرائزیشن کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔

اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ قلیل مدتی تناظرمیں غیرملکی سرمایہ کاروں کی ایک قلیل تعداد امریکی ٹریژریوں کے حصول میں اضافہ کر سکتی ہے۔ تاہم، طویل مدتی تناظر میں، بیرون ملک مقیم سرمایہ کاروں کے ممکنہ طور پر امریکی قرضے کم ہو نے کا امکان ہے۔ فیڈرل ریزرو، جس نے اپنی عالمی ساکھ بنانے میں نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ لگایا ہے، امریکی خزانے کی آخری کھائی بنتی دکھائی دے رہا ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران، چین، فرانس، جرمنی اور روس جیسے متعدد جی 20 ممبران نے تجارتی سودوں میں امریکی ڈالر کے استعمال کو کم کر دیا ہے۔ سوسائٹی فار ورلڈ وائڈ انٹر بینک فنانشل ٹیلی کمیونیکیشن (سوئفٹ) کی انکشاف کردہ معلومات کے مطابق، مئی میں، بین الاقوامی ادائیگی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کا حصہ کم ہوکر 40.88 فیصد رہ گیاہے، جبکہ مارچ میں یہ 44.1 فیصد تھا۔ مارکیٹ کے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اگرچہ ”ڈی۔ ڈالرائزیشن“ کو حقیقت کاروپ دھارنے میں بہت طویل سفر طے کرنا ہے تاہم بعض ممالک کا اس کے حصول کے لئے بڑھتے اضطراب کو محسوس کیا جا سکتاہے۔

سوئفٹ سسٹم، جسے روایتی طور پر تجارتی کلیئرنس اورادائیگیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اور جس پر امریکہ حد سے زیادہ کنٹرول رکھتا ہے، کو پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بہت سارے ممالک ڈی ڈالرائزیشن ادائیگی کے نظام کی تشکیل کے لئے کا م کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، چین نے سن 2015 میں کراس بارڈر انٹربینک ادائیگی کا نظام شروع کیا تھا۔ غالب امکان ہے کہ بین الاقوامی ادائیگی کے نظام میں امریکی ڈالر کا حصہ 40 فیصد سے نیچے آ جائے گا۔

آئی ایم ایف کے تمام ممبر ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں امریکی ڈالر کا حصہ 2000 میں 72 فیصد سے کم ہوکر 2020 کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر 61.99 فیصد رہ گیا ہے۔ اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر میں امریکی ڈالر کا حصہ اب بھی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، حالیہ برسوں میں اس کی کمی بالکل واضح ہے۔ مختلف ممالک اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو متنوع بنانے کے لئے پرعزم ہیں۔ دریں اثنا، بہت سے ممالک کے مرکزی بینکوں نے اپنے سونے کے ذخائر میں اضافہ کیا ہے، اور سال 2019 خالص سونے کی زیادہ سالانہ خریداری کا مسلسل 10 واں سال بن گیا ہے۔

امریکی ڈالر سے درپیش خطرے کو کم کرنے کے لئے، عالمی سطح پر سونے کے ذخائر میں امریکی حصہ جون 2019 کے آخر میں 23.64 فیصد سے کم ہوکر جون 2020 کے آخر میں 15.5 فیصد رہ گیا ہے۔ اس سے ممالک کی امریکی ڈالر پر اعتماد کم ہونے کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ ہانگ کانگ کے لئے ملک کی قومی سلامتی کے قانون کی وجہ سے چین کے خلاف امریکہ کی طرف سے پابندی عائد کرنے سے زیادہ تر ممالک کے ”ڈی ڈالرائزیشن“ پروگراموں میں مزید تیزی آئے گی۔

امریکی خزانے، ادائیگیوں اورغیر ملکی ذخائر کے علاوہ ڈیجیٹل کرنسی وہ جدید ترین عنصر ہے جو ڈی۔ ڈالرائزیشن کے عمل کو مزید تیز کر سکتی ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی ٹیکنالوجی اور ٹولز کے لحاظ سے بین الاقوامی کرنسی کے طور پر امریکی ڈالر کے جامع متبادل کے طور پر جگہ لے سکتی ہے۔ بڑی معیشتوں بشمول چین، یورپی یونین، اور جاپان کے علاوہ بہت سے ملٹی نیشنل کارپوریشنوں نے ڈیجیٹل کرنسی پر طویل عرصے تک تحقیق کی ہے۔

اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے ہی، ڈی۔ ڈالرائزیشن کے بہت سے متشککین کہتے رہے ہیں کہ عالمی سطح پر ڈی۔ ڈالرازیشن کا عمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ مارکیٹیں بنیادی طور پر امریکی ڈالر پر منحصر ہیں۔ تاہم کووڈ19 نے ڈی۔ ڈالرائزیشن کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔ اس وقت چین امریکہ کشمکش عروج پر ہے۔ امریکہ چین کے ساتھ سرد جنگ کے موڈ میں ہے جس کے تحت مختلف ٹو لز کو چین پر دباؤ بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے تاہم سفارتی تبدیلیوں اور امریکی ڈالر سے مارکیٹ کی توقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ڈالرائزیشن کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے چین کو محدود کرنے کے لئے اس کے گرد اسٹریجک حلقہ تشکیل دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments