انڈیا میں کولہاپور کے لوگوں کا دل جیتنے والا پاکستانی صادق پہلوان


ململ کا کرتہ، اس میں سے جھانکتا ہو ان کا گٹھا ہوا جسم، مضبوط کاٹھی، سفید لنگی اور پاؤں میں آواز کرتی ہوئی کولہاپوری چپل۔ اپنے کشتی کے داؤ پیچ سے بڑے بڑے پہلوانوں کو دھول چٹانے والے صادق پنجابی کا یہ خاکہ انڈیا کے ایک سینیئر صحافی نے پیش کیا ہے۔

سنہ 1950 اور 60 کے عشروں میں پاکستان سے مسلسل کولہا پور کا دورہ کرنے والے صادق پنجابی نے کولہاپور اور اس کے گرد و نواح کے نا صرف عام لوگوں بلکہ پہلوانوں کا بھی دل جیت لیا تھا۔

صادق پہلوان کا بدھ کے روز لاہور میں انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی عمر 84 سال تھی۔

یہ بھی پڑھیے

‘یہ لڑکیاں کیا لڑکوں سے کم ہیں؟’

’ڈاکٹر، انجینیئر کیا بننا، بیٹا پہلوانی میں نام کرنا‘

’مٹی کے اکھاڑوں سے میٹ ریسلنگ کا سفر آسان نہیں‘

کولہاپور کے پہلوانوں نے ان کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے کیونکہ انھوں نے کولہاپور میں کشتی کے میدان میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔ کولہاپور والوں کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدہ ماحول کے دوران بھی کولہاپور کے لوگوں نے صادق پہلوان سے محبت کی اور ان سے رشتہ قائم رکھا۔

‘میں لڑکے کو پہلوان بناؤں گا اور اسے کولہاپور لاؤں گا’

صادق کو کشتی لڑتے ہوئے دیکھنے والے سینیئر صحافی نانا پالکر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کولہاپور میں کشتی کی روایت کو فروغ دینے میں سب سے بڑا نام ریاست کولہاپور کے مہاراجہ شاہو مہاراج کا ہے۔ انھوں نے کولہاپور کے پہلوانوں کی اچھی تربیت کے لیے دور دور سے نامور پہلوانوں کو کولہاپور بلایا۔ آزادی کے پہلے لاہور کے معروف پہلوان غلام احمد کے بیٹے نیکا پہلوان کو بھی شاہو مہاراج نے کولہاپور آنے کی دعوت دی تھی۔ بعد میں انھوں نے نیکا پہلوان کی سرپرستی کی۔’

وہ بتاتے ہیں کہ ‘خاص باغ میں ایک بڑا دنگل ہوا جس میں نیکا پہلوان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ان کے لیے بہت تکلیف دہ لحمہ تھا۔ اور اسی وقت انھوں نے یہ عہد کیا کہ ‘میں اپنے بیٹے کو پہلوان بناکر کولہاپور لاؤں گا۔’ پھر بٹوارے کے بعد سنہ 1954 میں جب پہلی بار پھر سے نیکا پہلوان کولہا پور آئے تو اپنے ساتھ اپنے بیٹے پہلوان صادق کو لے کر ہی آئے۔’

صادق کا دبدبہ

صادق نے مغربی ریاست مہاراشٹر کے کراڑ کے رام راؤ مولک کے شاگرد راگھو بنپوری کو دھول چٹائی۔ اس کے بعد انھوں نے سانگلی کے وشنوپنتا ساورڈیکر کے ساتھ کشتی لڑی۔ پہلے مقابلے میں ساورڈیکر نے صادق کو شکست دے دی۔ لیکن دوسرے ہی مقابلے میں صادق نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔ اور جب انھوں نے پہلوان ماروتی وڈار کو شکست دے دی اس کے بعد سے اس علاقے میں ان کا دبدبہ قائم ہو گيا۔

اس کے بعد صادق نے اس وقت کے عظیم پہلوان محمد حنیف اور رام چندر بیڑکر کے سامنے اپنے ہنر کا مظاہرہ کیا۔ ایسے حالات بن گئے کہ صادق کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہا۔ اس وقت ہندکیسری گنپت راؤ انڈلکر نے صادق کو چیلنج دیا۔ 75 منٹ کی کشتی میں صادق کی طاقت جواب دے گئی اور یہ کشتی برابری پر ختم ہوئی۔

نانا پالکر نے بتایا کہ پہلے ہندکیسری اور پھر شریپتی کھنچنالے کے ساتھ صادق کی کشتی کو وہ کبھی نہیں بھول سکتے۔ اس مقابلے میں صادق نے ایک گھنٹے کی کشتی کے بعد میدان مار لیا تھا۔

گوگا اور صادق کا مقابلہ

اس وقت کا ایک بڑا نام گوگا پہلوان ہوا کرتا تھا۔ صادق کو چیلنج کرنے کے لیے گوگا پہلوان کولہا پور آئے۔ گوگا کو روایتی کشتی میں مہارت حاصل تھی۔ ان کے بھائی بھی پہلوان تھے۔

نانا نے بتایا کہ ممبئی سے کولہاپور پہنچنے والے گوگا سادھانا لاج میں ٹھہرے تھے۔ خاص باغ میں صادق اور گوگا کی کشتی کو دیکھنے کے لیے دوسری ریاستوں مثلا کرناٹک اور آندھرا پردیش سے بھی لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی تھی۔

اس سنسنی خيز مقابلے سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کی طاقت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ ایک گھنٹے کی زبردست کشتی کے بعد صادق کی کمر زمین سے لگ گئی۔ ناظرین میں صادق کے والد نیکا پہلوان بھی موجود تھے۔ انھیں یہ شکست برداشت نہ ہو سکتی اور انھوں نے وہیں صادق کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ شکست اور اس کے بعد ہونے والی تذلیل سے صادق کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ صادق کولہا پور کے لوگوں میں ہردلعزیز تھے اس لیے وہاں کے ناظرین کو بھی ان کی شکست سے دکھ پہنچا۔’

کولہاپور

کولہاپور میں آج بھی پہلوانی کو پسند کیا جاتا ہے

پہلوان صادق کے کنویں میں گرنے کی کہانی

نانا پالکر کے مطابق صادق سال در سال کولہا پور آتے رہے۔ اسی طرح جب وہ ایک بار آئے تو وہ مراٹھا لاج میں ٹھہرے تھے۔ علاقائی پہلوان ماروتی مانے کے ساتھ کشتی کی مشق کے بعد وہ کنویں پر غسل کرنے جاتے تھے۔

ایک بار وہ کنویں سے پانی نکال رہے کہ وہ اپنا توازن کھو بیٹھے اور کنویں میں گر گئے۔ ان کو تیرنا نہیں آتا تھا اور انھوں نے چیخنا شروع کر دیا۔ اس وقت ماروتی مانے، باپو راڑے اور دوسرے پہلوانوں نے مل کر صادق کو باہر نکالا اور اس طرح ان کی جان بچائی۔

نظریں زمین پر ٹکی رہتیں

صادق اپنے کیریئر کے مختلف مراحل میں کولہا پور آتے رہے۔ وہاں کے لوگ صادق کی ایک جھلک پانے کے مشتاق رہتے لیکن ان کی نگاہیں ہمیشہ نیچی ہوتی تھیں۔ نانا پالکر کے مطابق ‘صادق کہتے تھے کہ لوگوں کے جذبات کی میں قدر کرتا ہوں لیکن نگاہیں اس لیے نیچی رکھتا ہوں کہ غیر خواتین پر نظر نہ پڑے۔’

وہ پہلوان تھے لیکن ان کا کوئی نخرہ نہیں تھا۔ وہ بہت ہی سادہ تھے اور کسی قسم کے چھکے پنجے سے پاک تھے۔ وہ بہت اعلیٰ کردار تھے۔ اسی وجہ سے کولہا پور کے لوگوں نے انھیں بے پناہ محبت دی۔ اگر چہ کولہاپور کے لوگوں میں پاکستان سے شدید نفرت تھی لیکن انھوں نے کبھی بھی صادق پہلوان کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا۔

‘کشتی لڑ کر پیسے کما کر جا رہا ہوں’

ایک بار جب صادق کشتی کے لیے کولہا پور آئے تو ان کے سوتیلے بھائی نے ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ گھر کے لوگوں کو آسانی اور آسائش فراہم کرنے کے لیے وہ کشتی کا مقابلہ کرنے کولہاپور آئے تھے۔ اس وقت ہونے والے مقابلوں میں صادق کو شکست ہوئی تھی لیکن ان کے مقابل کو ان کی طاقت کا اندازہ تھا۔

اسی دورے میں ان کے الفاظ ‘میرے بچے بھوکے ہیں’ نے ناظرین کو بہت متاثر کیا تھا۔ مقامی پہلوانوں کا کہنا تھا کہ وہ صادق کی مالی مدد کے لیے فنڈ اکٹھا کریں گے۔ لیکن صادق نے شائستگی سے منع کر دیا۔ صادق نے کہا کہ ‘کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے کشتی لڑ کر پیسہ کمانا بہتر ہے۔’

ہندکیسری ماروتی مانے اور صادق کی تاریخی کشتی

سنہ 1968 تک صادق ایک ناقابل تسخیر پہلوان کے طور پر اپنا دبدبہ قائم کر چکے تھے۔ اور اس وقت سانگلی سے تعلق رکھنے والے پہلوان ہندکیسری ماروتی مانے اپنے کیریئر کے آخری مرحلے میں تھے۔ انھوں نے صادق کو للکارا۔ خاص باغ گراؤنڈ میں کھیلے گئے میچ میں ماروتی مانے نے صادق کو شکست دے دی۔ اس مقابلے کے بعد لوگوں نے بڑا وسیع جلوس نکالا۔

کشتی کے ٹرینر اور پہلوان گنیش مانوگڑے بتاتے ہیں کہ سنہ 1975 میں صادق پاکستان واپس چلے گئے۔ وہ لاہور میں پہلوانوں کو مٹی اور میٹ دونوں پر تربیت دیتے تھے۔ لیکن کولہاپور میں صادق پہلے ‘شری شاہو وجیئی گنگاویش اکھاڑے اور بعد میں مٹھ اکھاڑے کا حصہ رہے۔ انھیں کولہا پور کے لوگوں نے بہت محبت دی۔ آج بھی بہت سے لوگ انھیں یاد کرتے ہیں۔

‘رنکالا سے محبت کرنے والا صادق پہلوان’

ہند کیسری دیناناتھ سنگھ بی بی سی سے بتاتے ہیں کہ ‘صادق جیسا پہلوان اور آدمی آسانی سے پیدا نہیں ہوتا ہے۔ وہ قدرت کی دین تھے۔ وہ ایک بہت ہی خوبصورت پہلوان تھے۔ وہ ٹماٹر کی طرح سرخی مائل تھے۔ ان کی قد کاٹھی ایسی تھی کہ وہ شاہی گھرانے کا حصہ نظر آتے تھے۔

‘وہ کسی کشتی کو ناں نہیں کہتے۔ ان کے والد نیکا پہلوان ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کا دن صبح ساڑھے تین بجے شروع ہوتا تھا۔ روزانہ تین ہزار ڈنڈ اور تین ہزار بیٹھک کیا کرتے تھے۔ طاقت کے لیے وہ گوشت کھاتے تھے۔ دودھ میں خشک میوہ جات ملا کر ٹھنڈا دودھ پیتے۔ ان کے والد ان کی مالش کرتے تھے۔

روایتی کشتی کے بعد ایک پہلوان نہاتے ہوئے

روایتی کشتی کے بعد ایک پہلوان نہاتے ہوئے

وہ بتاتے ہیں کہ ‘صادق نے ایک بار کشتی سے انکار کردیا۔ اس وقت نیکا اپنی جوتی ٹوٹنے تک صادق کی جوتیوں سے پٹائی کرتے رہے۔ ان لوگوں کو کشتی سے اس قدر پیار تھا۔’

دیناناتھ مزید کہتے ہیں کہ ‘انھیں رنکالا تالاب پر جانا بے حد پسند تھا۔ وہ کہا کرتے تھے رنکالا پر جانے سے ساری تکان دور ہو جاتی ہے۔ کولہا پور کا پانی کچھ الگ ہی ہے۔ اس مٹی سے ان کا گہرا تعلق قائم ہو گيا تھا۔’

دینا ناتھ بتاتے ہیں: ‘صادق نے اتنی کشتیاں جیتیں لیکن پھر بھی انھوں نے کبھی فخر نہیں کیا۔ وہ اپنے مقابل کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرتے۔ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوتے رہتے تھے لیکن لوگوں کی صادق سے محبت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔ صادق کو ویزا ملنے میں کبھی پریشانی نہیں ہوئی۔ وہ کولہا پور سے ممبئی، ممبئی سے دہلی اور پھر دہلی سے لاہور تک ٹرین میں سفر کیا کرتے تھے۔ ان کی کشتی کا ہنر تو اپنی جگہ تھا لیکن ان کی انسانیت سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔’

دوسرے پہلوانوں سے دوستانہ رشتے

کولہا پور میں صادق کی بہت سے پہلوانوں سے دوستی تھی۔ ان کا لوگوں کے گھروں میں آنا جانا تھا، یہاں تک کہ شادی بیاہ کی تقریب میں بھی شرکت کرتے تھے۔ کولہا پور میں پانڈورنگ مہارگوڑے موتی باغ اکھاڑے میں پہلوانی کی مشق کرتے تھے۔

پانڈورنگ کے بیٹے بھرت بتاتے ہیں کہ ان کے والد اور صادق اچھے دوست تھے۔ ‘صادق پہلوان نے میرے والدین کی شادی میں شرکت کی تھی۔ وہ جب بھی کولہا پور آتے تو میرے گھر ضرورآتے تھے۔’

پانڈورنگ نے اپنے بھتیجے کا نام صادق کے نام پر رکھنے کی ضد کی اور ان کے اہل خانہ نے ان کی ضدر پوری بھی کی۔ صادق پہلوان سے اس طرح بھی لوگ اپنی محبت کا اظہار کرتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp