مصنوعی ذہانت اور قدرتی حماقت


خوشخبری کا ایک حصہ تو یہ ہے کہ کم از کم اگلی چند دہائیوں میں ہمیں مصنوعی ذہانت کے شعور حاصل کرنے اور انسانیت کو غلام بنانے یا مٹانے کا فیصلہ کرنے والی سائنس فکشن کے ڈراؤنے خوابوں سے نمٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تیزی سے الگورتھم پر انحصار کریں گے، لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہمارے لیے فیصلے کرتے کرتے الگورتھم شعوری طور پر ہم سے ہیرا پھیری کرنے لگے گا۔ کیونکہ وہ کبھی بھی ذی شعور نہیں ہوگا۔

سائنس فکشن ذہانت کو شعور کے ساتھ الجھا دیتا ہے اور یہ فرض کرتا ہے کہ انسانی ذہانت جیسا بننے یا اس سے آگے نکل جانے کے لیے کمپیوٹر کو شعور حاصل کرنا ہوگا۔ تمام فلموں اور ناولوں کا بنیادی پلاٹ اس جادوئی لمحے کے گرد گھومتا ہے جب کمپیوٹر یا روبوٹ کو شعور عطا ہوتاہے۔ ایک بار جب ایسا ہوتا ہے، تو انسانی ہیرو روبوٹ سے پیار ہوجاتا ہے، یا روبوٹ تمام انسانوں کو مارنے کی کوشش کرتا ہے، یا دونوں چیزیں بیک وقت ہو جاتی ہیں۔

لیکن حقیقت میں، یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ مصنوعی ذہانت شعور حاصل کرے گی، کیوں کہ ذہانت اور شعور بہت مختلف چیزیں ہیں۔ ذہانت مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہے اور شعور چیزوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ جیسے درد، خوشی، محبت اور غصہ وغیرہ، جبکہ ہم دونوں کو الجھاتے ہیں کیونکہ انسانوں اور دوسرے ممالیہ جانوروں میں ذہانت اور شعور ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ممالیہ جانور چیزوں کو محسوس کرکے زیادہ تر مسائل کا حل کرتے ہیں۔ تاہم، کمپیوٹر مسائل کو بہت مختلف طریقوں سے حل کرتے ہیں۔

اعلی انٹیلیجنس کی طرف جانے کے لئے بہت سے مختلف راستے ہیں اور ان میں سے صرف چند ایک راستوں میں شعور حاصل کرنا شامل ہے۔ جس طرح ہوائی جہاز پروں کی نشوونما کیے بغیر پرندوں کی نسبت تیز اڑان بھرتے ہیں، اسی طرح کمپیوٹرز بھی بغیر کسی احساس کے ترقی پا کر ممالیہ سے کہیں بہتر مسائل حل کر سکتے ہیں۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسانی بیماریوں کا علاج کرنے، دہشت گردوں کی نشاندہی کرنے، دوستوں کی سفارش کرنے اور پیدل چلنے والوں سے بھری گلی میں چلنے پھرنے کے لئے انسانی احساسات کا درست تجزیہ کرنا ہوگا۔ لیکن وہ یہ سب کام ذاتی احساس نہ رکھتے ہوئے بھی کر سکتا

الگورتھم کو ناراض یا خوفزدہ بندروں کے مختلف بائیو کیمیکل پیٹرن کو پہچاننے کے لیے خود خوشی، غصہ یا خوف محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

بلاشبہ یہ مکمل طور پر ناممکن نہیں ہے کہ مصنوعی ذہانت اپنے احساسات پیدا کرلے۔ کیونکہ ہم یقینی طور پر شعور کے بارے میں اتنا زیادہ نہیں جانتے ہیں۔ عام طور پر تین امکانات پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

کسی نہ کسی طرح شعور کو نامیاتی بائیو کیمسٹری سے اس طرح جوڑا جاتا ہے کہ غیر 1 نامیاتی نظام میں شعور پیدا کرنا کبھی ممکن نہیں ہوگا۔

2۔ شعور کا تعلق نامیاتی بایو کیمسٹری سے نہیں ہے، بلکہ اس کو ذہانت سے اس طرح منسلک کیا گیا ہے کہ کمپیوٹر شعور پیدا کرسکیں اور اگر ذہانت کی ایک خاص دہلیز کو عبور کرنا ہو تو کمپیوٹرز کو شعور پیدا کرنا پڑے گا۔

3۔ شعور اور نامیاتی بایو کیمسٹری یا اعلی ذہانت کے مابین کوئی ضروری روابط نہیں ہیں۔ لہذا کمپیوٹر شعور پیدا کر سکتے ہیں لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں۔ وہ بالکل شعور نہ رکھتے ہوئے بھی انتہائی ذہین ہوسکتے ہیں۔

ہماری موجودہ علمی سطح کے مطابق ہم ان میں سے کسی بھی اختیار کو مسترد نہیں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم واضح طور پر شعور کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں، اس لیے ایسا امکان نہیں لگتا ہے کہ ہم کسی بھی وقت جلد ہی ذی شعور کمپیوٹر پروگرام بنا سکتے ہیں۔ لہذا مصنوعی ذہانت کی بے پناہ طاقت کے باوجود، مستقبل کے لئے اس کا استعمال کسی حد تک انسانی شعور پر انحصار کرتا رہے گا۔

خطرہ یہ ہے کہ اگر ہم مصنوعی ذہانت کی نشوونما میں بہت زیادہ اورانسانی شعور کی نشوونما میں بہت کم سرمایہ کاری کرتے ہیں تو کمپیوٹر کی انتہائی نفیس مصنوعی ذہانت محض انسانوں کی فطری حماقتوں کو تقویت دینے کے کام آسکتی ہے۔ آنے والی دہائیوں میں ہمیں روبوٹ کی بغاوت کا سامنا کرنے کا امکان نہیں ہے، لیکن ہمیں شاید ان بوٹس کے گروہ سے نپٹنا پڑے گا جو ہماری ماں سے بہتر ہمارے جذباتی بٹنوں کو دبانا جانتے ہیں، اوراپنی انہیں صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک کار، ایک سیاستدان یا پھر ایک مکمل نظریہ ہمیں فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بوٹس ہمارے گہرے خوف، نفرتوں اور خواہشات کی نشاندہی کر سکتے ہیں اورہماری ان اندرونی کیفیات کو ہمارے ہی خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ اس امر سے متعلق حالیہ انتخابات اور دنیا بھر کے ریفرنڈم میں ہمیں پہلے ہی پیش گوئی کی جاچکی ہے، ہیکرز نے انفرادی رائے دہندگان سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ کیا اور ان کے موجودہ تعصبات کو ابھارتے ہوئے ان سے استفادہ کرنا سیکھا ہے۔ اگرچہ سائنس فکشن تھرلرز آگ اور دھویں کی طرف راغب ہوئے ہیں، لیکن حقیقت میں ہم ایک کلک کے ذریعے ایک معمولی سی توڑ پھوڑ کا سامنے کریں گے۔

اس طرح کے نتائج سے بچنے کے لئے ہم ہر ڈالر اور ہر منٹ کی سرمایہ کاری مصنوعی ذہانت کو بہتر بنانے کے لیے کرتے ہیں، جبکہ یہی سرمایہ کاری انسانی شعور کو آگے بڑھانے کے لیے کرنا عقلمندی ہوگی۔ بدقسمتی سے، فی الحال ہم انسانی شعور کی تحقیق اور نشوونما کے لئے کچھ زیادہ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم انسانی صلاحیتوں پر تحقیق اور نشوونما زیادہ ترمعاشی اور سیاسی نظام کی فوری ضروریات کے مطابق کر رہے ہیں، جبکہ یہ ساری محنت بطور ایک شعوری انسان کے طویل مدتی ضرورت کے مطابق ہونی چاہیے۔

میرا باس چاہتا ہے کہ میں جلد سے جلد ای میلز کا جواب دوں، لیکن اسے میرے اس کھانے چکھنے اور اس کی تعریف کرنے کی صلاحیت میں بالکل دلچسپی نہیں ہے۔ نتیجتاً میں کھانے کے وقت بھی اپنے ای میلز کی جانچ پڑتال کرتا ہوں، جبکہ اپنی حساسیتوں پر توجہ دینے کی اہلیت سے محروم ہوجاتا ہوں۔ معاشی نظام مجھ پر اپنے سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو کو وسعت دینے اور متنوع بنانے کے لئے دباؤ ڈالتا ہے، لیکن اس سے مجھے اپنی شفقت کو وسعت دینے اور متنوع بنانے کے لئے بالکل بھی کوئی مراعات نہیں ملتی ہیں۔ لہذا میں اسٹاک ایکسچینج کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں، جبکہ مصائب کی گہری وجوہات کو سمجھنے کے لئے بہت کم کوشش کرتا ہوں۔

اس میں انسان دوسرے پالتو جانوروں کی طرح ہے۔ ہم نے فرمانبردار گائے کو پالا ہے جو بہت زیادہ مقدار میں دودھ تیار کرتی ہے، لیکن بصورت دیگر وہ اس کے جنگلی اجداد سے کہیں کمتر ہیں۔ وہ کم فرتیلی، کم متجسس اور کم وسائل والی ہے۔ اب ہم بہت زیادہ ڈیٹا تیار کرنے والے انسانوں کو تشکیل دے رہے ہیں۔ جو ڈیٹا پروسیسنگ کے ایک بہت بڑے نظام میں ایک موثر چپ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ڈیٹا پروسیسنگ کے لیے تیار کی گئی گائے انسانی صلاحیت کو نہیں بڑھاتی ہے۔ یقیناً ہمیں پوری انسانی صلاحیت کے بارے میں علم نہیں ہے کیونکہ ہم انسانی دماغ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم انسانی ذہن کی کھوج میں مشکل سے ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں، اور اس کے بجائے اپنے انٹرنیٹ کنیکشن کی رفتار اور اپنے بگ ڈیٹا الگورتھم کی کارکردگی کو بڑھانے پر توجہ دیتے ہیں۔

صرف ڈیجیٹل آمریت ہی ہمارے لئے خطرہ نہیں ہے۔ آزادی کے ساتھ، لبرل آرڈر نے مساوات کی قدروقیمت کا بہت بڑا پیمانہ قائم کیا ہے۔ لبرل ازم نے ہمیشہ سیاسی مساوات کو فروغ دیا اور پھر آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ معاشی مساوات بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ سیاسی مساوات اہم ہیں۔ چونکہ معاشرتی حفاظت اور معاشی مساوات کے بغیر آزادای بے معنی ہے۔ لیکن جس طرح بگ ڈیٹا الگورتھم آزادی کو سلب کر سکتا ہے، اسی طرح وہ بیک وقت سب سے زیادہ غیر مساوی معاشرے تشکیل دے سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ تمام دولت اور طاقت محدود سی اشرافیہ کے ہاتھوں میں مرکوز ہو جائے، جبکہ زیادہ تر لوگ استحصال کا شکار نہیں ہوں گے بلکہ اس سے کہیں زیادہ بدتر یعنی غیر متعلق بھی ہوں گے۔

اس سیریز کے دیگر حصےڈیجیٹل آمریت: اکیسویں صدی کے اکیس سبق (قسط نمبر 14)۔فیس بک اپنی ذمہ داری کا ثبوت دے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments