تحفظِ بنیادِ اسلام قانون کا پہلا مجرم


وہ عادی مجرم نہیں تھا۔ یہ اس کا صرف تیسرا پھیرا تھا۔ سختی بڑھ جانے اور تلاشی لینے والا نیا محکمہ قائم ہونے سے کام مشکل ہوچکا تھا۔ اس کی حرکات و سکنات دور سے ہی مشکوک دکھائی دے رہی تھیں۔ قریب سے بھی مشکوک ہی دکھائی دیتی تھیں۔ کراچی میں اس سے خیر کوئی تعرض نہیں کر سکتا تھا۔ معاملہ آگے کا تھا۔

مال اس نے کراچی سے ہی تیار کروایا تھا۔ زیادہ تر قانون شکن عناصر کراچی سے ہی مال لیتے تھے۔ اس کے بعد سپلائی چین کا مرحلہ آتا تھا۔ وہاں نصیب اپنا اپنا۔

گزشتہ دودنوں سے وہ کراچی کے کئی ایک ٹرک اڈوں پر گیا تھا لیکن مال دیکھتے ہی سب نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور اسے بھگا دیا۔ ایک اڈے پربھاری بھرکم مینجر نے سگریٹ کا تمباکو ہتھیلی پر مسلتے اور اس میں کالی رانی گرم کرکے ملاتے ہوئے سمجھایا کہ کوئی ٹرک والا نہیں مانے گا، بس ٹرائی کرو۔

اس نے ایک بس والے سے بات کی۔ بس کراچی سے رحیم یار خان جارہی تھی۔

”بہت مشکل ہے“ ، کنڈکٹر نے کہا۔ ”سندھ پنجاب بارڈر پر چیکنگ بہت سخت ہے۔ نابابا، کسی اور کو بولو۔ ہم ان دھندوں میں نہیں پڑ سکتا۔ شرافت سے کام کرتا ہے۔“

”دیکھو، تھوڑا سا مال ہے۔ سیٹوں کے نیچے، ٹاپے میں، کہیں بھی۔ تم بہت ہنر جانتے ہو۔“
” پکڑے گئے تو جرمانہ اور سزا کون بھگتے گا؟“
”میں ساتھ ہوں گا۔ اسی بس میں سفر کروں گا۔“
”ٹھیک ہے، پکڑے جانے کی صورت میں ہم لاتعلقی ظاہر کردیں گے۔ پھر تم جانو اور تمہارا کام۔“
اتنی دیر میں ڈرائیور ہی وہاں آ جاتا ہے۔ کنڈکٹر اسے بتاتا ہے۔

”ارے توبہ۔ بہت سختی ہے۔ پنجاب کی تمام سرحدیں سیل ہیں۔ یہ چیز تو چڑیا بھی اندر لے کر نہیں جاسکتی۔ ہمیں مرواؤ گے۔“ ڈرائیور نے کہا اور ساتھ ہی کندکٹر کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ کرایہ زیادہ کھرا کر لے۔

کچھ گاہکوں کو ارجنٹ مال چاہیے تھا اور وہ قیمت بھی دینے کے لیے تیار تھے، چنانچہ اس نے ٹکٹ کے فالتو پیسے بھرے اور بس میں سوار ہوگیا۔

صبح تین بجے بس چلی۔ حیدر آباد میں ناشتہ کیا۔ بس شام کے قریب دھڑکی سے گزری تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی۔ چیک پوسٹ پر گاڑیوں کی طویل قطاریں تھیں۔ تمام مسافروں کو اتار کر سامان چیک کیا جا رہا تھا۔ پولیس پچھے کھڑی تھی۔ نیا محکمہ بنا تھا۔ بہت پھرتیلا تھا۔ چیکنگ کرنے والی ٹیم کے چاک و چوبند جوانوں نے طویل، گھنٹوں تک لٹکتے ہوئے سفید لبادے پہنے ہوئے تھے۔ ننگے سر کوئی نہیں تھا۔

”کنڈکٹر نے سامان کہاں رکھا ہے؟“ اس نے دل میں سوچا اور خود کو ہر قسم کی صورت حال کے لیے تیار کر لیا۔

تمام بسوں، ٹرکوں، کاروں کی طرح اس بس کی بھی تلاشی لی گئی لیکن کچھ بھی مشکوک چیز برآمد نہ ہوئی۔ تلاشی لینے والے اندر ضرور آئے تھے اور درحقیقت انھوں نے ایک مسافر کو تاڑا بھی تھا۔ وہ بھی مشکوک دکھائی دے رہا تھا۔ ایک جوان اس کے پاس آیا اور کی گود میں پڑی ہوئی ڈائری پر نگاہ جمائی اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

”یہ کیا ہے؟ کیا لکھا ہے اس میں؟“
” کچھ نہیں جناب، ڈائری ہے صرف۔ کچھ نام اور پتے ہیں گاہکوں کے۔“

تلاشی لینے والے مطمئن نہ ہوا۔ اس نے ڈائری کی ورق گردانی کی اور سر ہلاتے ہوئے واپس کردی۔ پھر اس نے حکم دیا کہ تمام مسافر ایک ایک کرکے اتر جائیں۔ ایک افسر دروازے کے پاس کھڑا تھا جو ہر کسی کی کمر پر ہاتھ پھیر کر چیک کرتا تھا۔ خاصا فحش انداز تھا اس کا۔ خواتین کی چیکنگ کے لیے لیڈیز گارڈز تھیں۔ تمام بس کی اچھی طرح تلاشی لی۔

بس نے دوبارہ سفر شروع کر دیا۔ کنڈکٹر کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ اس نے مبینہ مجرم کی طرف دیکھ کر نہایت واہیات طریقے سے سرسری سی آنکھ ماری جس کا نشانہ راستے میں ایک محترمہ بھی بنی۔ پھر سگریٹ کا گہرا کش لگا کر اپنی مونچھوں کو بری طرح تاؤ دیا۔

راستے میں سب ٹھیک نہیں تھا۔ صادق آباد تک مختلف مقامات پر تلاشی لینے والوں کا عملہ کھڑا تھا۔ کہیں کہیں ان کی ڈبل کیبنز ان بسوں اور ٹرکوں کا تعاقب کررہی تھیں جو چیک پوسٹ سے گزر آئی تھیں لیکن انہیں شک تھا۔ سخت سرگرمی جاری تھی۔ پورا پنجاب ہائی الرٹ تھا۔

شنید تھی کہ حکومت پیپر ڈی ٹیکٹرز منگوا رہی ہے۔ ایک دوست ملک کی فرم سے اربوں ڈالر کا سود ا ہوچکا تھا۔ اسی ملک کے بنک نے آسان شرائط لیکن بھاری سود پر قرض بھی فراہم کر دیا تھا۔ وزیر حزانہ نے رہی سہی اپوزیشن پر ملک دشمن ہونے کا الزام لگاتے ہوئے متحد قوم کو تسلی دی تھی یہ قرضہ تو گزشتہ 79 برسوں میں لیے گئے کل قرض کا دو فیصد ہے۔ پھر انھوں نے آسان الفاظ میں سمجھاتے ہوئے بتایا کہ یہ قرضہ ڈالر کے نرخوں کے مطابق جی ڈی پی ٹو ٹیکس کی شرح کا محض اعشایہ تین پانچ فیصد ہے اور اگر اسے گزشتہ مالی سال (جس کے شروع اور اختتام کے مہینے ہی انسان کو چکرادیتے ہیں ) کے پہلے نصف میں وصول ہونے والے محصولا ت کے مطابق جی ڈی پی کی شرح کے حساب سے دیکھیں تو یہ اعشاریہ تین چارسات فیصد ہوگا جو کہ گزشتہ حکومت کے اسی عرصے کے دوران لیے گئے قرض سے پنتس فیصد کم ہے۔

ٹی وی پر تین گھنٹے طویل پریس کانفرس سن کر بہت سے افراد نے اس طرح سر ہلایا جیسے سب کچھ سمجھ گئے ہوں۔ ان میں ساہیوال کے ایک گاؤں چک 5 / 14 پ س کا بشیرا مستری بھی شامل تھا۔

آخر بس رحیم یار خان پہنچ گئی۔ اس نے اٹھنا چاہا لیکن کنڈکٹر نے اسے ہاتھ کے درشت اشارے سے منع کیا۔ جب سب مسافر اتر گئے تو اس نے فاتحانہ انداز میں اس کی طرف دیکھا اور جھک کر ایک سیٹ کے نیچے کچھ ٹٹولا۔

”شناختی کارڈ کے مطابق تمہارا نام ظفرہے، اصل نام کیا ہے؟“
”یہی ہے“ ظفر نے جواب دیا۔

کنڈکٹر نے ہر سیٹ کے نیچے ایک خانہ اس طرح بنایا ہوا تھا کہ وہاں ایک کتاب فٹ ہو جاتی تھی۔ اس کے اوپر اس نے گتے کا کور اسی رنگ کی ٹیپ سے چپکا دیا تھا۔ اس طرح پچاس سیٹوں کے نیچے اتنی ہی کتابیں کراچی سے پنجاب پہنچ چکی تھیں۔

اصل امتحان اب شروع ہوا تھا۔

یہاں سے لاہور تک کے سفر کو زندگی اور موت کا تو نہیں البتہ زندگی اور ذلالت کا سفر ضرور کہہ سکتے ہیں۔ بس میں کتابیں لے جانا ناممکن تھا۔ وہ کچھ انڈر ورلڈ شکروں کو جانتا تھا۔ ان میں سے ایک کو فون کیا۔

”پہنچ کہاں لینی ہے اور مال کیا ہے؟“
”کتابیں ہیں“

”اڑے بابا۔ یہ نہیں ہونے کا۔ کچھ اور بولو۔ کڑوا پانی، پاؤڈر، گردا، ہتھیار، سب چلتا ہے لیکن کتاب کون جانے دے گا لاہور تک؟“

”کچھ کرو پلیز۔ کراچی سے آ رہا ہوں۔“
”مال زیادہ خطرناک تو نہیں؟“
” نہیں، غالب کی شاعری اور شیکسپیئر کے ڈراموں کا اردو ترجمہ اور کچھ ناول ہیں۔“
”یہ گالب کون ہے؟ لیگ کا تو نہیں؟ اور شیخ پیر کا کیا ڈرامہ ہے؟“
کرایہ طے ہوگیا۔
”ٹھیک ہے، پتہ بتاؤ۔ میرا آدمی آکر تمہیں لے جائے گا۔“

باس نے آدمی بھیج دیا لیکن دل پر بوجھ محسوس ہورہا تھا۔ جرائم میں پوری زندگی گزار دی تھی۔ قتل، ڈاکے، منشیات۔ کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن آج دل کی کیفت کچھ مختلف تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ دل کا بہت برا نہیں ہے۔ ایک نظر دیوار پر لگی اپنے مرشد کی گلابوں میں لدی تصویر پر پڑی۔ آنکھیں بھر آئیں۔ دیکھو، اس وطن نے تمہیں کیا کچھ نہیں دیا۔ ایک دن قبر میں جانا ہے اور اس نے فون نکال کر ایک نمبر ملا دیا۔

ظفر کتابیں لے کر وہاں پہنچا ہی تھا کہ محکمے نے چاروں طرف سے گھیراؤ کر لیا۔ افسر نے ڈان کو سینے سے لگا کر ماتھا چوما۔ فرط جذبات سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔

” آج تم نے مٹی کا قرض ادا کر دیا ہے۔“ افسر نے کہا اور ڈان نے الماری سے بلیک لیبل نکال کر اس کے سامنے رکھ دی۔ افسر پیتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ خدا جانے جرم کی اس دلدل میں دھنسے لوگ کب نکلیں گے؟ معاشرہ کب ٹھیک ہوگا؟ اس کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کی طرف معانی خیز نظروں سے دیکھا اور زمرد رانی کے گھر کی طرف چل دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments