کورونا وائرس اگر چمگادڑوں میں رہتا ہے تو وہ بیمار کیوں نہیں ہوتیں؟


سائنسدانوں نے دنیا کی چھ چمگادڑوں کے جینیاتی بلیو پرنٹ کی تشریح کی ہے جس سے ان کی ’غیر معمولی قوت مدافعت‘ کے اشارے ملتے ہیں اور یہ نظام ہی انھیں مہلک وائرس سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

محققین کو ان معلومات کے ذریعے ان رازوں سے پردہ اٹھانے کی توقع ہے کہ چمگادڑ کیسے بیمار ہوئے بغیر کورونا وائرس رکھتی ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس سے موجودہ اور مستقبل کے وبائی امراض کے دوران انسانی صحت کی مدد کے لیے حل فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

یونیورسٹی کالج ڈبلن کی پروفیسر ایما تیلنگ کا کہنا ہے کہ ’شاندار‘ جنیاتی ترتیب سے پتا چلتا ہے کہ چمگادڑوں کا ’مدافعتی نظام بہت انوکھا‘ ہوتا ہے۔

اور یہ سمجھنا کہ کس طرح چمگادڑ بیمار ہوئے بغیر وائرس کو برداشت کر سکتی ہیں، کووڈ۔19 جیسے وائرس کا علاج دریافت کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا چمگادڑ کورونا وائرس پھیلاتے ہیں؟

کورونا:جانوروں سے انسانوں میں منتقلی کی کڑیاں شاید کبھی نہ ملیں

پروفیسر ایما تیلنگ نے بی بی سی کو بتایا ’اگر ہم وائرس سے چمگادڑوں کے مدافعتی ردعمل کی نقالی کر سکتے ہیں، جو انھیں برداشت کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے، تو آپ علاج تلاش کرنے کے لیے پھر قدرت کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔‘

’اب ہمارے پاس ایسے اسباب موجود ہیں جو ہمیں یہ سمجھنے کے قابل بناتے ہیں کہ ہمیں کن اقدامات کی ضرورت ہے، ہمیں ایسا کرنے کے لیے اب ادویات تیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘

پروفیسر تیلنگ ’بیٹ ون کے‘ پروجیکٹ کی شریک بانی ہیں جس کا مقصد چمگادڑوں کی تمام 1421 انواع کے جنیاتی مادے کی تشریح کرنا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ کووڈ۔19 چمگادڑوں سے پیدا ہوا، جو انسانوں میں کسی ایسے جانور سے منتقل ہوا جس کی نشاندہی ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سارس، مرس اور ایبولا سمیت متعدد دوسری بیماریاں بھی اسی طرح انسانوں میں منتقل ہوئی تھیں۔

ماہرین برائے ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ چمگادڑوں کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ ان کی قدرتی رہائش گاہ میں اگر انھیں تنگ نہ کیا جائے تو ان سے انسانی صحت کو بہت کم خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

اور وہ فطرت کے توازن کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان میں سے کئی پھلوں کے بیج پھیلاتی ہیں جبکہ کئی رات کے وقت لاکھوں ٹن حشرات کھا جاتی ہیں۔

مطالعہ کیا کہتا ہے؟

محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے چمگادڑوں کے جینیاتی مادے کو ترتیب دینے اور موجودہ جین کی نشاندہی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔

انھوں نے چمگادڑ کے بلیو پرنٹ یا نمونے کا موازنہ 42 دوسرے ممالیہ سے کر کے شجرِ حیات یعنی زندگی کے درخت پر چمگادڑوں کے مقام کا تعین کیا۔

چمگادڑ اس گروہ سے زیادہ وابستہ دکھائی دیتے ہیں جس میں گوشت خور ممالیہ (کتے، بلیاں اور دوسری انواع) اور کھروں والے جانور جیسے پینگولین اور وہیل شامل ہیں۔

جینیاتی سراغ رسانی کے اس کام نے ایسے جین کا انکشاف کیا جو بازگشت میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں، جسے چمگادڑ مکمل اندھیرے میں شکار اور تلاش کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

یہ معلومات ہمیں مستقبل کے وبائی امراض سے لڑنے میں کیسے مدد دے سکتی ہے؟

بڑی تعداد میں جینیاتی تبدیلیوں کا انکشاف، جو چمگادڑوں کو وائرس سے تحفظ فراہم کرتا ہے، اس سے انسانی صحت اور بیماری کے لیے بھی اشارے ملتے ہیں۔

محققین کا خیال ہے کہ چمگادڑ کے جینیاتی مادے کا علم اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد کر سکتا ہے کہ اڑنے والے ممالیے کورونا وائرس کو کیسے برداشت کرتے ہیں، جس سے شاید مستقبل کے وبائی امراض سے لڑنے میں مدد مل سکے۔

جرمنی میں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ آف مالیکیولر سیل بائیولوجی کے ڈاکٹر مائیکل ہلر کہتے ہیں ’یہ تبدیلیاں چمگادڑوں کی ’غیر معمولی قوت مدافعت‘ میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں اور ان میں کورونا وائرس کو برداشت کرنے کی نشاندہی کرتی ہیں۔‘

بہت سے وائرل انفیکشنز میں وائرس خود موت کا باعث نہیں بنتا بلکہ جسمانی قوت مدافعت کے نظام کی وجہ سے شدید سوزش آمیز ردعمل سامنے آتا ہے۔

چمگادڑیں اس پر قابو پا سکتی ہیں۔ لہذا جب انھیں انفکیشن ہوتا ہے تو وہ بیماری کی علامات ظاہر نہیں کرتی ہیں۔

یہ تحقیق ’نیچر‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp