ناسا : لگ بھگ سات لاکھ برس پہلے مریخ سے آنے والے شہابی پتھر کی واپسی کی تیاری
امریکی خلائی ایجنسی ناسا آئندہ جمعرات کو مارس روور خلا میں بھیجے گی جو سرخ سیارے سے زمین پر آنے والا ایک چھوٹا سا شہابی پتھر وہاں پہنچائے گا۔
جس شہابی پتھر کو ناسا کا پریزروینس روبوٹ سرخ سیارے مریخ تک لے جائے گا وہ اب تک برطانیہ میں لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم (این ایچ ایم) میں رکھا گیا تھا۔
اس پتھر کی خصوصیات سائنسدانوں کو اس روبوٹ میں موجود ایک آلے کی پیمانہ بندی کرنے اور اس کی کارکردگی جانچنے میں مدد کریں گی۔ یہ اس روبوٹ کی جانب سے مستقبل میں کی جانے والی دریافتوں کی تصدیق کرنے کے لیے بھی اہم ہو گا۔
خاص کر اگر اس روبوٹ کو مریخ پر ماضی میں زندگی کے آثار کے حوالے سے شواہد ملتے ہیں کیونکہ اس روبوٹ کو سیارے پر بھیجنے کی ایک اہم وجہ بھی یہی ہے۔
لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں زمین پر ملنے والے سائنسی مواد کے سیکشن کی سربراہ پروفیسر کیرولین سمتھ نے بتایا کہ ’اس چھوٹے سے پتھر کی زندگی کی خاصی طویل اور دلچسپ کہانی ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی نیوز سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’یہ تقریباً 45 کروڑ سال قبل وجود میں آیا اور چھ سے سات لاکھ سال قبل یہ ایک شہابیے یا دم دار ستارے کی وجہ سے مریخ سے علیحدہ ہوا اور زمین پر پہنچ گیا۔
’ہمیں اس کے زمین پر گرنے کا مصدقہ وقت تو نہیں معلوم لیکن اندازہ یہی کہ ایسا ایک ہزار سال قبل ہوا۔ اور اب یہ مریخ پر واپس جا رہا ہے۔‘
سایہ ال یو ہیمیر 008 یا ایس اے یو 008 نامی شہابی پتھر سنہ 1999 میں عمان کے صحراؤں سے دریافت ہوا تھا۔ یہ بیسالٹ یعنی سنگِ سیاہ کا ٹکڑا ہے اور شمالی آئر لینڈ میں جائنٹ کازوے میں موجود آتشیں پتھروں یا پگھلے ہوئے مادے کی قلمی صورت اختیار کر جانے والی چٹانوں سے مشابہت رکھتا ہے۔
یہ پتھر دراصل پراکسین، اولیوین اور فیلڈسپار جیسی معدنیات کا مجموعہ ہے۔ اس کی یہی خصوصیات، ان کے حوالے سے کی گئی تحقیق اور اس پتھر کی ساخت اس کی پریزروینس روبوٹ کے لیے اہمیت میں اضافہ کر دیتی ہے۔
اس پتھر کو روبوٹ میں موجود شیرلاک نامی آلے میں رکھا گیا ہے جس میں مزید نو اقسام کے مواد موجود ہیں۔ یہ آلہ اس روبوٹ کے اگلے حصے میں نصب ہے اور یہ اس مواد کا ہر کچھ دیر کے بعد جائزہ لیتا رہے گا۔
شیرلاک نامی آلے میں دو امیجرز اور دو لیزر سپیکٹروسکوپس موجود ہیں۔ یہ اس روبوٹ کی لینڈنگ کی 40 کلومیٹر چوڑے ’جیزیرو‘ نامی گڑھے میں موجود مواد کی مل کر جانچ کریں گے۔
سیٹیلائٹ کے ذریعے لی گئی تصاویر سے شبہ ہوتا ہے کہ اس گڑھے میں اس سے قبل ایک ندی تھی اور سائنسدان اس جگہ کو مریخ پر ماضی میں زندگی کی موجودگی کے آثار ڈھونڈنے کے لیے بہترین جگہ قرار دے رہے ہیں۔
شیرلاک کے ذریعے مریخ پر موجود پتھروں اور مٹی پر تحقیق کی جائے گی اور قدیم دور میں زندگی کے شواہد ڈھونڈنے کی کوشش بھی۔
تاہم سائنسدان یہ نہیں چاہتے کہ انھیں مریخ پہنچ کر ایک ’بڑی کامیابی‘ ملے اور بعد میں پتا چلے کہ شیرلاک میں اس مشاہدے کے دوران ایک فنی خرابی پیدا ہو گئی تھی۔
ناسا کی جیٹ پروپلژن لیبارٹری میں شیرلاک پر تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر لوتھر بیگل کا کہنا ہے کہ ’ہم پیمانہ بندی کے ہدف کا پہلے 60 سے 90 دن تک معائنہ کیا جائے گا اور پھر شاید اگلے چھ ماہ تک ایسا نہ کیا جائے کیونکہ یہ آلہ انتہائی پائیدار ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاہم اگر ہم مریخ کی سطح پر ایسی دلچسپ چیزیں دیکھیں جن کی ہم وضاحت بھی نہ کر پائیں تو پھر ہم اس کی پیمانہ بندی کے ہدف کا معائنہ کریں گے تاکہ یہ تصدیق ہو سکے کہ آیا یہ آلہ صحیح کام کر رہا ہے یا نہیں۔
’میرے خیال میں سائنسی اعتبار سے اگر ہمیں وہاں ’ممکنہ بائیو سگنیچر‘ (یعنی زندگی کی موجودگی کے آثار) مل گئے تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہو گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے نزدیک شاید کبھی بھی 100 فیصد یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکیں گے کیونکہ یہ ایک مشکل پیمائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پریزرونس کی جانب سے واپس لائے جانے والے مواد کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔‘
یہ روور مریخ کی سطح سے ملنے والے پتھروں کے سب سے دلچسپ نمونوں کو ننھی ٹیوبز میں ڈال کر وہیں چھوڑ دے گا اور اسے وہاں مستقبل میں جانے والے مشنز زمین پر لائیں گے۔
پروفیسر سمتھ کو امید ہے کہ وہ اگلے 10 سے 15 برس میں مریخ سے آنے والے مواد پر کام کریں گی۔
وہ اس بین الاقوامی پینل کا بھی حصہ ہیں جو یہ فیصلہ کرے گا کہ ان خلائی پتھروں پر تحقیق کیسے کی جائے۔
انھوں نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کیوریشن فوکس گروپ کی سربراہی کر رہی ہوں۔ اگلے برس اسی وقت ہمارے پاس اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ ہو گا کہ ہمیں کس قسم کی عمارت کی ضرورت ہے، اس عمارت میں کتنی اقسام کے تجربات کیے جائیں گے اور ہم ان نمونوں کی تیاری کیسے شروع کریں تاکہ تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو یہ دستیاب ہو سکیں۔‘
تحقیق کرنے والوں کے پاس مریخ پر زندگی کے آثار کی تصدیق کرنے کا بہتر امکان اس وقت ہو گا جب وہ وہاں سے ملنے والے مواد کے حوالے سے زمین پر موجود لیبارٹریز میں تحقیق کر سکیں نہ کہ ایک روبوٹ کے پاس موجود تھوڑے سے آلات کی مدد سے۔
ناسا کا پریزروینس روور امریکی ریاست فلوریڈا میں کیپ کیناویرل کے مقام سے یونائیٹڈ لانچ الائنس راکٹ کے ذریعے لانچ کیا جائے گا اور ایسا پاکستان وقت کے مطابق چار بج کر 50 منٹ کے بعد دو گھنٹے کے دوران کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔
ایس اے یو 008 کا ٹکڑا اس روبوٹ پر موجود اکلوتا مریخ کا شہابی پتھر نہیں ہوگا۔ روور کے سوپر کیم آلے میں بھی مریخ کا پتھر پیمائش میں مدد دینے کی غرض سے موجود رہے گا۔
- ماسکو حملے میں ملوث ایک تاجک ملزم: ’سکیورٹی افسران نے انھیں اتنا مارا کہ وہ لینن کی موت کی ذمہ داری لینے کو تیار ہو سکتا ہے‘ - 28/03/2024
- ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لڑکی کے قتل کی ویڈیو وائرل: ’جو کچھ ہوا گھر میں ہی ہوا، کوئی بھی فرد شک کے دائرے سے باہر نہیں‘ - 28/03/2024
- چین کی معیشت پر پانچ سوالات: پاکستان سمیت دیگر ممالک میں چینی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہے؟ - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).