بیٹے کا ماں پر تشدد اور صحافی کی گمشدگی


چار دن پہلے دو ویڈیو سوشل میڈیا کے جنگل میں آگ کی طرح پھیلیں۔
ایک ویڈیو سی سی ٹی وی کیمرے کی ہے جس میں کچھ مسلح و غیر مسلح اور باوردی و بے وردی اہل کار اسلام آباد کے ایک اسکول کے باہر سے صحافی مطیع اللہ جان کو غیر قانونی حراست میں لے رہے ہیں۔ دوسری ویڈیو میں راولپنڈی کا ایک رہائشی اپنی ضعیف العمر والدہ کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے۔

اس بات پر پوری قوم کا اتفاق ہے کہ ماں پر تشدد کرنے والا بیٹا غلطی پر ہے۔ اس بات پر البتہ اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ ایک صحافی کا ماورائے عدالت یوں اٹھا لے جانے والے بھی غلطی پر ہیں۔ ایک گروہ نے اس واقعے کی خبر آتے ہی کہہ دیا تھا کہ مطیع اللہ جان از خود روپوشی اختیار کرچکا ہے۔ جب ویڈیو منظر عام پر آئی تو اول گہرے سکھ کا سانس لیا کہ چلو شکر ہے پولیس ملوث ہے۔ پھر کہا گیا کہ اسکول بند ہونے کے باوجود مطیع اللہ جان کی بیوی اسکول کیا کرنے گئی تھی۔ ایسی تاویل پیش کرنے والوں کو اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑ رہا کہ پولیس حکام ابھی تک اس بات کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں کہ سی ٹی ڈی کی وردی میں آنے والے اہل کار آخر کون تھے۔

سوال یہ ہے کہ ماں پر ہونے والے تشدد پر سبھی لوگ حیران و سرگرداں کیوں ہیں۔ اگر ماں نے بیٹے یا بیٹی پر تشدد کیا ہوتا تو کیا تب بھی حیرت کا یہی عالم ہوتا؟ یعنی شوہر نے بیوی پر، باپ نے بیٹے پر، ساس نے بہو پر، استاد نے شاگرد پر پیر نے مرید پر تشدد کیا ہوتا تو کیا اس میں حیرت کی کوئی بات ہوتی؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ حیرت کی بات تو تب ہوتی جب ہم بیوی کو شوہر پر، اولاد کو والدین پر اور شاگردوں کو اساتذہ پر تشدد کرتے ہوئے دیکھتے۔

مگر ایسا کیوں ہے؟

اس کے پیچھے ہمارا ایک نفسیاتی، تربیتی اور اخلاقی المیہ موجود ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اصولی طور پر تشدد کو غلط نہیں سمجھتے۔ کبھی کسی پرتشدد واقعے پر ہم افسوس کا اظہار کریں تو کم ہی ایسا ہوتا ہے اس واقعے میں تشدد پر ہی ہمیں افسوس ہو رہا ہو۔ افسوس ہمیں اس بات پر ہو رہا ہوتا ہے کہ تشدد ایسے شخص نے کر دیا ہے جس کی تشدد والی اوقات نہیں تھی۔ ہم تشدد کو غلط نہیں سمجھتے، ہم در اصل کسی بھی ایسے منصب کو چیلنج کرنے کو غلط سمجھتے ہیں جس پر تقدس کا غلاف لپٹا ہوا ہوتا ہے۔

اس ماں بیٹے والے معاملے کو ہی لے لیجیے کہ سارے لوگ آسانی سے اس کے غلط ہونے پر کیسے متفق ہو گئے۔ ہمارا اتفاق مشکل ہوجاتا اگر یہاں انسان نے کسی انسان پر تشدد کیا ہوتا۔ ہمارا اتفاق اس لیے قائم ہو گیا کہ یہاں ایک انسان نے ”ماں“ پر تشدد کیا ہے۔ یہاں ہم ایک انسان کے لیے نہیں، ایک مقام و مرتبے کے لیے فکرمند ہیں۔ اس کہانی میں تھوڑی دیر کے لیے ماں کی جگہ بیوی کو رکھ کر دیکھیں۔ اور پھر ایسی بیوی کو رکھ کر دیکھیں جس کی بود و باش اور طرز زندگی کی وجہ سے لوگ اسے اوباش اور بدچلن کہتے ہوں۔

لاہور میں چند برس قبل ایک خاتون اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنی۔ مرکزی ملزم کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے نکلا۔ اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر قانون ایک سوال کے جواب میں کہا، اس کیس کو رہنے دیں ہم نے معلومات کی ہیں وہ ایک پیشہ ور خاتون ہے۔ یہ وزیر قانون نہیں بول رہا ہمارا اجتماعی شعور بول رہا ہے۔ وہ شعور جو سمجھتا ہے کہ ایک ”بدچلن عورت“ کا کوئی ذاتی دائرہ نہیں ہوتا۔ جو چاہے جب چاہے اس کی دیوار کو پھلانگ سکتا ہے۔ اب بدچلن کیا ہوتا ہے اور کون ہوتا ہے، ظاہر ہے یہ ہم اپنی اپنی عقل اور ترجیحات کے مطابق طے کریں گے۔ جو ہمارے لیے بدچلن ہوگی اسے ہم انسانیت کے دائرے سے چالیس قدم باہر کردیں گے۔

ہم انسان کو کسی تفریق کے بغیر احترام دینا نہیں چاہتے۔ انسانی حق اور احترام کے لیے یہاں ضروری ہو گیا ہے کہ پہلے آپ کوئی ایسا رتبہ حاصل کریں جو کچھ چیزوں پر آپ کا اجارہ قائم کرسکے اور کچھ چیزوں سے آپ کو استثنا دے سکے۔ اگر آپ کو تشدد کا سامنا ہے، آپ کی ذاتی زندگی میں مداخلت جاری ہے اور آپ ہمہ وقت کٹہرے میں ہیں تو سمجھ جائیں کہ آپ ”لائسنس ٹو کل“ والے مرتبے سے ابھی محروم ہیں۔

تعلقات میں جائز یا ناجائز کیا ہوتا ہے یہ الگ سے ایک پوری بحث ہے۔ لیکن تعلقات میں اگر کچھ جائز ناجائز ہوتا ہے تو اس بارے میں بازپرس کرنے کا حق کس کو حاصل ہے؟ بھائی اپنی بہن سے، شوہر اپنی بیوی سے ناجائز تعلقات کے حوالے سے تو ہر طرح کا سوال کر سکتا ہے۔ لیکن کیا ویسے ہی ناجائز تعلق کے متعلق بہن اپنے بھائی سے یا بیوی اپنے شوہر سے سوال کر سکتی ہے؟

اگر ہمارے ہاں لوگ تشدد کو غلط سمجھ کر تشدد کرتے تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں تھی۔ مشکل مگر یہ ہے کہ یہاں تشدد کو باقاعدہ احترام کا درجہ حاصل ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند برس قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے گھریلو تشدد کے حوالے سے ایک فرمان عالی شان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ شوہر اپنی بیوی پر ہلکا پھلکا تشدد کر سکتا ہے۔ اس پر سول سوسائٹی نے تھوڑی سی گرمی کھائی تو کہا گیا ہلکے پھلکے تشدد کی ہی تو بات کی ہے اتنا اتاولا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے اس موقف کے دفاع میں کیسے کیسے لوگ سینہ ٹھوک کے سامنے نہیں آئے۔ چند آوازیں رات دن بول کر بھی انہیں یہ نہ سمجھا سکیں کہ مسئلہ تشدد کی مقدار کا نہیں ہے۔ مسئلہ تسلط، جبر، مداخلت اور استحصال کا ہے۔ تھپڑ ہلکا ہو یا بھاری ہو اول و آخر وہ جبر کی علامت ہے۔ تشدد کا یہ اختیار دو میں سے کسی ایک کو دینے کے دو ہی مطلب ہیں۔ ایک، تشدد اپنے جذبات کا ایک مناسب اظہار ہے۔ دوسرا، جس فریق کو تشدد کا اختیار دیا جا رہا ہے وہ برابر کے انسانی درجوں سے بھی دو منزل اوپر کا انسان ہے۔

اگر تشدد واقعی اپنے جذبات کا ایک بہترین اور ضروری اظہار ہے تو پھر سوچنا ہوگا کہ کیا جذبات صرف شوہر اور والدین کے ہوتے ہیں؟ اگر جذبات کا تعلق انسان کے ساتھ ہے تو پھر ہمیں اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ تشدد کا یہی حق بیوی، بیٹی، بہن، اولاد اور ماتحت کو برابر کے درجے میں حاصل ہے۔

کراچی میں ملیر کے ایک علاقے میں سپارہ پڑھانے والے ایک استاد نے بچے پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ چل بسا۔ پولیس نے جب استاد کو گرفتار کیا تو اس کے چہرے پر ندامت کی جگہ حیرت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ حیرت اس بات پر تھی کہ مجھے گرفتار کیوں گیا؟ یعنی اب ایک استاد اپنے شاگرد پر تشدد کرنے کی وجہ سے پکڑا جائے گا؟ کیا ہمارے آبا و اجداد نے اتنی قربانیوں کے بعد یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم شاگردوں پر تشدد بھی نہیں کرسکیں گے؟ اگر استاد تشدد ہی نہیں کر سکتا تو پھر وہ استاد کس بات کا ہے؟

ایک صحافی نے جیل میں جاکر قاری صاحب سے اور پھر بچے کے لواحقین سے کچھ سوال جواب کیے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ قاری صاحب نے کہا، مجھے بچے کے والد نے خود مارپیٹ کی اجازت دے رکھی تھی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ والد نے بھی پورے فخر سے اعتراف کیا کہ جی میں نے اجازت دے رکھی تھی۔ اس بیچ بچے کی ذات کہاں گئی، یہ ہمارے اجتماعی شعور سے باہر کا سوال ہے۔

سامنے کی سچائی یہ ہے کہ والدین شعوری اور غیر شعوری طور پر تشدد کو اپنا اور استاد کا جائز حق سمجھتے ہیں۔ اس بات پر وہ دل سے یقین رکھتے ہیں کہ بچے کی تربیت میں تشدد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ خیال بھی عام ہے کہ اطاعت گزاری اور فرمان برداری کا ڈنڈے سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ویسے تو نجی تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر تمام تعلیمی اداروں میں تشدد استاد کا حق مانا جاتا ہے، مگر دینی اداروں میں تو اسے استاد کی اہلیتوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔

یہ بات باقاعدہ تعلیم کی جاتی ہے کہ استاد کا ڈنڈا یا تھپڑ جسم کے جس حصے پر پڑ جائے وہ حصہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہتا ہے۔ اپنے استاد کی شکایت کرنے والا طالب علم زندگی بھر ناکام و نامراد رہتا ہے۔

جنوبی پنجاب کا ایک مفلوک الحال لڑکا سپارے کی کلاس میں ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ استاد کا شاگرد ہی نہیں تھا سگا بھائی بھی تھا۔ باقیوں کو چار ڈنڈے پڑتے تو اسے آٹھ پڑتے تھے۔ چار شاگردی کی مد میں اور چار بھائی ہونے کی حیثیت میں۔ چھٹی کے بعد باقی بچے کھیل کود میں لگے ہوتے تو وہ ایک طرف بیٹھ کر اپنے زخم گن رہا ہوتا تھا۔ مار کھانے کے بعد ایک دن وہ دکھ میں کہیں بیٹھا نظر آیا تو ایک شوخ مزاج لڑکے نے ڈھارس بندھانے کے لیے اسے کہا، پاگل تجھے تو اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ جہنم کی آگ تیرے جسم کے ایک بھی حصے کو نہیں چھوئے گی۔ وہ آگے سے بولا، مطلب جانا میں نے جہنم میں ہی ہے؟

خیر، سیالکوٹ میں ججا بٹ نامی ایک شخص گرفتار ہوا جس نے ایک ٹرانس جینڈر پر وحشیانہ تشدد کیا تھا۔ ایک صحافی نے جب اس سے وجہ پوچھی تو فوراً کہا، وہ تو میری دوست ہے۔ تشدد کی اس پوری کہانی میں ”وہ تو میری دوست ہے“ محض ایک جملہ نہیں ہے۔ یہ تشدد اور جبر کے حوالے سے ہمارے اجتماعی شعور کا خلاصہ ہے۔ اس جملے کو اگر پورا کیا جائے تو بات کچھ یوں بنتی ہے، وہ تو میری دوست ہے تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے؟

یہ جملہ ہمارے شعور اور لاشعور میں عنوان بدل بدل کر کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ وہ تو میری دوست ہے، وہ تو میری بیوی ہے، وہ تو میری بہن ہے، وہ تو میرا شاگرد ہے، وہ تو میرا ملازم ہے، وہ تو میرا مزارع ہے وغیرہ۔

تقدس میں لپٹی ہوئی جبر کی اس پوری صورت حال کی انتہائی شکل غیرت کے نام پر قتل ہے۔ اس کی کم سے کم شکل بھی اظہار رائے پر پابندی ہے۔ بہن اپنے بھائی سے، اولاد اپنے والدین سے، شاگرد اپنے اساتذہ سے، ملازم اپنے مالکان سے کوئی سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے۔

والدین اور اولاد کی طرح ایک رشتہ ریاست اور شہری کا بھی ہے۔ ریاست کو بھی یہاں تقدس کا کچھ ایسا ہی مرتبہ حاصل ہے جو ہمارے والدین کو حاصل ہے۔ تعلیم، رشتے اور مستقبل کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کر دیا جائے اولاد کے پاس تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ فیصلے میں کسی سقم کی طرف اشارہ کر دیا جائے تو اولاد نافرمان ہے۔ کسی معاملے میں غلطی کی نشاندہی کردی جائے تو اولاد باغی ہے۔ اولاد نے سوال اٹھا دیا تو والدین کو مکمل حق ہے کہ وہ ہاتھ اٹھا دے۔

کوئی باپ کے سامنے سوال اٹھا دے تو اس کے غلط ہونے پر اتفاق قائم ہو جائے گا۔ مگر والدین ہاتھ اٹھائیں گے تو دوچار قسم کی آرا سامنے آ جائیں گیں۔ سب سے معقول رائے یہی ہوگی کہ اولاد سوال نہیں اٹھا سکتی۔ صرف مصرعے اٹھا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments