قلعہ سنگھنی، گوجر خان


اٹھارہ جولائی کی واردات ہے۔ ہمارے ایک جونئیر دوست محمد رضوان جو شعبہ تاریخ کے طالب علم ہیں اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں پڑھتے ہیں۔ چکوال کے ایک بڑے مشہور قصبے ملہال مغلاں کے باسی ہیں۔ عرصہ دراز سے بضد تھے کہ حضور ہمارے ساتھ بھی وقت بتاؤ۔ سوچا چکوال میں رہتے ہوئے کسی گلی محلے میں وقت بتانے کی بجائے کسی کونے کھدرے کی دریافت نو کر لینی چاہیے۔ ایڈونچر کا ایڈونچر اور ملاقات کی ملاقات۔ میں نے کہا میاں رضوان گوجر خان میں کوئی قلعہ ہے۔ گو کہ ضلع دوسرا بن جاتا ہے مگر خطہ تو پوٹھوہار ہی کا ہے نا۔

اگلے روز فیس بک پہ پاک انڈیا ہیریٹیج کلب میں اس کی بڑی شاندار عمارت نظر سے گزری ہے۔ ممکن ہو تو ادھر کو چلیے۔ حیرت کی بات ہے، گو سلام و کلام تو تھا مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ موصوف تاریخ کے طالب علم ہیں۔ اب ایسی دریافتیں اور کھوج لگانا عام انسان کے دلچسپی کے امور نہیں۔ اس مقصد کے لیے بندے کا جنونی، ہٹ دھرم، ثقافتی نشئی اور ثابت قدم ہونا ضروری ہے۔

بھئی دیکھیے! وسط جولائی ہو، ساون کا موسم ہو کہ بادل گرجا نہیں طوفان آیا نہیں اور اگر حضرت سورج من مانی پہ اتر آئیں تو چھڑوا پسینے دیں اور پسینے بھی ایسی ایسی جگہ سے کہ بندہ لکھتے ہوئے ہچکچائے کہ آیا یہ الفاظ پارلیمانی دائرہ کار سے باہر کو نہ نکلتے ہوں۔ خیر دوران سفر جب یہ معلوم ہوا کہ بھائی صاحب کو بھی تاریخ سے زبردستی دلچسپی ہے کیونکہ یہ تو ان کا روزی روٹی والا سبجیکٹ ہے تو قدرے اطمینان ہوا کہ اب اگر وہاں تک کھوج لگانے میں ذلالت بھی اٹھانا پڑی تو کم از کم سانجھی ہی ہو گی۔

گوجر خان، ضلع راولپنڈی کی تحصیل ہے۔ اس شہر اصل اقتدار کی سات تحصیلیں ہیں۔ کلرسیداں، کوٹلی ستیاں، کہوٹہ، ٹیکسلا، مری، راولپنڈی اور گوجر خان۔ ساتوں کی سات تاریخی، ثقافتی، ارضیاتی شواہد و باقیات سے مالا مال ہیں۔ ہمارا پڑاؤ قلعہ سنگھنی تھا، جو کہ یونین کونسل ٹکال کے موضع سنگھنی میں واقع ہے۔ یہ موضع سنگھنی تحصیل گوجر خان کا آخری گاؤں ہے۔ اس سے ذرا سا آگے چوآہ خالصہ کا تاریخی گاؤں ہے، جہاں سے مارچ 1947 میں مسلم سکھ فسادات پھوٹے۔

قبائلی مسلمان مجاہدین نے سکھوں پر ہلا بولا اور کوئی 92 کے لگ بھگ سکھنیوں نے کنویں میں کود کر اپنی عزتیں بچائیں تھیں۔ اس واقعہ کے بعد وہاں وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو نے بھی دورہ کیا تھا۔ خیر ہمارے پیش نظر قلعہ سنگھنی تھا۔ بوسیدہ سڑکیں، گردوغبار سے اٹی فضا، اینٹوں کے بھٹوں کی چمنیوں سے نکلتی کالی زہریلی گیسیں، گندے جنگلی نہر نما نالے، شدید گرمی اور سی ڈی سیونٹی کی بے حال موٹر سائیکل ہمارے ہمراہی تھے۔

گوگل بابا نہ ہوتے تو شاید ہم کسی پاتال کے جنگل میں جا نکلتے۔ تجسس اور لگ بھگ سو کلومیٹر کی نہ ختم ہونے والی مسافت شدید تھکاوٹ کا باعث بنتی جا رہی تھی۔ اس پہ مستزاد یہ کہ ویڈیوز، ڈاکیومنٹریز اور فوٹوشاٹ کے لالچ میں ہم سوٹڈ بوٹڈ تھے۔ بالآخر خدا خدا کر کے سوئی چمیاں پہنچے اور تھوڑا سا آگے جا کر ہمیں قلعے کے در و دیوار نظر آئے تو کچھ سکون ملا۔

سن رکھا تھا کہ وہاں کوئی مزار بھی ہے، جہاں نوبیاہتے اولاد کی آس لیے جاتے ہیں، نذرانے چڑھاتے ہیں اور خوب غل مچاتے ہیں۔ اسی سنی سنائی میں آ کر ہم نے قیام و طعام کی آس باندھی تھی۔ جب وہاں پہنچے تو پاس نہ پانی تھا نہ دانہ۔ دیواریں ہیبت ناک تھیں۔ دیواروں پہ بنے کنگرے خطرناک تھے۔ داخلی دروازہ بالکل اسی طرز پہ بنا ہوا تھا جیسے سندھ میں کوٹ ڈیجی کے قلعے کا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو دم بخود رہ گئے۔ ابے یہ تھا وہ قلعہ جس کی خاطر اتنے رسوا ہوئے۔

یہ قلعہ کم قلعی زیادہ تھی۔ ایک احاطہ تھا جیسا دیہاتوں میں عموماً حویلیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے ارد گرد چار دیواری کا ڈھانچہ تھا۔ چاروں کونوں میں معمولی سے برج تھے جن کا مقصد شاید پہرہ داروں کو وہاں متعین کرنا ہو گا۔ اس قلعے کی تعمیر کے حوالے سے تین روایات ملیں۔ ایک کے مطابق یہ مغلوں نے تعمیر کروایا۔ اس کے ثبوت کے طور پر قریب ہی موجود ایک پرانا قبرستان پیش کیا جاتا ہے جہاں مغلوں کے کچھ سپاہیوں کی قبریں ہیں۔

ان قبروں پہ بھی کچھ مخدوش ہوتے نقش و نگار ہیں۔ ہم نے تنگیٔ دامان وقت کے باعث وہ قبرستان بہرحال نہیں دیکھا۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ قلعہ کشمیر کے ڈوگرہ راجاؤں نے تعمیر کروایا۔ اس زمانے میں یہ علاقہ بھی چونکہ کشمیر کا حصہ ہوا کرتا تھا، سو ڈوگروں کا یہاں بھی اثر و رسوخ تھا۔ اسی کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے یہاں ایک چوکی ٹائپ قلعہ نما تعمیر کیا۔ یہ کوئی 1840۔ 1799 ء کے آس پاس کا قصہ ہے۔ تیسری روایت سکھوں کے حوالے سے ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے تعمیر ہی سکھوں نے کروایا بعض کہتے ہیں کہ 1814 ء میں اس کا انتظام و انصرام رنجیت سنگھ کی حکومت نے سنبھالا۔ بہرحال معمار جو بھی ہے، اس قلعے کا مقصد علاقے میں اپنا تسلط قائم رکھنا اور ٹیکس جمع کرنا بتایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ گئے کہ یہاں قیدیوں کو بھی رکھا جاتا تھا۔ مگر جو بات سچ ہے اور خود دیکھی ہے کہ اس قلعے میں کوئی خاص عمارت، بیٹھک، دیوان یا محل نہیں ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ قدیم زمانے کی پولیس چوکی ہے۔ اس کی تعمیر میں پہاڑی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ ایک طرف گاؤں اور باقی تینوں اطراف میں گھاٹیاں ہیں اور گھاٹیوں سے آگے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اور وادیاں ہیں۔ قلعے کی اطراف میں کھڑے ہو کر ان گھاٹیوں کو دیکھنا بہت خوفناک ہے۔

لطف کی بات تو اب سنیے! صاحبزادہ عبدالحکیم جو قریبی موضع چکڑال میں دفن تھے، اپنے بیٹے اور سنگھنی کے مریدین کی خوابوں میں آئے اور حکم دیا کہ مجھے اس مدفن سے نکال کر قلعے میں دفن کیا جائے۔ سو حکم کی تعمیل ہوئی۔ اب مرحوم کافروں کے بنائے اس قلعے میں جنت نشیں ہیں۔ ان کے جانشینوں نے قریب ہی ایک اور مرکز تجلیات بنا رکھا ہے۔ ہر جمعرات اور جمعے کو وہ اپنے اس والے مرکز سے اس والے مرکز میں جلوہ نشیں ہوتے ہیں۔

بکروں اور مرغوں کی نیازیں چڑھائی جاتی ہیں۔ مریدین سلام عقیدت کے لیے بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں۔ اللہ اللہ سبحان اللہ کیا رونق جلوہ افروز ہوتی ہو گی ان دنوں۔ ۔ ۔ صاحبزادہ عبدالحکیم ممکنہ طور پر عرب یا بغداد سے پہلے ایران آئے اور پھر وہاں سے بسلسلہ تبلیغ ہندوستان آئے اور اس علاقے میں قیام پذیر ہو گئے۔ قلعہ کی بائیں جڑ میں ایک چشمہ ہے۔ اسے مقدس چشمہ مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صاحبزادہ عبدالحکیم جب اس خطہ میں تشریف لائے تو ان کی برکت سے یہاں ایک چشمہ وجود میں آ گیا۔

مجھے یہ چشمہ کم اور پوٹھوہار کی روایتی ڈھنڈ زیادہ لگی، جس کا پانی گدلا اور سبزی مائل تھا۔ کچھ صاحبان عقیدت لائف جیکٹس پہنے اس میں چھلانگیں لگاتے تھے اور صاحبزادہ عبدالحکیم کے گن گاتے تھے۔ پیر صاحب کا مزار بہت ہی خوبصورت بنایا گیا ہے۔ سنگ مرمر سے سجایا گیا ہے۔ خطۂ پوٹھوہار کے روایتی طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ بیل بوٹے بڑے دلکش ہیں اور ہاہاکار ہے۔ بابا جی کی قبر کے سرہانے ایک سوراخ چھوڑا گیا ہے اور باہر تختی پہ اس بارے لکھا ہے کہ یہاں سے مشک و عنبر کی خوشبوئیں پھوٹتی ہیں جو باوا جی کی زندہ کرامت ہے۔

ہم نے بہتیرا سونگھا، کبھی ناک سکیڑا کبھی منہ ٹیڑھا کیا مگر سوائے ان اگربتیوں کی خوشبو کے جو مزار میں لگی تھیں کوئی دوسری خاطرخواہ خوشبو نہ سونگھ سکے۔ شاید ہم ہی بدبخت ہوں گے۔ اس بات کی بہرحال خوشی ہے کہ اس مزار پر اسرار کے باعث یہ ایک تاریخی چوکی یا قلعی، المعروف قلعہ سنگھنی محفوظ ہو گیا اور دیگر ہم عصر عمارات جیسی خستہ حالی سے بچ گیا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے مجھے یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کیوں نہ پاکستان کی ہر قدیمی تاریخی و ثقافتی عمارت کے اندر ایک آدھ جھنڈا لہرا دیا جائے اور چھوٹا سا مزار سجا دیا جائے۔ بس پھر آمدن بھی ہو گی اور عمارات کی دیکھ بھال بھی مفت میں ہو جائے گی۔

خلاف توقع وہاں پانی کا بندوبست تھا نہ رفع حاجت کا، سو بے بسی میں ایک یہی خیال آیا کہ اب اتنا دور آ کر ایک دو کش ہی لگا لیے جائیں۔ احاطہ مزار میں ”کچھ“ سلگانے لگا کہ ایک خدمتگار آ گیا۔ اسے دیکھتے ہی کہا میاں! یہ ہمارا کیمرہ پکڑو کہ ہم ویڈیو بنائیں اور دنیا کو دکھلائیں کہ وہ یہاں آئیں اور ثواب دارین کمائیں۔ وہ تو بڑا باذوق نکلا۔ گو کہ ناخواندہ تھا مگر بلا کا شعر خوان تھا۔ ہمیں سیف الملوک سنائی، پھر پوٹھوہاری میں کچھ دوہڑے سنائے۔

پھر کہنے لگا آپ ہمارے گھر آئیں، خدمت کرائیں اور آپ کو ہم گھڑا و ستار سنائیں۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ شکر خدا ادا کیا اور خود کو اس کے ہمراہ کیا۔ گھر پہنچتے ہی اس نے کوئی ڈیڑھ فرلانگ ستار نکالا ساتھ میں اپنے بیٹے عثمان کو للکارا۔ ہاتھوں میں گھنگھرو باندھ کر اسے گھڑے پر بٹھا دیا۔ اس کا اسم گرامی راجہ مناظر شعر خوان تھا۔

کلام سناتے سناتے اس نے بتایا کہ ہمارے پوٹھوہار میں یہ روایت ہے کہ جب کوئی مرتا ہے تو یہاں کے مقامی شعرا اس کی عظمت و شہرت پہ شعر لکھتے ہیں اور پھر یہ شعر پورے بندوبست کے ساتھ اس کی برسی پہ سنائے جاتے ہیں۔ ستار، طبلہ، ڈھولکی، گھڑا، بانسری اور نجانے کیا کیا آلات موسیقی بجائے جاتے ہیں اور مرنے والے کی شان میں قصیدے اور نوحے پڑھے جاتے ہیں۔ موت کی بے ثباتی کو یاد کرنے کے لیے غم و الم والے اشعار بھی سناتے ہیں۔

اس روایت اور اس ثقافت کا سننا بڑا دلچسپ واقعہ تھا۔ ہم بھی ڈھلتے سورج کی پرواہ کیے بغیر کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے اس کے چھوٹے بیٹے کی گھڑے کی ماہرانہ پرفارمنس اور پوٹھوہاری شاعری کے ساتھ ساتھ ستار سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

آس پاس کے لوگ اور بچے اپنی اپنی چھتوں پہ چڑھے ہمیں دیکھنے میں محو رہے۔ ہم جولائی کی تپتی سہ پہر ایک دھریک کی چھاؤں میں چوپالوں کی کھرلی کے پاس بیٹھے لوک موسیقی اور خطہ پوٹھوہار کی شاعری سے محظوظ ہوتے رہے۔ گاؤں کے لوگ انتہائی پژمردگی کا شکار تھے۔ تعلیم کم، روزگار نشتہ، سہولیات مفقود، شعور ناپید اور جدید مادی وسائل، گویا تھے ہی نہیں۔ ہم نے چائے پی۔ انہوں نے دوبارہ آنے پر ضیافت کا اہتمام کرنے کا وعدہ کیا اور اس کے ساتھ ہی ہم پہاڑیوں، وادیوں کی پرپیچ پگڈنڈیوں میں اتر آئے۔ گھر آ کر معلوم ہوا کہ ہم نے 200 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جو ریکارڈنگز کی تھیں، ان سب میں مائیک آف تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments