میری پیاری



میری پیاری! مورخہ 20 فروری 2020

آج کا دن کتنا بوجھل اور شام کتنی اداس ہے میں کتنی دیر تمہاری کھڑکی کے نیچے کھڑا رہا لیکن آج نہ یہ کھڑکی کھلی اور نہ ہی تمہارا کھلا چہرہ نظر آیا۔

آہ! میری پیاری تمہاری کھڑکی کے نیچے تازہ گلاب کی پتیاں بکھری پڑی تھیں۔ کاش ان پھولوں کی جگہ میری قبر ہوتی۔ کاش میں تمہیں کسی اور کا ہوتے نہ دیکھتا لیکن افسوس یہ دن بھی آ گیا۔ میں اپنی ندامت اور شرمساری کو لے کر کہاں جاؤں؟ اس لیے میں نے اپنی اس خجالت بھری زندگی کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اگر تمہیں میرے اس فیصلے کا علم ہوتا تو تم کبھی بھی مجھے ایسا نہیں کرنے دیتی لیکن میرا یہ خط تمہیں میرے مرنے کے بعد ملے گا یا شاید کبھی بھی نہ ملے اور میرے ساتھ ہی مٹی میں مل جائے لیکن میں پھر بھی اس خط میں اپنی بھڑاس نکالنا چاہتا ہوں، میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں کتنا ناکام، بزدل اور نکما عاشق تھا، تمہارے لاکھ سمجھانے، ہمت دلانے اور منت سماجت پر بھی میں اپنے اندر وہ حوصلہ نہ لاسکا جو تمہیں میرا بنا سکتا اور بالاخر تم مجھے چھوڑ کر کسی اور کا دل او رگھر آباد کرنے چلی گئی۔ تمہارا کسی اور کا ہو جانے سے میرا دم گھوٹتا ہے۔ تمہارے بنا میری زندگی کا کوئی مصرف بھی نہیں اسی لیے میں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔

خدا حافظ
میری پیاری! مورخہ 22 فروری 2020

تم ضرور یہ سوچتی ہو گی کہ میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر چکا اور تمہیں اپنا آخری خط تحریر کرچکا لیکن بس جب تک زندہ ہوں تمہاری یاد کو بھلانا نہیں چاہتا اس لیے میں پھر سے تمہیں اپنا آخری خط تحریر کر رہا ہوں۔

میری پیاری مجھے وہ دن یاد ہیں جب ڈوبتی شام کا سورج تمہاری آنکھوں میں سونا بن کر چمکتا تھا۔ تمہارے لہجے میں جنگلی پھولوں کا سا بانکپن تھا اور میں اس لمحے خود کو کتنا خوش نصیب سمجھتا تھا کہ تم اپنی تمام تر شدتوں سے صرف مجھے چاہتی ہو اور ساری عمر کے لیے میرا ساتھ ہی تمہاری سب سے بڑی خواہش ہے لیکن افسوس میں زمانے اور اپنے گھر والوں کے خوف کی وجہ سے تمہیں اپنانے کی ہمت کبھی جتا ہی نہ پایا، مجھے وہ سارے فرق جو مذہب اور رواجوں نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر رکھے تھے پہاڑ لگتے تھے اور میں انہیں کبھی سر کر ہی نہ پایا۔ مجھے یاد ہے آخری دنوں میں تم نے مجھ سے اس بارے میں بات کرنا چھوڑ دیا تھا، تم مجھ سے مکمل طور پر مایوس ہوچکی تھی، تمہاری ان سنہری آنکھوں میں بس شکوہ ہی شکوہ ہوتا تھا۔

بس آج میں تمہاری سار ی شکایتوں کا جواب اپنی زندگی کا خاتمہ کر کے دے رہا ہوں میں شاید اسی قابل تھا۔
تم ضرور سوچتی ہوگی کہ میں نے پہلے خط میں بھی اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
میری پیاری!

دراصل گھر میں بہت سے ایسے کام تھے جو مجھے انجام دینے تھے تم تو جانتی ہو میری کتنی ذمہ داریاں ہیں، لیکن خیر یہ ذمہ داریاں تو زندگی کے ساتھ چلتی ہیں اور میری زندگی تو بس تم سے تھی، جو تم نہیں تو اس زندگی کے بھی کیا معنی بس اب اجازت دو اور مجھے معاف کر دینا۔

خدا حافظ
میری پیاری! مورخہ یکم مارچ

کاش آج تم میرے ساتھ ہوتی یا کم از کم یہ احساس ہی ہوتا کہ تم صرف میری ہو اور میرے بارے میں سوچ رہی ہو میری زندگی کے کتنے مسئلے تم اپنی باتوں سے سلجھا دیا کرتی تھی۔ میں اپنی ساری باتیں صرف اور صرف تم سے کیا کرتا تھا۔ میں نے نہ جانے یہ کیسے سوچ لیا تھا کہ ساری زندگی ایسے ہی چلتا رہے گا۔ میں تمہارا اور تم میری ہی رہو گی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ تم تو بالکل ویسے ہی ہو جیسا میں چاہتا تھا لیکن میں ویسا بالکل نہیں تھا جیسا کہ تم چاہتی تھی میں تمہاری کسی ایک بھی امید پر پورا نہیں اترا، میں تمہاری جائز خواہش کو آج کل پر ٹالتا رہا۔

تمہاری آنکھوں سے سارے خواب چھین کر ان میں اداسی بھردی۔ میں واقعی تمہارا گناہ گار ہوں میں تمہارا اور تمہارے ارمانوں کا قاتل ہوں، تم نے تو مجھے کوئی سزا نہیں دی لیکن میں خود اپنے لیے موت کی سزا تجویز کرتا ہوں۔ جیسا کہ میں اپنے پہلے خطوط میں واضح کر چکا ہوں، میں خود کشی کی پوری تیاری کرچکا تھا۔ کڑیوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کر چکا تھا کہ وہ میرے مردہ وزن کو سہار بھی لیں گے کہ نہیں۔ ایک اچھی اور موٹی رسی بھی خرید لایا تھا لیکن ہو ا یوں کہ جب میں تمہیں اپنا آخری خط تحریر کرنے کے بعدپانی پینے کے لیے تھوڑی دیر باہر گیا (مرنے سے پہلے پانی پی لینا چاہیے ایسا میں نے سنا ہے اور پھر قربانی کے جانوروں کو بھی قربانی سے پہلے پانی پلاتے دیکھا ہے ) اور جب واپس لوٹا تو دیکھا کہ ابا میری میز پر سے وہ موٹی رسی (وہی جس پر مجھے جھول جانا تھا) اٹھائے باہر نکل رہے ہیں۔ مجھے دیکھا تو کہنے لگے کہ میاں! مجھے کب سے اس رسی کی ضرورت تھی چلو اچھا ہوا تمہارے پاس سے مل گئی تمہارے کسی کام کی تو نہیں؟

اب میں انہیں کیا یہ کہتا کہ ہاں ابا یہ رسی تو میں اپنے مرنے کے لیے پنکھے کے کنڈے میں ڈال کر لٹکنے کے لیے لا یا ہوں میرے تو یہ بڑے ہی کام کی ہے۔

بجائے اس کے میں نے سعادت مندی سے جواب دیا کہ نہیں ابا بالکل نہیں میرے بھلا کس کام کی۔ آپ کو ضرورت ہے تو آپ رکھ لیں۔ اب تم خود سوچو کہ میں کم از کم اپنے ابا کی نافرمانی کر کے نہیں مرنا چاہتا۔

ابا تو خوش خوش رسی لے کر چلے گئے میرے مرنے کے لیے پھر ایک بڑا مسئلہ چھوڑ گئے خیر اب میں کیمسٹ کی دکان سے نیند کی گولیاں خرید لا یا ہوں میں نے اس سے کہا کہ اماں کو جوڑوں کے درد کی وجہ سے نیند نہیں آتی اسی لیے ڈاکٹر نے ذرا تیز اثر والی نیند کی گولیوں کا کہا ہے میں احتیاطاً پندرہ بیس گولیاں کھالوں گا تاکہ دوسری صبح دیکھنے کا موقع ہی نہ ملے اچھا اب اجازت دو۔ اسے میری آخری تحریر سمجھنا اور میری تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کر دینا۔

خدا حافظ
میری پیاری! مورخہ 8 مارچ
آج میں تمہیں اپنا آخری خط تحریر کر رہا ہوں دراصل۔ ۔ ۔ ۔

سیدہ نسرین اعجاز
Latest posts by سیدہ نسرین اعجاز (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments