لڑکا اور لڑکی: ہمارے معاشرے کے دہرے معیارات


آج مجھے معلوم ہوا کہ ہم اور ہمارا معاشرہ کتنے دوہرے معیار کے مالک ہیں جس کی ایک مثال تو میں اپنے حوالے سے دے سکتی ہوں کہ میں میٹرک کے بعد انٹر میں بائیولوجی کی جگہ ریاضی کا مضمون رکھنا چاہتی تھی لیکن حالات کے پیش نظر مجھے انٹر کے امتحانات بائیولوجی کے ساتھ دینے پڑے اور اس میں کوئی شک نہیں کے اپنی محنت کے بل پر ناچاہتے ہوئے بھی بہت اچھا رزلٹ دیا اور اب سبکی امیدیں تھیں کہ میں ڈاکٹر بن جاؤں لیکن شاید وہ میرے نصیب میں نہیں تھا۔

۔ ۔ اور اس لیے میں اپنے گھر والوں کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکی۔ ۔ ۔ اب ان کا کہنا ہے کہ تم قابل تھی کر سکتی تھی اور شاید اس کا آج تک افسوس کرتے ہیں لیکن مجھے تو شاید فرق ہی نہیں پڑا کہ ظاہر ہے نہ تو یہ میرا خواب تھا نہ خواہش۔ ۔ ۔ ہاں بس ایک لمحہ کو اپنے گھر والوں کی امیدیں پر پورا نہ اترنے کا افسوس ضرور ہوا تھا لیکن فقط ایک لمحہ کو۔ ۔ ۔ سب کا کہنا تھا اگر تم کر لیتی تو زندگی سنور جاتی مستقبل بن جاتا لیکن خیر۔

۔ ۔ اور پھر ایک دن ایک دور پار کے رشتہ دار ہمارے گھر آئے اور کہنے لگے تم ڈاکٹر بن سکتی تھی، بن جاتی، یہ ہوجاتا، وہ کرلیتی۔ ۔ ۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ آخر ان کو میرے ڈاکٹر نہ بننے کا ایسا کون سا افسوس ہے جو وہ اتنے غم میں ہیں اور وہ افسوس بھی ان کو 3 سال بعد یاد آیا حیرت ہے۔ ۔ ۔ پھر پتا چلا کہ وہ تو میرے ذریعے میری یونیورسٹی سے اپنی بیٹی کا کام کروانا چاہتے تھے اور اس کی ہدایت دے کر وہ رخصت ہوگئے میرا دل کیا تھا ان سے پوچھ لوں کہ جناب اگر میں ڈاکٹر بن جاتی تو آپ کا کام کون کرتا اب؟

اور پھر دل چاہا ہر اس انسان کو جس کو میرے ڈاکٹر نہ بننے کا افسوس ہے، سب سے پوچھوں کہ بھئی اگر میں اتنی قابل تھی کہ۔ ڈاکٹر بن سکوں تو انجینیر بھی بن ہی سکتی تھی اور میتھ تو انگلیوں پہ آتی تھی اور کیمیکلز سے کھیلنا میرا خواب تھا کبھی لیکن پھر ہمارے وہی دہرے معیار کہ نہ میں پوچھ سکی اور اگر پوچھتی تو مجھے لڑکا لڑکی کہ الگ معیارات بتائے اور گنوائے جاتے۔ ۔ ۔ اور پھر کسی نہ بھی نہ سوچا کہ ان کو میرے ڈاکٹر نہ بننے کا افسوس ہے لیکن مجھے میرے انجینیر نہ بننے کا افسوس رتی بھر نہیں۔ ۔ ۔

ہمارے دوہرے معیار تو انتہا پر ہیں کہ ہم اپنی ماں کو سودا سلف لانے بھیج سکتے ہیں لیکن اپنی جوان بہن کو باہر جاتا دیکھ ہماری غیرت کا سمندر ٹھاٹھیں مار کر باہر کو آتا ہے۔ ۔ ۔ ہم۔ اپنی بہو کے طور پر تو کوئی پڑھی لکھی لڑکی ڈھونڈتے ہیں پر بیٹی کو پڑھانا ہمیں گوارا نہیں۔ ۔ ۔ ہم جہیز تو ٹرک بھر کر لیتے ہیں پر نوکری کرتی لڑکی تب تک قبول نہیں جب تک اپنی ملازمت نہ چھوڑ دے۔ ۔ ۔ ہم دفاتر میں ٹاپ جینز پہنتی سیکرٹری تعینات کر سکتے ہیں لیکن ہمیں گھر میں بیوی، بیٹی سات پردوں میں چاہیے۔

۔ ۔ ہم وہ لوگ ہیں جو باپ اور بھائی کو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو محافظ تو بنا دیتے ہیں لیکن ان کو خود اپنی حفاظت کرنا نہیں سکھاتے۔ ۔ ۔ ہم وہ لوگ ہیں جو لڑکی کے خوابوں پر یہ کہ کر پابندی ضرور لگا دیتے ہیں کہ ہم چھوٹے شہروں کے لوگ ہیں اور یہاں کی لڑکیاں سپنے نہیں بنتی۔ ۔ ۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ساری عمر اپنی بیویوں کو اپنی کمائی کھلانے کے طعنے تو دینا جانتے ہیں لیکن اگر وہ یہ جتا دے کہ اگر کما کر تم لائے ہو تو پکا کر تو میں نے بھی کھلایا ہے لیکن وہ برداشت نہیں ہم سے۔

۔ ۔ ہم وہ لوگ ہیں جو بیٹیوں کے نصیب کے دعا کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ساتھ بیٹھی تمہاری بیوی جو تمہارے ساتھ تمہاری دعا پر آمین کہ رہی ہے اس کے والدین نے بھی کبھی اس کے اچھے نصیب کی دعا کی ہی ہوگی اور آج اس کے نصیب ۔ ۔ ۔ ۔ ہم وہ لوگ ہیں جن کو اپنے بیٹے کے لئے لڑکی تو چاہیے لیکن وہ لڑکی اگر اولاد کے روپ میں ایک رحمت دے تو وہ گوارا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم وہ ہیں جو غیرت کے نام پر صرف بیٹیوں کو بھینٹ چڑھاتے ہیں آج تک کوئی لڑکا کبھی غیرت کی بھینٹ نہیں چڑھا۔ ۔ ۔ ہم وہ ہیں جو عورت کو اسلامی حدود کے مطابق چلنے کا کہتے ہیں لیکن مرد اپنی حدود تو فراموش کردیتا یے اور ایسا لگتا ہے کہ اسلام صرف عورت کے لئے نافذ ہوا۔ ۔ ۔

یہ سب دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ دورجاہلیت کے لوگ اچھے تھے، پیدا ہوتے ہی بیٹی کو مار دیتے تھے آج کے لوگوں کی طرح اس کو اس کی پوری عمر ذلیل نہیں کرتے تھے۔ ۔ ۔ وہ لوگ اچھے تھے جو کھلم کھلا بیٹی کی پیدائش کو برا کہتے تھے آج کے لوگوں کی طرح ایک طرف اپنی وسیع نظر کا دعوہ کرتے ہوئے دوسری طرف اس کے خوابوں کو نہیں کچلتے تھے وہ منافقت روا نہیں رکھتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کافر تھے پھر بھی سچے تھے اور ہم مسلمان ہو کر بھی جھوٹے۔

۔ ۔ ہم اسلام پر عمل نہیں کرتے بلکہ ہم اسلام کو استعمال کرنا جانتے ہیں کہ کب اپنی بیوی بیٹیوں پر اسلام کے نام پر پابندیاں لگائیں۔ ۔ ۔ کیونکہ اسلام نے مرد کی حدود تو بنائی ہی نہیں اور اپنے مطلب کے لئے استعمال کرنا تو ہم خوب جانتے ہیں پھر چاہے وہ اسلام کیوں نہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ ریت تو صدیوں سے چلی آ رہی ہے کہ ابن آدم نے اپنے سارے جرم بنت حوا کے کھاتے میں ڈال رکھے ہیں۔ ۔ ۔

اور اگر ہم اسلام کو استعمال کرنے کی بجائے اس پر عمل کرنا جانتے تو مجھے شاید یہ سب کہنے، لکھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ۔ ۔ کہ ہمارا اسلام تو دوہرے معیار نہیں رکھتا۔ ۔ ۔ وہ تو بہت آسان سا ہے جو ہمیں عورت کی عزت اور عظمت بتاتا ہے اور سنت رسول نے اس کو ثابت کیا ہے لیکن وہی ہمارے دوہرے معیار کہ ہم نے تو شاید سکہ کا ایک پہلو دیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments