”انٹرنیٹ ہی بند کر دیجئے“


دنیا دن بہ دن ترقی کرتی جا رہی ہے اور آج کل جدید ٹیکنالوجیز کے دور میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی اہمیت کو نظرانداز نہیں جا سکتا۔ جہاں ہم دنیا کے قریب ہوئے ہیں وہیں ہم اپنوں سے دور بھی ہوئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ اگر کسی سے رابطہ کرنا ہے تو ہفتوں یا مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا، وہیں آج کل ایک کلک یا ایک انگوٹھے کی دوری پر سب کام ہیں۔ جیسے وبا کے دنوں میں لاک ڈاؤن ہوا تو ہم گھروں تک محدود ہو گئے، لیکن انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے ملک کی نہیں بلکہ ہم دنیا کی بھی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ رہے۔

آج کل گردش کرنے والی خبر یہ بھی ہے کہ یوٹیوب کو بند کیا جا رہا ہے۔ یوٹیوب، ٹویٹر یا دیگر ویب سائٹس بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ مسئلہ کہاں ہے یا کسی بھی مسئلے کی وجہ کون ہے، اب آپ کو دیکھنا یہ ہے کہ اگر حکومت عدلیہ یا فوج پر تنقید ہوتی ہے تو کیوں ہوتی ہے؟ قتل، اغواء سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ قانون اور آئین موجود ہے اور جو غلط کر رہا ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

مطیع اللہ جان کا اغواء ہوا اگر انٹرنیٹ نہ ہوتا یا ہم وہی پرانے دور میں جی رہے ہوتے تو آج جو لوگ مطیع اللہ جان کو جان گئے ہیں وہ کبھی نہ پہچان سکتے یا جیسے ان کی خبر کچھ گھنٹوں میں پوری دنیا میں پھیل گئی اور ٹویٹر پر تو ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور وہی مطیع اللہ جان بارہ گھنٹوں بعد اپنے گھر با حفاظت پہنچ گے۔ یہ بھی ایک انٹرنیٹ کا کمال تھا کہ اغواء ہوئے تو بھی سب کو خبر پہنچ گئی لیکن جب گھر پہنچے تو پھر اپنے چاہنے والوں سے جڑ گئے۔

جیسے لاک ڈاؤن ہوا تو تمام تعلیمی ادارے بھی بند ہو گئے۔ لیکن طلباء اپنی تعلیم کی وجہ سے پریشان تھے۔ وہیں کچھ طلباء جو شہروں میں رہتے ہیں ان کا ساتھ تو انٹرنیٹ نے دیا اور آن لائن کلاسز لیں اور لے رہے ہیں۔ جو دور افتادہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء تھے وہ مزید پریشانی کا شکار ہوئے جیسے انٹرنیٹ یا بجلی کا نہ ہونا۔ آن لائن کلاسز کی وجہ سے خاص کر کے جو لڑکیاں تھیں ان کو پریشانی کا بھی سامنا کرنا پڑا جیسے اساتذہ کی طرف سے ہراساں کرنا۔

کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یہ انٹرنیٹ غلط لوگوں کو قبول ہی نہ کرے اور لوگوں کے دلوں کا حال جاننے لگ جائے خیر یہ تو نا ممکن ہے۔ اب کچھ لوگ ہیں جو صرف انٹرنیٹ کا استعمال غلط کرتے ہیں اور لاتعداد لوگ ہیں جو فیک اکاؤنٹ سے ملک، فوج اور عدلیہ کے خلاف لکھتے ہیں اور ان تک پہنچنا خیر مشکل نہیں کیوں کہ دنیا کی نمبر ون ایجنسی کا کام یہی ہے کہ ملک کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔ لیکن زندہ ہیں کچھ لوگ جو منہ میں زبان رکھتے ہیں۔

اب یا تو تنقید کریں یا توہین نہ کریں اگر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ تنقید کا جواب دے کیونکہ حکومت یا اپوزیشن میں بیٹھے لوگ عوام سے ووٹ لے کر اور وعدے کر کے جاتے ہیں۔ اگر آپ فوج یا عدلیہ کے بارے کچھ سخت زبان کا استعمال کرتے ہیں تو توہین عدالت یا غدار کی مہر لگ جاتی ہے۔ حالانکہ فوج اور عدلیہ کو بھی چاہیے کہ ان لوگوں کو سنا جائے۔ اب جو کیس خودکشی کے سامنے آ رہے ہیں مسئلہ یہی ہے کہ ان کا درد دکھ سننے والا کوئی نہیں ہے اور وہ آخری حل پنکھے کے ساتھ لٹک کر یا زہریلی چیز کھا کے مرنا پسند کرتے ہیں۔

بات ہو رہی ہے تھی انٹرنیٹ پر اور کالم کا عنوان بھی ”انٹرنیٹ کو بند کر دیجئے“ ہے تو اب جیسے یوٹیوب بند ہو یا نہ ہو۔ یوٹیوب کو بند نہیں ہونا چاہیے جن سے آپ کو شکایت ہے ان یوٹیوب چینل مالکان کو سنا جائے وہ کیا چاہتے ہیں۔ میں اگر اپنی بات کروں تو میں نے کورل ڈرا جو گرافکس ڈیزائنگ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور ایڈوب فوٹو شاپ جو تصاویر کو ایڈٹ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ان دونوں کو استعمال کرنا میں نے یوٹیوب سے سیکھا ہے۔

اس طرح لاتعداد چیزیں ہیں جن کے بارے میں آپ کو معلومات یوٹیوب سے مل سکتی ہے۔ اگر آپ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں تو ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو راستے اور جگہ کی ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کر دیتے ہیں آپ ویڈیوز دیکھ کے جا سکتے ہیں یا اندازہ ہو سکتا ہے کہ جگہ یا اس جگہ تک پہنچنے کا راستہ کیسا ہے۔ ایسے ہی کچھ اساتذہ ہیں یا عالم دین بھائی جو اپنے علم سے دنیا کو ایک اچھا سبق دے رہے ہیں یا بہت سے لوگوں کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔

اب جب سے انٹرنیٹ عام ہوا ہے ہر شخص اپنے آپ کو مشہور کرنے کے چکروں میں پڑا ہوا ہے۔ انسٹاگرام یا ٹک ٹاک کر دل لینا، فیس بک یا ٹویٹر پر لائیک لینا ہر کسی کو اچھا لگتا ہے اور لائیک لینے کے چکر میں یا ویڈیوز پر ویوز آنے کی وجہ سے ہر شخص کچھ مختلف اور الگ کر رہا ہے اور ٹک ٹاک نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کچھ ناچ گانا کر رہے ہیں تو کچھ اسلامی تعلیمات سے متاثر کر رہے ہیں اور کچھ اپنی تصاویر سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کر رہے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ جعلی شناخت کے حامل افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جو جعلی اکاؤنٹ کے ذریعے لوگوں کے احساسات سے کھیلتے ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان نسل میں برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اکثر غیر تصدیق شدہ اور انتشار یا بے چینی پھیلانے والوں پر نظر رکھی جائے۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہو سکتا تو انٹرنیٹ کو ہی بند کر دیجئے تا کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments