کورونا وائرس: انڈیا کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے وجوہات کو تسلیم کرنے پر تیار کیوں نہیں ہے؟


کووڈ جانچ

جون کے اوائل میں 45 سالہ راجیش کمار نے کھانسنا شروع کر دیا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں انھیں تیز بخار رہنے لگا۔

انھوں نے کورونا وائرس کا ٹیسٹ نہیں کرایا۔ اس کے بجائے انھوں نے پانچ دنوں تک بخار سے نجات حاصل کرنے والی دوا لی۔ لیکن بخار برقرار رہا، اور جلد ہی انھیں سانس لینے میں دشواری بھی ہونے لگی۔

ان کے اہل خانہ نے انھیں ٹیسٹ کرانے کے لیے کہا لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ ان کی عقلی دلیل یہ تھی کہ انھیں کووڈ 19 نہیں ہو سکتا کیونکہ انھوں نے بہ مشکل دہلی میں اپنے گھر سے باہر قدم نکالا ہو گا، یا ایسے شخص سے ملے ہوں جنھیں یہ وائرس رہا ہو یا اس کا شبہ بھی رہا ہو۔

پہلی علامات کے ظاہر ہونے کے آٹھ دنوں کے بعد ان کی حالت خراب ہونے لگی۔ انھیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی کورونا کے ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آئی۔

انھوں نے کہا: ‘میں زندہ بچ گیا، لیکن ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ ہسپتال میں داخل ہونے میں مزید تاخیر سے میری جان جانے کا خطرہ تھا۔’

یہ بھی پڑھیے

کیا جون جولائی میں کورونا وائرس انڈیا میں تباہی مچانے والا ہے؟

انڈیا کے ‘اتائی ڈاکٹر’ کیسے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں دیہات کو محفوظ رکھ رہے ہیں

جب ایک ڈاکٹر کو اپنے ساتھی کی قبر خود کھودنی پڑی

مسٹر کمار اپنے انفیکشن کے ذریعے کو جاننے کے قابل نہیں ہیں اور اب بھی انھیں اس بات پر حیرت ہے کہ وہ اس کی زد میں کیسے آئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بہت سارے معاملات سامنے آئے ہیں۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا میں وائرس ‘پوری طرح سے’ سماجی طور پر پھیل گيا ہے۔

کورونا

انڈیا کے ہیلتھ کیئر نظام کو وبائی مرض کے خلاف مشکلات کا سامنا رہا ہے

لیکن حکومت یہ قبول کرنے سے انکار کرتی ہے کہ وائرس کا کمیونٹی کی سطح پر پھیلاؤ شروع ہو چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس اصطلاح کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں ہے اور ہر ملک مقامی حالات کی بنیاد پر اس کی وضاحت کرسکتا ہے۔

ابھی تک کیرالہ اور مغربی بنگال واحد دو ریاستیں ہیں جنھوں نے یہ قبول کیا ہے کہ وہ اس مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ لیکن اس موضوع پر عالمی سمجھ آسان ہے کہ جب بڑی تعداد میں انفیکشن کے ذریعہ کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا ہے تو اس کی وضاحت کمیونٹی ٹرانسمیشن کے طور پر کی جا سکتی ہے۔

عالمی ادرہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی گائیڈ لاننز بھی یہی کہتی ہے کہ کمیونٹی ٹرانسمیشن کا ثبوت بڑی تعداد میں ایسے کیسز کا سامنے آنا ہے جس کے ذرائع کا پتہ نہیں لگایا جا سکے۔

دہلی کے سر گنگارام ہسپتال میں سینٹر فار چیسٹ سرجری کے چیئرمین ڈاکٹر اروند کمار کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ایسا واقعتاً ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مریض ہسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں جن کے انفیکشن کے ذرائع کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ نئے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی تائید کرتی ہے۔

انڈیا میں اب تک 13 لاکھ سے زیادہ کیسز اور 30 ہزار سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں ہیں۔

ڈاکٹر کمار کہتے ہیں: ‘یہ اعدادو شمار جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔ ایک ریاست کے بعد دوسری ریاست میں انفیکشن کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آپ کے سامنے جو صحیح ہے اس سے انکار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔’

رکشتہ ڈرائيور

انڈیا میں لوگوں کو ماسک پہننے پر زور دیا جا رہا ہے

لیکن حکومت اس سے متفق نہیں ہے۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) کے ایک اعلیٰ ڈاکٹر نے حال ہی میں اعتراف کیا کہ انڈیا کمیونٹی ٹرانسمیشن کے مرحلے میں ہے، لیکن آئی ایم اے نے دو دن بعد یہ کہتے ہوئے یہ بیان واپس لے لیا کہ یہ ڈاکٹر کی ‘ذاتی رائے’ ہے۔

اپنی بات سے پلٹ جانا حیران کن تھا۔

وائرس کے ماہر ڈاکٹر شاہد جمیل کہتے ہیں کہ حکومت کو ڈاکٹروں اور ماہرین کی بات سننی چاہیے اور شواہد کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ایک ماہ قبل کے مقابلے میں اب یہ وائرس زیادہ پھیل چکا ہے۔

آندھرا پردیش اور بہار جیسی مزید ریاستیں اور گنجان شہری علاقوں سے باہر مزید اضلاع میں اب کورونا کے کیسز میں اضافے کی اطلاعات ہیں۔

یہ ریاستیں بہت تیار نہیں تھیں کیونکہ انھوں نے زیادہ تر دوسری ریاستوں سے آنے والوں کی جانچ کرنے اور قرنطینہ کرنے پر بھروسہ کیا۔ اور انھوں نے مقامی طور پر اس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے خاطر خواہ مؤثر اقدام نہیں کیے۔

حتیٰ کہ پرانی حکمت عملی میں بھی نقائص تھے کیونکہ ریاستوں کے مابین غیر محفوظ سرحدوں کی پوری طرح نگرانی بھی ممکن نہیں۔ اور بہت ساری ریاستوں کے پاس اپنے علاقے میں داخل ہونے والے ہر شخص کو ٹریک کرنے اور جانچ کرنے کے ذرائع بھی نہیں ہیں۔

ماسک

انڈیا میں بہت سے شہروں میں لوگوں کو مفت ماسک تقسیم کیے جا رہے ہیں

ڈاکٹر جمیل کا مزید کہنا ہے کہ ایک ایسا احساس بھی تھا کہ یہ وائرس بڑے شہروں اور مخصوص ہاٹ سپاٹ والی ریاستوں میں ہی محدود کیا جا سکتا ہے تاکہ یہ ملک کے دوسرے حصوں تک پھیلنے سے رک جائے۔ انھوں نے کہا: ‘ایسا نہیں ہوا اور اب کووڈ 19 بغیر روک ٹوک پھیل رہا ہے۔’

وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور اکثر ٹرانسمیشن کے سلسلے کا کوئی سراغ نہیں چھوڑتا ہے۔

ڈاکٹر جمیل نے بتایا کہ حکومت کے اپنے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ 40 فیصد جواب دہندگان جنھیں سانس کی تکلیف تھی وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیسے بیمار ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے پاس کمیونٹی ٹرانسمیشن کی موجودگی کے وافر ثبوت ہیں۔’

لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ یہ راتوں رات نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کئی ہفتوں میں ہوا جب کہ حکومت اس کی تردید کرتی رہی۔ ڈاکٹر کمار کہتے ہیں: ‘ہم نے وبائی مرض کے ابتدائی مرحلے میں کمیونٹی ٹرانسمیشن کو مقامی شکل دی تھی۔ لیکن اب یہ پورے ملک میں پھیل گیا ہے اور یہ سب دیکھ سکتے ہیں۔’

انڈین حکومت اس بات کو قبول کرنے میں گریزاں کیوں ہے؟

جانچ

ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ ‘صرف اندازہ لگا سکتے ہیں’ کیونکہ حکومت نے اس معاملے پر زیادہ کچھ نہیں کہا ہے اور اپنے مؤقف کی تائید کے لیے اس نے اصطلاح کی کوئی سرکاری تعریف جاری نہیں کی ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت کمیونٹی ٹرانسمیشن کے وجود کو اپنی پالیسیوں کی ناکامی کے طور لیتی ہے۔

ڈاکٹر جمیل کا کہنا ہے کہ حکومت پر کمیونیٹی ٹرانسمیشن کا الزام نہیں عائد کیا جاسکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اعداد و شمار کے ساتھ زیادہ صادق رہنے کی ضرورت ہے اور سائنسی شواہد کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ انڈیا جیسے گنجان آباد ممالک میں اس طرح کے انتہائی متعدی وائرس کے کمیونٹی ٹرانسمیشن کا اکثر امکان رہتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انکار صرف دباؤ بڑھا دیتا ہے اور اس موضوع پر ایک غیر ضروری بحث کو جنم دیتا ہے۔

حکومت کے ساتھ کام کرنے والے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر للت کانت کا کہنا ہے کہ یہ بحث اب بے معنی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘ہمیں اپنی حکمت عملی کو بہتر بناتے رہنا ہے خواہ ہم اسے کمیونٹی ٹرانسمیشن کہیں یا نہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ‘انڈیا ایک بہت بڑا ملک ہے۔ آپ ایک ریاست میں وائرس پر قابو پا سکتے ہیں لیکن پھر دوسری ریاست میں یہ ابھر آئے گا۔ ہمیں زمینی حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔’

‘یہ بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے اور یہی کڑوی حقیقت ہے۔’

ہسپتال

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ‘بڑے پیمانے پر کمیونٹی ٹرانسمیشن کی صورت حال’ میں ‘انفرادی معاملات کی شناخت، رابطے کا سراغ لگانا اور قرنطینہ وغیرہ ضروری نہیں رہ جاتا۔’

لیکن کمیونٹی ٹرانسمیشن کو قبول کرنے میں پالیسی میں اہم تبدیلیوں کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ‘بڑے پیمانے پر کمیونٹی ٹرانسمیشن کی صورت حال’ میں ‘انفرادی معاملات کی شناخت، رابطے کا سراغ لگانا اور قرنطینہ وغیرہ ضروری نہیں رہ جاتا۔’

اس کے بجائے ممالک کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اعداد و شمار کے ذریعے وائرس کے جغرافیائی پھیلاؤ پر نظر رکھے اور اس کے مطابق صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کو بہتر بنائے۔

ڈاکٹر کانت کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ حکومت اس وقت پالیسی میں تبدیلی کا اعلان نہ کرنا چاہتی ہو۔

اس کی ممکنہ طور پر یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ وفاقی اور ریاست دونوں حکومتوں کو جانچ کے عمل کو بڑھانے اور پروٹوکولز کا پتہ لگانے میں مہینوں لگے ہیں۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ وبائی مرض انڈیا کے مختلف حصوں میں مختلف مراحل میں ہے جس کی وجہ سے اس پالیسی کو مکمل طور پر ختم کرنا مشکل ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘لیکن اس کے باوجود ان کی مستقل تردید کا جواز نہیں ہے۔ انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کا طویل مدتی ہدف کیا ہے یا کمیونٹی ٹرانسمیشن کی ان کی تعریف کیا ہے۔’

ڈاکٹر کانت کا کہنا ہے کہ عوام کو جاننے کا حق ہے اور حکومت کو اس کے متعلق شفاف ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp