چینی انکوائری کمیشن: ایف آئی اے کے افسر سجاد باجوہ کو نوکری سے برطرف کرنے کی سفارش


چینی انکوائری کمیشن کی تحقیقات کے دوران مختلف الزامات کے تحت معطل ہونے والے فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سجاد مصطفیٰ باجوہ کو محکمانہ انکوائری میں قصور وار قرار دیتے ہوئے نوکری سے برخاست کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

نو صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ کے مطابق سجاد مصطفیٰ باجوہ پر ’غیر معیاری اور غیر تسلی بخش کارکردگی، شوگر مل انتظامیہ سے مبینہ روابط، رازدارانہ معلومات کا تبادلہ کرنے اور مل انتظامیہ کو کمیشن کے حساس ریکارڈ تک رسائی دینے‘ کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔

سجاد باجوہ نے خود پر عائد تمام الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اس انکوائری رپورٹ کو ’ذاتی عناد، بغض اور جلد بازی میں تیار کی گئی یک طرفہ رپورٹ‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان پر عائد کردہ الزامات کے دستاویزی ثبوت انھیں فراہم نہ کر کے انھیں شفاف ٹرائل کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا۔

اس حوالے سے ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام سے مؤقف لینے کے لیے رابطے کیے گئے مگر انھوں نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔

قانونی ماہرین نے بھی ایف آئی اے کی اس انکوائری رپورٹ پر متعدد سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کے مطابق شفاف ٹرائل کے بغیر کسی کے خلاف بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔

قانونی ماہرین کی مکمل رائے جاننے سے قبل ایف آئی اے کی اس تفصیلی انکوائری رپورٹ پر نظر دوڑاتے ہیں کہ آخر اس رپورٹ میں ایک افسر کو کن وجوہات کی بنیاد پر ملازمت سے برخاست کرنے کی سفارش کی گئی۔

مزید پڑھیے

چینی بحران: فرانزک آڈٹ سے قبل تحقیقاتی ٹیم کا اہلکار معطل

چینی اور آٹا بحران رپورٹ: اہم حکومتی اور سیاسی شخصیات ذمہ دار قرار

’چینی برآمد ہوئی بھی تھی یا نہیں؟‘: حکومت کا تحقیقات کا حکم

چینی کمیشن رپورٹ اور ایف آئی اے کی انکوائری

یاد رہے کہ رواں برس 20 فروری کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے چینی کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں ایک تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی ابتدائی رپورٹ 31 مارچ کو وزیر اعظم کو پیش کی تھی۔

حقائق کی مزید جانچ پڑتال کے لیے انکوائری کمیشن نے چینی کی 10 ملوں کا فرانزک آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

دس ملوں کا فرانزک آڈٹ کرنے کے لیے نو خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں اور ہر ٹیم ایف آئی اے، انٹیلیجینس بیورو (آئی بی)، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر اداروں کے افسران پر مشتمل تھی۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سجاد باجوہ اس ٹیم کی سربراہی کر رہے تھے جس کے ذمے رحیم یار خان میں واقع الائنس شوگر ملز کا فرانزک آڈٹ تھا۔

آٹا، چینی، ایف آئی اے

سجاد باجود پر کون کون سے الزامات مبینہ طور پر ثابت ہوئے؟

سجاد باجوہ کو رواں برس 22 اپریل کو چینی کمیشن کی تحقیقات کے دوران ہی معطل کر دیا گیا تھا اور بعد ازاں مئی میں انھیں الزامات کی فہرست جاری کی گئی تھی جس میں مجموعی طور پر ان پر آٹھ الزامات لگائے گئے تھے۔

سجاد باجوہ پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سکیریٹری داخلہ ڈاکٹر طارق سردار کو مجاز افسر تعینات کیا گیا تھا اور چھ مئی کو ایف آئی اے کے سینیئر افسر ابو بکر خدابخش کو اس کیس کا انکوائری افسر مقرر کیا گیا تھا، جنھوں نے 14 مئی کو سجاد باجوہ کے خلاف چارج شیٹ جاری کی۔

دو ماہ کے عرصے میں مکمل ہونے والی انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ابتدائی تین الزامات بنیادی طور پر سجاد باجوہ کی چینی ملز کے فرانزک آڈٹ کے دوران غیر تسلی بخش کارکردگی سے متعلق ہیں۔

انکوائری افسر نے رپورٹ میں لکھا کہ سجاد باجوہ کی کارکردگی سے متعلق سوالات سینیئر افسران بشمول ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا، ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو احمد کمال کی جانب سے اٹھائے گئے تھے۔

انھوں نے لکھا کہ سینیئر افسران کی طرف سے اس نوعیت کے الزامات (غیرتسلی بخش کارکردگی) کسی جانبداری کی بنیاد پر لگائے جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔

انکوائری افسر کے مطابق سینیئر افسر کا یہ صوابدیدی اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماتحت افسران کی کارکردگی کو جانچے، ان کی سرزنش کرے اور ضرورت پڑنے پر ان کے خلاف محکمانہ کاروائی کی طرف جائے۔

انکوائری رپورٹ میں لکھا ہے کہ شوگر کمیشن میں ملک کے مختلف اداروں سے 100 سے زیادہ افسران کام کر رہے تھے۔ ایسی صورتحال میں صرف ایک افسر کے خلاف کارروائی ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ملزم افسر کی کارکردگی معیار کے مطابق نہیں تھی اور وہ بار بار تنبیہ کے باوجود اپنی کارکردگی بہتر نہیں کر پا رہے تھے۔

غیر تسلی بخش کارکردگی سے متعلق تین الزامات کے بعد آئی بی کی خفیہ رپورٹ کی روشنی میں مزید تین الزامات عائد کیے گئے جن کے مطابق سجاد باجوہ اس مل انتظامیہ سے رابطے میں تھے جن کے خلاف وہ تحقیقات کر رہے تھے۔ اس رپورٹ کے مطابق انھوں نے رازدارانہ معلومات شیئر کیں اور مل انتظامیہ کو کمیشن کے ریکارڈ تک رسائی بھی دی۔

واجد ضیا

ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا

انکوائری رپورٹ کے مطابق اِن میں سے ایک الزام یعنی مل انتظامیہ کے ساتھ مستقل رابطہ کو اگر علیحدہ سے پڑھا جائے تو شاید یہ انہونی بات نہ ہو کیونکہ اگر کوئی افسر کسی مل کا فرانزک آڈٹ کر رہا ہوتا ہے تو وہ لازماً مل انتظامیہ سے رابطے میں ہو گا۔

تاہم انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اس حوالے سے عائد کردہ تینوں الزامات کو ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ افسر کا مل انتظامیہ سے رابطہ مشکوک تھا اور اس کا مقصد حساس معلومات مل انتظامیہ کے ساتھ شیئر کرنا تھا تاکہ وہ اپنے ریکارڈ میں درستگی کر سکیں۔

انکوائری رپورٹ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ آئی بی سمیت خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات بڑی حساس نوعیت کی ہوتی ہیں اور یورپ کے بیشتر ممالک کے برعکس پاکستان جیسے ملک میں فوجداری مقدمات کی حد تک ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کردہ فرانزک اور تکنیکی شواہد کا قابل قبول ہونا واضح نہیں ہے مگر اس نوعیت کے شواہد کی حکومت کے انتظامی معاملات میں اپنی ایک اہمیت ہے۔

انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس انکوائری کے دوران شوگر کمیشن کے دو ممبران گوہر نفیس اور احمد کمال کے بیانات قلمبند کیے گئے جس میں انھوں نے سجاد باجوہ کے کردار کو ‘مشکوک’ قرار دیا۔ مذکورہ دونوں افسران نے بتایا کہ سجاد باجوہ مل انتظامیہ کو اہم معلومات لیک کر رہے تھے۔ انکوائری افسر کے بقول دونوں افسران نے ان معلومات کی وضاحت زبانی بات چیت میں ہی کی ہے۔

ایف آئی اے، آٹا چینی

انکوائری افسر کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کے کام کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ تفصیلات اس انکوائری رپورٹ میں دوبارہ نہیں لکھی جا سکتیں لیکن سجاد باجوہ کی طرف سے مل کو رازدارانہ معلومات کے تبادلے کے الزامات ‘بغیر کسی شک و شبہ’ کے ثابت ہوتے ہیں۔

سجاد باجوہ پر عائد کردہ ساتویں الزام کے متعلق انکوائری افسر نے خود ہی کہہ دیا کہ یہ الزام کہ سجاد باجوہ نے فرانزک رپورٹ خود نہیں لکھی مبینہ طور پر کسی پرائیویٹ شخص/اشخاص سے لکھوائی، بس ایک شک کی بنیاد پر ہے اور اس کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔ سجاد باجوہ کو اس الزام سے بری کیا گیا ہے۔

آٹھواں الزام بغیر اجازت میڈیا کے ساتھ رابطہ کرنے کا تھا۔

اس کے متعلق انکوائری افسر نے لکھا ہے کہ سجاد باجوہ نے یوٹیوب پر اپنا ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھا جس میں خود پر لگنے والے الزامات کی وضاحت کی گئی تھی۔

اس ویڈیو کی فرانزک بھی کروائی گئی جس سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ اصلی تھی اور اس میں کوئی ایڈیٹنگ نہیں تھی اور چونکہ انھوں نے اس مقصد کے لیے مجاز اتھارٹی سے کوئی اجازت طلب نہیں کی تھی لہذا وہ گورنمنٹ سرونٹس کنڈکٹ رولز 1964 کے سیکشن 18 کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار دیے گئے ہیں۔

انکوائری افسر کے بقول سجاد باجوہ نے اپنے خلاف ہونے والی انکوائری میں تعاون نہیں کیا اور وہ بار بار بلانے کے باجود پیش نہیں ہوئے، تاہم ان کی جانب سے مجاز افسر کو 21 مئی کو لکھے گئے ایک خط کو اس انکوائری کا حصہ بنایا گیا ہے۔

انکوائری افسر ابوبکر خدا بخش نے لکھا کہ وہ انکوائری کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سجاد باجوہ نااہلی، حساس معلومات لیک کرنے اورگورنمنٹ سرونٹس رولز 1964 کے تحت قصور وار پائے گئے ہیں اور اسی لیے انھوں نے حکام کو ‘میجر پینلٹی’ یعنی نوکری سے نکالنے کی سفارش کی ہے۔

‘انکوائری افسر پر شدید تحفظات ہیں’

سجاد باجوہ نے کیس کے مجاز افسر یعنی وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ ڈاکٹر طارق سردار کو 19 مئی کو ایک تحریری درخواست جمع کروائی تھی جس میں ان پر عائد کردہ تمام الزامات کے تفصیلی جواب دیتے ہوئے چارج شیٹ واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔

انھوں نے درخواست میں لکھا تھا کہ اگر وہ (مجاز افسر) ان کے جوابات سے مطمئن نہ ہوئے تو کسی بھی ایماندار اور غیر جانبدار افسر کو ان کے کیس کا انکوائری افسر مقرر کیا جائے کیونکہ انھیں ابوبکر خدابخش کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں کیونکہ وہ ان کے خلاف بغض رکھتے ہیں اور وہ غیر جانبدار ہوکر ان کے خلاف انکوائری نہیں کرسکیں گے۔

21 مئی کو اس درخواست کی ایک کاپی سجاد باجوہ نے انکوائری افسر ابوبکر خدا بخش کو بھی جمع کروائی تھی۔

دو جون کو کیس کے مجاز افسر سردار طارق نے سجاد باجوہ کی درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے ان کی طرف سے انکوائری افسر پر لگائے گئے تمام الزامات اور کیس کے دیگر پہلوؤں پر ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا سے تفصیلی جواب طلب کیا تھا۔

وزارت داخلہ کی طرف سے دو جون کو ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کو تحریری طور پر اس بابت آگاہ کیا گیا تھا اور ان سے اس حوالے سے جواب طلب کیا گیا تھا۔

انکوائری رپورٹ میں ابوبکر خدا بخش نے وضاحت کی ہے کہ سجاد باجوہ کی جانب سے ان پر عائد کردہ جانبداری کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ دوران سروس انھوں نے کبھی سجاد باجوہ کے ساتھ اکٹھے کام نہیں کیا۔

سجاد باجوہ کا تعارف

اس رپورٹ میں انکوائری افسر کی جانب سے مختصراً سجاد باجوہ کا پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ سجاد باجوہ نے بی اے تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا تھا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سجاد باجوہ سنہ 1990 میں ایف آئی اے میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئے، یہ وہی دور تھا جب ان کے والد غلام مصطفیٰ باجوہ پی پی پی کے ایم این اے تھے اور حکومت بھی پیپلز پارٹی کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1991 میں نواز شریف کی حکومت آتے ہی سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے افراد کو نکالا گیا اور سجاد باجوہ کو بھی ایف آئی اے سے برخاست کر دیا گیا۔ سنہ 1993 میں پیپلز پارٹی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد انھیں ایف آئی اے میں بحال کر دیا گیا۔ سنہ 2002 میں انھوں بدعنوانی کے الزامات کے تحت دوبارہ نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق سجاد باجوہ کو سنہ 2007 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر نوکری پر دوبارہ بحال کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے چند وضاحتوں کے لیے انکوائری افسر ابوبکر خدا بخش سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انھوں نے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔

اظہار وجوہ کا نوٹس اور سجاد باجوہ کا جواب

انکوائری رپورٹ کی روشنی میں اس کیس کے نئے مجاز افسر ایڈیشنل سکیریٹری داخلہ ڈاکٹر فخر عالم نے 17 جولائی کو سجاد باجوہ کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر جواب طلب کیا اور اظہار وجوہ کے نوٹس کے جواب میں سجاد باجوہ نے اپنا جواب 24 جولائی یعنی جمعے کو جمع کروا دیا ہے۔

انھوں نے اپنے جواب میں لکھا ہے کہ ابوبکر خدا بخش نے ‘ذاتی عناد، بغض اور جلد بازی’ پر مبنی رپورٹ تیار کی ہے کیونکہ مجاز افسر نے ابھی تک ان کی انکوائری افسر تبدیل کرنے استدعا پر بھی فیصلہ نہیں کیا تھا۔

انھوں نے لکھا کہ مجاز افسر نے ان کی وضاحتوں پر ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا سے تفصیلی جواب طلب کر رکھا ہے لیکن اس دوران ہی ابوبکر خدا بخش نے مبینہ طور پر جلد بازی میں یک طرفہ انکوائری رپورٹ تیار کر کے بھیج دی ہے۔

انھوں نے لکھا کہ انھوں نے مجاز افسر سے ان دستاویزی شواہد کی نقول کی درخواست کی تھی جن کی بنیاد پر ان کے خلاف چارج شیٹ جاری کی گئی تاکہ اس کے مطابق وہ اپنا جواب جمع کروا سکیں لیکن آج تک وہ نقول فراہم نہیں کی گئیں جو کہ شفاف ٹرائل کے لیے ان کا بنیادی حق تھا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ انھیں یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ ان کی کارکردگی کن رپورٹس یا عوامل کی بنیاد پر پرکھی گئی اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وہ ‘غیر تسلی بخش اور غیر معیاری’ ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ آج تک آئی بی کی وہ خفیہ رپورٹس شیئر نہیں کی گئیں جن کے مطابق وہ مل انتظامیہ کے ساتھ قابل اعتراض روابط میں تھے۔

انھوں نے لکھا کہ انکوائری افسر نے وہ دستاویزی شواہد اپنی یک طرفہ رپورٹ میں بھی نہیں لکھے جن کا دعویٰ آئی بی کی خفیہ رپورٹس کی صورت میں بار بار کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ انھیں بتایا جائے کہ وہ مل کے کس شخص سے قابل اعتراض رابطے میں تھے اور انھوں نے کون سی رپورٹس مل انتظامیہ کو شیئر کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نجی شخص کا بھی بتایا جائے جنھوں نے شوگر کمیشن کی رپورٹ لکھنے میں ان کی مبینہ معاونت کی تھی حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ رپورٹ ان کی ٹیم میں شامل ایس ای سی پی کے رکن نعمان خان نے ان کے ساتھ مل کر لکھی تھی اور اگر نعمان خان سے پوچھ لیا جاتا تو حقیقت باآسانی سامنے آ جاتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چارج شیٹ سے پہلے ہی ان کے خلاف توڑ مروڑ کر حقائق میڈیا کو دیے گئے اور انھیں بدنام کرنے کے لیے ایک مہم شروع کر دی گئی تھی اور جب ان کا ادارہ بھی سارے معاملے میں خاموش رہا تو انھیں مجبوراً اپنے دفاع میں آ کر جواب دینا پڑا۔ انھوں نے مجاز افسر سے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر وضاحت کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔

قانونی ماہرین کی رائے

سروسز معاملات کے ماہر قانون اور سابق جج لاہور ہائی کورٹ حافظ طارق نسیم کے مطابق عام طور پر ملزمان تاخیری حربے کے طور پر انکوائری افسر پر کوئی نہ کوئی الزام لگا دیتے ہیں، لیکن ہر مرتبہ ملزم غلط نہیں ہوتا۔

‘یہ انکوائری افسر کے اپنے ضمیر پر ہوتا ہے کہ جب اس پر الزام لگے تو وہ اپنے ہاتھ کھڑے کر دے اور مجاز افسر کو لکھے کہ چونکہ مجھ پر جانبداری کا الزام لگ چکا ہے لہٰذا میں اس کیس کی انکوائری نہیں کر سکتا، آپ کسی اور کو انکوائری افسر مقرر کر دیں۔’

انھوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے شفاف ٹرائل کے متعلق ہے جو بڑے واضح انداز میں کہتا ہے کہ ٹرائل ہمیشہ شفاف انداز میں ہونا چاہیے اور شفاف ٹرائل کا مطلب ہے کہ ملزم کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے دفاع کا پورا حق ملنا چاہیے۔

ان کے مطابق اس معاملے میں مجاز افسر اس کیس کی ساری تفصیلات منگوا کر اس کا جائزہ لینے کے مجاز ہیں اور وہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ملزم کی جانب سے انکوائری افسر پر عائد کردہ الزامات میں کوئی صداقت ہے یا نہیں۔

‘اگر مجاز افسر اس نتیجے پہ پہنچے کہ ملزم کے الزامات میں صداقت ہے تو وہ نیا انکوائری افسر تعینات کر کے نئے سرے سے انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ سمجھیں کہ الزامات میں صداقت نہیں تو اپنی سفارشات کے ساتھ رپورٹ کو مجاز اتھارٹی کے پاس بھیج سکتے ہیں۔’

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسے شواہد جو استغاثہ کے پاس موجود ہوں اور جو الزامات کا حصہ ہوں تو ملزم کا حق ہے کہ وہ اسے مہیا کیے جائیں اور اگر وہ شواہد ملزم کے ساتھ شیئر نہیں کیے جاتے تو اسے فیئر ٹرائل نہیں کہہ سکتے۔

خفیہ رپورٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انھیں ثابت کرنا پڑتا ہے اور قانونی طور ایسی تمام رپورٹس جو الزامات کا حصہ بنیں وہ ملزم کو دی جانی چاہیں تاکہ ملزم کو فیئر ٹرائل کا پورا موقع مل سکے۔

کوئی بھی ملزم خود پر لگنے والے الزامات سے انکار کرتا ہے تو اسے دفاع کا پورا موقع ملنا چاہیے۔

اس رپورٹ کے حوالے سے ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا سے متعدد بار رابطے کی کوششیں کی گئی لیکن تاحال ان کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا ہے۔

اس کیس کے پہلے مجاز افسر اور ایڈیشنل سکیریٹری داخلہ ڈاکٹر سردار طارق سے جب رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ انھوں نے سجاد باجوہ کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر ایف آئی اے کے سربراہ سے جواب طلب کیا تھا۔

ان کے مطابق جب تک وہ مجاز افسر تھے تب تک ایف آئی اے کی طرف سے سجاد باجوہ کے الزامات پر کوئی جواب نہیں آیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ان کے تبادلے کے بعد انکوائری افسر نے اپنی رپورٹ مکمل کی ہے اور جب تک دونوں طرف کا موقف ان کے سامنے نہ ہو وہ اس پر اپنی کوئی رائے نہیں دے سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp