متحدہ عرب امارات کا مارس مشن


زمین کے باہر زندگی کی تلاش سے لے کر، دوسرے سیاروں تک انسانی تہذیب کے پھیلاؤ تک مریخ ایک لمبے عرصے سے انسانی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس وجہ سے مریخ پر اب تک کئی مشنز بھیجے جا چکے ہیں۔ جنہوں نے ہمیں مریخ کے متعلق بہت کچھ بتایا۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات مریخ پر مشن بھیجنے والا دنیا کا پہلا مسلم ملک بن گیا ہے۔

20 جولائی 2020 کو جاپان کے ایک چھوٹے سے جزیرے سے 174 فٹ کا ایک راکٹ ایک سپیس کرافٹ کو اٹھائے ہوئے سپیس کی جانب روانہ ہوا۔ یہ راکٹ جاپانی تھا تاہم ”ال امل“ نامی جس سپیس کرافٹ کو لے کر یہ راکٹ روانہ ہوا وہ سپیس کرافٹ متحدہ عرب امارات کے محمد بن راشد سپیس سنٹر نے تیار کیا تھا۔ یہ لانچ کامیاب رہی اور سپیس کرافٹ راکٹ سے کامیابی سے الگ ہو گیا اور دوبئی میں موجود کنٹرول سنٹر سے اس کا دو طرفہ رابطہ بھی بحال ہو گیا۔ اب یہ سپیس کرافٹ اپنے thrusters کی مدد سے تقریباً 28 دن میں زمین کے آربٹ سے نکل کر مریخ کی جانب گامزن ہو جائے گا۔

یہ پروب فروری 2021 کو مریخ پر پہنچے گا اور یوں عرب امارات کسی دوسرے سیارے پر پہنچنے والا عرب دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا۔

مشن کی سربراہ سارہ ال امیری جو کہ یو اے ای کی ایڈوانس سائنس کی منسٹر بھی ہیں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ ایک ناقابل شکست احساس تھا۔ یہ مشن متحدہ عرب امارات کا مستقبل ہے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپیس کو ایکسپلور کرنے کی عالمی کوششوں میں شمولیت ان کے لئے اعزاز کی بات ہے۔

یہ مشن ایک ایسے وقت میں روانہ کیا گیا ہے جب زمین اور مریخ کے درمیان فاصلہ کم سے کم ہوتا ہے ایسا وقت تقریباً ہر چھبیس مہینے بعد آتا ہے۔ اس سال مریخ پر بھیجے جانے والے مشنز میں سے یہ پہلا مشن ہے اس کے علاوہ امریکہ اور چین بھی اس سال مریخ پر مشن بھیج رہے ہیں۔

یو اے ای نے اپنی سپیس ایجنسی کی بنیاد 2014 میں اپنی رکھی تھی۔ سپیس مشنز کی تیاری میں اکثر ممالک تقریباً 10 سے 12 سال لیتے ہیں۔ تاہم، یو اے ای نے اپنے سپیس مشن کی تیاری صرف 6 سال میں کی جو کہ یقیناً ایک اعزاز کی بات ہے۔ اس مشن میں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کی سائنس ٹیم 80 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ خواتین کی اتنی بڑی تعداد میں کسی سائنسی پراجیکٹ میں شمولیت یقیناً خوش آئند ہے۔

یو اے ای کا یہ مشن ایک مریخی سال تک مریخ کے آربٹ میں رہے گا اور مریخ کے کلائمٹ پیٹرن کا تفصیلی جائزہ لے گا۔ مریخ کا کلائمٹ بہت پیچیدہ ہے۔ اس سے پہلے بھیجے گئے مشنز مریخ کی سطح کے نزدیک بھیجے جاتے رہے ہیں تاکہ وہ مریخ کی سطح کا جائزہ لے سکیں۔ تاہم یو اے ای کا مشن مریخ کی سطح سے بہت بلندی پر بھیجا رہا ہے تا کہ یہ مریخی کلائمٹ کا مکمل جائزہ لے کر اس کا نقشہ تیار کر سکے۔

سائنسدانوں کے مطابق ایک وقت میں مریخ پر دریا و جھیلیں بہتی تھیں۔ مریخ کا اپنا ایک ایٹماسفیئر تھا۔ تاہم پھر کچھ ایسا ہوا کہ مریخ سے پانی غائب ہو گیا۔ مریخ کا ایٹماسفیئر ختم ہو گیا اور مریخ ایک سرخ چٹان بن کر رہ گیا۔

ہوپ نامی یہ مشن مریخ کے لوئر اور اپر اٹماسفیٹر کے مابین رابطے کو بھی سٹڈی کرے گا اور مریخی ایٹماسفیئڑ سے ہائیڈروجن اور آکسیجن کے انخلاء کا بھی مطالعہ کرے گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس مشن سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے یہ مسٹری بھی حل کی جا سکے گی کہ کس طرح مریخ کی سطح پر موجود اٹماسفیٹر اور پانی غائب ہوئے اور کس طرح مریخ ایک قابل رہائش سیارے سے ایک بنجر چٹان میں تبدیل ہوا۔

مریخ کے اٹماسفیٹر کے تفصیلی ماڈلز مستقبل میں مریخ پر جانے والے انسانی مشنز کے لئے بھی بہت زیادہ فائدہ مند ہوں گے۔ یہ ماڈلز انسانوں کو مریخ پر لینڈنگ سائٹس، بچاؤ کی سٹریٹیجیز اور مریخ کے واٹر سائیکلز کو متعین کرنے میں مدد دیں گے۔

یو اے ای کا یہ مشن ملک کی لمبی سٹریٹجی کا آغاز ہے۔ متحدہ عرب امارات مستقبل میں مزید سپیس مشنز بھیجنے کا بھی ارادہ رکھتا جن میں سے ایک 2117 میں مریخ پر ایک کالونی بسانا بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments