بانو قدسیہ : راجہ گدھ یا ملکہ رانی؟


کالج کا زمانہ تھا۔ بانو قدسیہ کا ناول ہاتھ میں تھا۔ مگر الٹنے پلٹنے کی خواہش نہیں ہو رہی تھی۔ سرورق پر لمبی گردن والے ایک گدھ کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ اس کے نیچے لکھا تھا۔ بانو قدسیہ۔ میں لگاتار گدھ کو دیکھے جا رہا تھا۔ ملکہ رانی راجہ گدھ کیسے ہو سکتی ہیں؟ ویسے بھی گدھ اپنی تصویر میں خونخوار نظر نہیں آ رہا تھا۔ جیسے تیسے ناول کا مطالعہ کیا۔ کچھ سمجھا کچھ نہیں سمجھا۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ پہلی قرات میں مجھے ناول سمجھ میں نہیں آیا۔

دوسری قرات، جس سے کم از کم دس برس بعد گزرا، اس وقت بھی ناول کے بہت سے حصے سر کے اوپر سے گزر گئے۔ مگر بانو قدسیہ کو پڑھتے ہوئے دونوں بار احساس ہوا کہ معاملہ پیچیدگی کی حد تک پیچیدہ ہے۔ کسی مولوی گھرانے سے ہوں گی۔ مگر ان کی کچھ کہانیاں پڑھنے کے بعد سب سے پہلے جس خاتون کا نام میرے ذہن میں ابھرا، وہ ورجینیا وولف تھی۔ ورجینیا کا پروفائل ورجینیا کے بارے میں بہت کچھ کہہ دیتا ہے۔ ورجینیا کا ایک دوست تھا، جیزیل فرونڈ۔

اس نے بغیر ورجینیا کو بتائے اس کی ایک تصویر کھینچ لی۔ وولف اس تصویر سے نفرت کرتی تھی۔ شاید اس لئے کہ، کسی نہ کسی سطح پر، وہ جانتی تھی کہ فرونڈ نے تصویر لیتے ہوئے تدبیر لڑائی ہوگی اور اسے پتہ بھی نہیں چلا۔ بانو سے اکثر ملنے والے اور صحافی اسی طرح بات کر لیا کرتے تھے۔ بانو کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔ اب میں ایک دوسری بات کہنے جا رہا ہوں۔

ورجینیا کی تصاویر کو دیکھئے تو حیرت انگیز پہلو وولف کی نگاہوں کی شدت ہے۔ گفتگو اور تحریر دونوں میں، وولف کے یہاں گرمی کم اور توازن زیادہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے افسانوں میں سمندر کی نمایاں حیثیت ہے، ایک ایسی دنیا کے استعارے کے طور پر جس میں حقیقت کی سطح پر روشن دھاروں کا، قریب سے معائنے کے بعد ایسا نقشہ کھینچا گیا، جو صرف وولف کھینچ سکتی ہیں۔ یہ توازن بانو قدسیہ میں بھی ہے۔ ان کے یہاں بھی ارواح کا ایک سمندر ہے۔

خدا معلوم ارواح کے درمیان انھیں گدھ کیسے نظر آ گیا۔ اپنی تصویروں میں بھی وہ بے نیاز نظر نہیں آتیں۔ ان کی ایک تصویر مجھے یاد آ رہی ہے۔ بانو روٹیاں سینک رہی ہیں۔ اشفاق صاحب آگ کے قریب پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا، کسی کو جاننے کے لئے اس کے پروفائل میں جاؤ اور اس کی تصاویر کا خوب جائزہ لو۔

ناول کی قرات کے دوران بانو آپا جب مصلے پر نظر آتیں یا وضو بناتی ہوئی تو ان سے شکایت پیدا ہوتی کہ بانو آپا تو مبلغ ہو گئیں۔ پھر لمبی گردن والے گدھ کی کچھ خوبیوں پر نظر دوڑاتا تو معاملہ آسانی سے سلجھتا ہوا نظر آتا۔ قدرت نے ہر جاندار کو اتنا قابل بنا دیا ہے کہ وہ خود کو زندہ رکھ سکے۔ انسان ہاتھ پاؤں کے بغیر معذور ہے، لیکن ایسی مخلوق بھی ہیں جو رینگ سکتی ہیں۔ پرندے جو کمزور ہیں ان کو پنکھ دیا گیا ہے تاکہ وہ خطرے سے بچنے کے لئے اڑ سکیں۔

ہم انسان ساری زندگی صرف اپنے بارے میں سوچ کر گزارتے ہیں۔ بہت کم انسان ہیں جنہوں نے ان انوکھے پرندوں کے بارے میں گہرائی سے سوچا ہے۔ گدھ کو آپ نہیں دیکھتے، اس لمحۂ بھی گدھ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ کیا ہم گدھ سے نفرت کرتے ہیں؟ گدھ ایک بدصورت پرندہ، مردار کے گوشت کھاتا ہوا۔ یہ کتنا ڈراونا ہے۔ لیکن اہم چیز جو ان سب سے مختلف ہے وہ یہ ہے کہ گدھ کو بھی فطرت نے اسی طرح پیدا کیا ہے جیسے انسان کو کیا۔ یہ بدصورت نظر آنے والا گدھ ایکو سسٹم کے لئے بہت اہم ہے۔

گدھ آلودگی کو صاف کرتے ہیں۔ یہ وہ گدھ ہیں جو کیڑوں سے ان کا کھانا لیتے ہیں جو فصلوں کو زہر اور بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ ماحولیات کا تحفظ کرتے ہیں۔ بدی میں ایک چہرہ نیکی کا بھی ہے۔ تاریکی میں نور کی پرتیں بھی ہوتی ہیں۔ مایوسی اور گھٹن میں یقین کا کہرا بھی ہوتا ہے۔ بیڈ مین بھی سپر مین ہو سکتا ہے۔ بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ پر پہلے بھی جو سوال اٹھائے گئے، وہ مجھے پریشان کرتے ہیں۔ اگر انسان کے جسم میں حرام گیا ہو گا تو وہ ساری زندگی خواہش کے باوجود حلال نہیں حاصل کر سکتا۔ گدھ کے لئے حلال کیا ہے؟ حرام کیا ہے؟ انسان بھی حلال اور حرام، نیکی و بدی کے درمیان اسی طرح الجھا ہے، جیسے راجہ گدھ الجھا ہوا ہے۔

نفس اور زندگی کی جنگ کے درمیان کہیں صرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے۔ انسانی سلامتی کی جنگ۔ بقا کی جنگ۔ بانو آپا یہاں ہیمنگوے کی طرح انسانی عظمت کا اعتراف کرنے آئی ہیں۔ وہ فلسفوں سے کھیلتی ہیں اور ان کے سامنے مرد مومن کا چہرہ اقبال کی طرح ایک مکمل آدمی کا چہرہ ہوتا ہے۔

محبت، ضرورت، جنوں سے گزرتی عملی زندگی میں ہم راجہ گدھ ہوتے ہیں۔ مردار کھانے سے زیادہ اہم ہے کہ وہ آپ کے ماحولیات کا محافظ ہے۔ میں اس بھید اور فلسفہ میں گدھ جیسے مردہ خور کی زندگی پر بھی ناز کرتا ہوں۔ اور گدھ کا یہی با وضو چہرہ بانو آپا نے بھی دیکھا تھا۔

بانو آپا کی زندگی حیرت انگیز واقعات سے گزری۔ لکھنے کا شوق کم عمری سے رہا۔ ڈرامے لکھے۔ اشفاق صاحب ان کی زندگی میں آئے تو بہت کچھ تبدیل ہوا۔ زندگی کا ایک رنگ وہ بھی دیکھا جب 1947 کے فسادات کی آگ پھیل چکی تھی۔ بانو آپا کے گھر والے مطمئن تھے کہ گورداس پور پاکستان کے حصے میں آئے گا مگر اعلان ہو گیا کہ گورداس پور پاکستان میں نہیں ہے۔ ہجرت کا سفر جہاں قافلے دنوں میں بھی قتل کر دیے جاتے تھے۔ بانو قدسیہ نے ہجرت کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ آدھے رشتے دار ہلاک کر دیے گئے۔ پھر یہ قافلہ کسی طرح پاکستان پہنچا۔ راجہ گدھ یہاں بھی زندہ تھا۔

بانو آپا نے اپنے ایک انٹرویو میں راجہ گدھ لکھنے کی جو وجہ بتائی، اس پر بھی غور کیجئے۔ عیسائیت کا ایسنس کیا ہے؟ Love۔ ”Love thy neighbour as thyself“ یہ ایسنس ہے عیسائیت کا۔ میں نے کہا اسلام کا جو ایسنس ہے وہ اخوت ہے، برابری ہے، بھائی چارہ ہے ہے۔ انٹرویو لینے والا یہ کہہ کر چلا گیا کہ یہ تو کوئی ایسنس نہیں ہے۔

یہاں پر پہلے ایک بہت بڑا درخت ہوتا تھا سندری کا درخت۔ سندری کا درخت ہوتا ہے جس سے سارنگی بنتی ہے۔ اس کے بڑے بڑے پتے تھے اور وہ یہاں لان کے عین وسط میں لگا ہوا تھا۔ وہ ایک دم سفید ہو گیا اور اس پر مجھے یوں لگا جیسے لکھا ہوا آیا ہو: اسلام کا ایسنس حرام و حلال ہے۔ جتنے کمانڈمنٹس ہیں یا تو وہ حرام ہیں یا حلال ہیں۔ حلال سے آپ کی فلاح پیدا ہوتی ہے اور حرام سے آپ کے بیچ میں تشنج پیدا ہوتا ہے۔ آپ میں ڈپریشن پیدا ہوتا ہے آپ میں بہت کچھ پیدا ہوتا ہے۔ میں نے اس امریکی لڑکے کو بلایا اور اسے کہا: یاد رکھنا اسلام حرام و حلال کی تمیز دیتا ہے اور یہی اس کا ایسنس ہے۔ اس کے بعد میں نے یہ کتاب لکھی اور میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کس طرح اللہ نے میری رہنمائی کی۔

میں اس بیان سے مطمئن نہیں۔ در اصل فسادات کے درمیان وہ انسانی خون کی قیمت پہچان چکی تھیں۔ خون، خون تھا نہ حرام تھا نہ حلال۔ اس وقت انسان ایک دوسرے کے لئے حرام اور حلال بن چکے تھے اور یہی رویہ ازل سے قائم ہے ابد تک قائم رہے گا۔

کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سیارہ بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور مائع گیس میں بدل جاتا ہے ’اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے‘ جو موسم ’جو رت‘ جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔

بانو قدسیہ کے ناول ”راجہ گدھ“ سے اقتباس

بانو نے سچ لکھا۔ کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ ایک قلب کی چلتی، دھڑکتی ہوئی سوئیاں آج رک گی ہیں۔ صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔ ایک قلب خاموش ہوا۔ لیکن یہ دل ہزاروں لاکھوں کروڑوں دلوں میں دھڑک رہا ہے۔ کیا راجہ گدھ کوئی ایسا ناول ہے جسے اردو ادب کی تاریخ فراموش کر دے۔ ؟ عینی بی، عبد اللہ حسین، ممتاز مفتی، انتظار حسین۔ اشفاق احمد۔ ایک موت نے کتنی یادوں کو زندہ کر دیا ہے۔ یہ کچھ ایسے نام ہیں جو کبھی بھلائے نہیں جا سکتے۔

بانو کی تحریر مختلف تھی۔ انداز مختلف تھا۔ زندگی کو دیکھنے کا فلسفہ مختلف تھا۔ آتش زیر پا، ایک دن، راجہ گدھ۔ امر بیل۔ کوئی لکیر سیدھی نہیں۔ ہر لکیر دل میں اتر جانے والی۔ گھنٹوں سوچنے پر مجبور کرنے والی۔ مجھے یاد ہے، راجہ گدھ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر دو صفحے کے بعد رک جاتا۔ خیالوں کی سونامی سے باہر نکلنا آسان ہوتا ہے کیا؟ راجہ گدھ علامتی پیرائے میں انسانی تاریخ کا ایسا المیہ بیان کرتی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ہر قدم ایک نیا فلسفہ ایک نیا سوال ہم پر حاوی ہو جاتا ہے۔ مشرق اور مغرب کی تفریق کو لے کر حاصل گھات لکھا تو یہاں بھی الجھے الجھے فلسفوں کی دستک موجود تھی۔ اشفاق احمد کو ہم گڈریا کے حوالہ سے جانتے تھے۔ پہلے یہ دنیا گلوبل نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان سے خبریں ہم لوگوں تک تاخیر سے پہنچتی تھیں۔ پھر معلوم ہوا۔ اشفاق احمد ڈرامے بھی لکھتے ہیں۔ ٹی وی کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ ہم نے اشفاق احمد کو بانو کے حوالے سے نہیں جانا۔ بانو کو اشفاق احمد کے حوالے کی ضرورت نہیں تھی۔ دونوں کے اسلوب جدا تحریر مختلف۔ گڈریا کا سرور آج بھی باقی ہے۔ راجہ گدھ کا نشہ آج بھی قائم۔ یہ نہ ختم ہونے والا نشہ ہے۔ بانو نے صرف راجہ گدھ لکھا ہوتا، تب بھی یہ نام اردو تاریخ کا ایک اہم حصہ ہوتا۔

بانو آپا کے انتقال کے بعد کچھ لوگوں نے بانو آپا کو فرضی ٹھہرانے کی ایک مذموم مہم شروع کی۔ یہ کہا گیا کہ بانو نے جو بھی لکھا، وہ اشفاق احمد کی دین ہے۔ مفروضہ یہ پیش کیا گیا کہ اشفاق احمد کے انتقال کے بعد بانو کا قلم خاموش کیوں ہو گیا؟ 88 برس کی عمر میں بانو کا انتقال ہوا۔ اگر کچھ برسوں سے بانو نے لکھنا منقطع کر دیا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بانو قدسیہ کی شخصیت کو فرضی ثابت کیا جائے۔ یہ ہمارا کیسا معاشرہ ہے جو عورتوں سے اس حد تک بد ظن ہے کہ ان پر تہمتوں کی بارش کرتا ہے۔ الزام لگاتا ہے۔ بانو کا قلم الٹا چلتا تھا۔ وہ مرد عورت میں تقسیم کی قائل نہیں تھیں۔ مردوں سے زیادہ عورتوں کو لہو لہان کرتی تھیں۔ یہ ایک پہلو تھا کہ عورت کی خود داری اور مضبوطی جاگ اٹھے۔ اور ہمارا یہ مرد معاشرہ بنو قدسیہ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کو داغدار کرنے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔

عینی بی کا انتقال ہوا تو شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ آج ہم نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ بانو قدسیہ کے جانے کے بعد لگتا ہے، ہم اردو تہذیب کے جنازے میں شامل ہیں۔ وقت کی چلتی ہوئی سوئیاں اچانک رک گی ہیں۔ وہ۔ جو اپنی تحریر میں تہذیب و ثقافت کو زندہ و پائندہ رکھنے کی ذمہ داریاں اٹھائے پھرتے تھے، جن کے دم سے ہماری یہ محفل روشن ہوا کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ چراغ بجھتے جا رہے ہیں۔ ممتاز مفتی نے بانو آپا کے بارے میں لکھا۔ قدسیہ جاٹ ہے، بانو بے ذات ہے۔ اشفاق براہمن ہے، قدسیہ شودر ہے، بانو ہاری ہے شہد کی مکھی ہے۔ قدسیہ پروانہ ہے، اشفاق بھڑ ہے۔ بانو ذہن ہے قدسی دل ہے، اشفاق ذہن ہے۔

یہ آواز میرے دل کی بھی ہے۔ بانو اور اشفاق احمد میاں بیوی تھے۔ مگر ادب میں دو مختلف شخصیت۔ ایک شخصیت کو دوسری میں ضم کرنا بد دیانتی ہے۔ بانو آپا کی شخصیت امر بیل کی طرح امر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments