‘اگر ہم انفیکشن کے ابتدائی دور میں ہی لوگوں کی تشخیص کرلیں تو یہ ایک اہم پیش رفت ہو سکتی ہے’


تھوکنے کا السٹریشن

Emma Russell

اگر ایک بار پھر کورونا سے پہلے والی زندگی میں واپس آنے کا کوئی طریقہ ہو تو کیا ہوگا؟ یعنی ایک بار پھر سے کوئی سماجی دوری نہیں، چہرے کو ڈھانپنے کی کوئی ضرورت نہیں اور کووڈ 19 کا خوف نہیں۔ یقینا یہ تمام پابندیاں وائرس سے بچنے اور اس کے پھیلاؤ کو کم سے کم کرنے کے لیے ہیں۔ ایسے میں ہمیں جس چيز کی ضرورت ہے وہ ایک تیز اور قابل اعتماد طریقہ کار ہے جس سے ہم اپنے آس پاس کے لوگوں میں انفیکشن کے بارے میں جان سکیں۔

پہلا مسئلہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کی جانچ میں مثبت پائے جانے والے ہر چار افراد میں سے کم سے کم ایک فرد میں جانچ والے دن وائرس کی علامات نہیں ہوتی ہیں۔

یہی بات اس خطرے کو اجاگر کرتی ہے کہ لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی زد میں آ چکے ہیں۔

دوسرا مسئلہ خود کورونا کی جانچ ہے۔ کورونا وائرس کا پتہ لگانے کا موجودہ معیاری طریقہ یہ ہے کہ گلے کے پچھلے حصے اور ناک کی اوپری نلی سے مادہ لیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں غیر ضروری طور پر حساس ہوں اور اپنے ٹانسل کے پاس روئی کے پھاہے لے جانا یا ناک کے نرم گوشے تک اسے لے جانا میرے لیے کلفت کا باعث ہو اور ابکائی کا باعث بنے۔ یہ سب بس چند سیکنڈ میں ختم ہو جاتا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میں ہر ہفتے اس سے گزروں جیسا کہ برطانیہ کی این ایچ ایس کے فرنٹ لائن سٹاف کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔

گلے کے پچھلے حصے سے کھکھار لینا

ایک تیسرا مسئلہ وقت کا ہے۔ سویب یعنی تھوک، کھکھار اور نیٹا یا پولیمریز چین ری ایکشن (پی سی آر) ٹیسٹ کو لیب بھیجنے اور اس پر عمل درآمد میں کچھ گھنٹے لگتے ہیں۔ دس میں سے نو افراد جو ٹیسٹ کروانے ڈرائیو ان مراکز میں جاتے ہیں انھیں 24 گھنٹے کے اندر اپنا نتیجہ ملتا ہے۔ اور یہ ابھی تک اس مرحلے میں نہیں پہنچا کہ آپ انتظار کریں ابھی نتیجہ دیا جاتا ہے۔

لہذا ایسی صورت میں ہمیں کورونا وائرس کے لیے تیز، آسان اور قابل اعتماد ٹیسٹ کی ضرورت ہے۔

کچھ تیزی سے سویب کے ٹیسٹ کی آزمائش ہو رہی ہے جو کہ اس ضمن میں ایک بڑا قدم ہوگا۔

اور تھوک کا ٹیسٹ ایک حقیقی گیم چینجر ہوسکتا ہے۔

ذرا تصور کریں کہ اگر آپ کو کورونا کی جانچ کے لیے صرف ایک ٹیوب میں تھوکنا پڑے اور کچھ نہیں۔

یقینا یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ تھوک کے اس نمونے کو لیبارٹری میں بھیجنا پڑے گا لیکن اس کا نتیجہ سویب ٹیسٹ کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے آ سکتا ہے۔

جینی لیس اور ان کے اہل خانہ ساؤتھییمپٹن میں تھوک کی جانچ کے لیے جاری چار ہفتوں کے ایک ٹرائل کا حصہ ہیں۔

جینی لیس کی فیملی

میں نے جینی اور ان کے تین نوعمر 13 سے 19 سال کی عمر کے بچوں سیم، میگ اور بلی کو دیکھا کہ انھوں نے ایک باورچی خانے میں ایک چمچے میں تھوکا اور اسے ایک ٹیوب میں ڈال دیا۔

جین کہتی ہیں: ‘سویب سے لیا جانے والا ٹیسٹ کافی ناگوار محسوس ہوتا ہے، خاص طور پر اگر آپ بہت اچھا محسوس نہیں کر رہے ہوں۔ تھوک کا ٹیسٹ اس کے مقابلے بہت آسان ہے۔’

اس منصوبے میں شہر کے دس ہزار سے زیادہ ڈاکٹرز اور دوسرے اہم کام کرنے والے اور ان کے اہل خانہ شامل ہیں۔

جینی لیس

اس پروجیکٹ کے کوراڈینیٹر اور ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے کیتھ گاڈفرے کہتے ہیں: ‘ہمارے خیال سے تھوک جانچنے کے لیے واقعی ایک اہم سیال ہے۔’

‘لعاب دہن جسم میں وہ پہلی جگہ ہے جو وائرس سے متاثر ہوتی ہے۔ لوگ پہلے تھوک ک جگہ پر پازیٹو ہوں گے پھر ان کے سانس لینے کی نلی میں وہ انفیکشن جائے گا۔

‘اگر ہم انفیکشن کے ابتدائی دور میں ہی لوگوں کی تشخیص کرلیں تو یہ ایک اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔’

جانچ کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کورونا وائرس کا پتہ لگانے میں تھوک کا ٹیسٹ کتنا درست ہے۔

تھوک

ساؤتھیمپٹن میں کیے جانے والے مطالعے کے نمونوں کی جانچ سرے میں اینیمل اینڈ پلانٹ ہیلتھ ایجنسی کی سرکاری لیبارٹریوں میں کی جا رہی ہے۔ نمونے کو ایک محلول میں شامل کیا جاتا ہے اور وائرس کے جینیاتی مواد کو دیکھنے کے لیے اسے گرم کیا جاتا ہے۔ اس طریقے کو آر ٹی لیمپ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس میں محض 20 منٹ لگتے ہیں جبکہ پی سی آر ٹیسٹنگ میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

وائرولوجی کے سربراہ پروفیسر ایان براؤں کہتے ہیں: ‘ہم بہت پرجوش ہیں۔ تھوک کی جانچ کے سلسلے میں ہم نے بہت سے تکنیکی چیلنجز پر قابو پایا ہے اور گذشتہ چند ہفتوں میں ہمیں کچھ اہم پیشرفت بھی حاصل ہوئی ہے۔’

اس مرحلے میں آ کر چیزیں دلچسپ ہو جاتی ہیں۔ اگر پائلٹ آزمائش کامیاب رہتی ہے تو ڈھائی لاکھ کی آبادی پر مشتمل پورے ساؤتھیمپٹن شہر کو ہفتہ وار تھوک کے ٹیسٹ کی خدمات پیش کی جا سکتی ہیں۔

پروفیسر گاڈفرے کہتے ہیں: ‘اگر ہم معاشرے اور معیشت کو دوبارہ کھولنے کے خواہاں ہیں تو یہ معاشروں میں وائرس کی موجودگی کی نگرانی کرنے اور لاک ڈاؤن کی ضرورت سے قبل پھیلنے والی بیماریوں کا جلد پتا چلانے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔’

برطانیہ کا نقشہ

Emma Russell

بعض چاہیں گے کہ چیزیں اور بھی آگے جائیں۔ سائنس دانوں کے ایک گروپ کی سربراہی کرنے والے لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے پروفیسر جولین پیٹو کی تجویز ہے کہ برطانیہ کی پوری آبادی کو کورونا وائرس کے لیے ہفتہ وار تھوک ٹیسٹ کی خدمات پیش کیے جانی چاہیں۔

ان کا استدلال ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر نگرانی برتی گئی تو کووڈ۔19 کی وبا کا ‘خاتمہ ہو سکتا ہے اور معمول کی زندگی بحال ہوسکتی ہے۔’ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ لیبارٹری میں ٹیسٹ بڑے پیمانے پر ہونے لگیں گے۔ فی الحال حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن میں تین لاکھ ٹیسٹ کروا سکتی ہے لیکن اس میں روزانہ ایک کروڑ تک جانچ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی۔

یہ اس طرح سے کام کرے گا: آپ اپنا تھوک ٹیسٹ ٹیوب میں ڈالیں اور بھیج دیں۔ 24 گھنٹے کے اندر آپ کو اس کا نتیجہ ایک ٹیسٹ میسج کے ذریعے مل جائے گا۔ اگر یہ مثبت ہے تو آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو خود سے الگ تھلگ ہونا پڑے گا۔ لوگوں کو داخلے کی اجازت دینے سے پہلے ریستوراں اور دیگر عوامی مقامات حالیہ منفی جانچ کے شواہد طلب کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ متاثرہ افراد کی جلد شناخت سے یہ وبا تیزی سے رک جائے گی۔

ٹیکسٹ میسیج

یہ یقینا مہنگا ہوگا۔ تقریبا ایک ارب پاؤنڈ ہر ماہ کا خرچ آ سکتا ہے۔ لیکن کورونا وائرس سے معیشت پر جو نقصانات ہو رہے ہیں اس کا یہ عشر عشیر ہوگا۔ بجٹ ریسپانسیبلیٹی کے دفتر (او بی آر) کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال اس بحران سے 300 ارب پاؤنڈ یا اس سے زیادہ کا نقصان ہوگا۔

لیکن اس کی تعمیل ایک مسئلہ ہو گی۔ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو ہر ہفتے ایک ٹیوب میں تھوکنے کے لیے تیار ہوں گے؟ یہ غیر ضروری لگے گا۔ لیکن اگر اس کے بدلے میں تمامہ سماجی دوریاں ختم ہوتی ہیں تو کیا آپ اس موقعے کو دونوں ہاتھوں سے نہیں پکڑیں گے؟

اگر اس نے کام کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ماسک اور دکانوں میں یکطرفہ نظام کا خاتمہ ہو جائے گا، لاکھوں بزرگ اور کمزور لوگوں کے لیے تنہائی کا خاتمہ ہوگا۔ آپ اپنے دوستوں اور دادا دادی کو دوبارہ گلے لگا سکتے ہیں۔

اس سے کچھ کم حوصلہ مندانہ لیکن مرکوز طریقے کا زیادہ اثر پڑ سکتا ہے۔ سکول ہفتہ وار بنیادوں پر طلبہ اور عملے کی جانچ کر سکتے ہیں۔ دیکھ بھال کرنے والے مراکز یا ہاٹ سپاٹ والے مقامات پر بھی تھوک کے باقاعدگی سے ٹیسٹ کروائے جا سکتے ہیں۔ ہوائی اڈوں پر لیب قائم کی جاسکتی ہیں تاکہ آنے جانے والے مسافروں کی انتظار کے دوران جانچ کی جا سکے۔

ساؤتھیمپٹن میں جاری ٹرائل پر بہت کچھ منحصر ہے۔ ایک بات جو چیزوں کو پیچیدہ بنا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ شہر میں کورونا وائرس کے واقعات میں کمی آرہی ہے۔ جینی لیس اور اس کے اہل خانہ نے اب تک دو بار ٹیسٹ دیا ہے جو منفی رہا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اسی قسم کا نتیجہ زیادہ تر اس پروجیکٹ میں شرکت کرنے والوں کے ساتھ ہوگا۔

مطالعہ اسی وقت کام کرے گا جب مثبت اور منفی دونوں قسم کی رپورٹس آئيں۔

لیکن جینی کے بچے ان لوگوں میں شامل ہیں جنھیں یہ امید ہے کہ اس طرح کی رکاوٹوں کو بڑے پیمانے پر تھوک کی جانچ سے دور کیا جا سکتا ہے۔

19 سالہ سیم کہتے ہیں: ‘یہ بہت اچھا ہوگا، ہم وبائی مرض کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ اس سے لوگوں کی زندگی بدل جائے گی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp