بیٹوں سے خوفزدہ مائیں


پاکستان نوجوانوں کا ملک ہے اور نوجوان ماؤں کو مار رہے ہیں۔ کچھ ہی دن ہوئے ایک بزرگ اور غریب ماں احساس پروگرام سے ملنے والے 12 ہزار روپے مٹھی میں دبائے گھر جا رہی تھی کہ بیٹے نے یہ رقم چھین کر ماں کو قتل کر دیا۔ واقعہ معمولی نہیں۔ ماں اور بیٹے کی محبت پر ہزاروں سال سے لکھے گیت اور لوریاں جلانے جیسا سانحہ ہے۔ واقعہ نہیں ہمارے نوجوانوں کی نفسیات میں ایک بگاڑ کی نشاندہی سمجھیں۔ ایک اور ماں اپنے تعلیم یافتہ بیٹے کے ہاتھوں پٹ گئی۔

اس ویڈیو کو دیکھنے کے لئے مجھے جانے کیسے ہمت مجتمع کرنا پڑی۔ ماں کو فرش پر پٹخ کر بیٹا تھپڑ اور ٹھوکریں مار رہا تھا۔ گالیاں بھی بک رہا تھا۔ معلوم نہیں کہ جھگڑے میں بنیادی قصور ماں کا تھا یا بہو کا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی اپنی جنت کی اس طرح توہین کرے۔ بہت سال پہلے ایک واقعہ خود دیکھا۔ ہمارے گھر کے پاس ایک ریڑھا بان رہتا تھا۔ اس نے چند بھینسیں پال رکھی تھیں۔ شاید اس کی بوڑھی ماں کو دودھ کے لئے بالٹی لانے میں کچھ تاخیر ہوئی جس پر وہ بدبخت بھڑک اٹھا۔

ماں قریب آئی تو چند بھینس باندھنے والا ایک موٹا لکڑی کا کلا اس کی پنڈلی کے پاس زور سے مارا۔ بڑھیا ہائے کہتی ہوئی دوہری ہو گئی۔ اس کی ہائے ابھی تک تازہ چابک سا درد دیتی ہے۔ بظاہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ کے رویے میں فرق ختم ہو رہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ منفی رویے کا علاقہ کم ہونے کی بجائے مثبت اور احترام کی سوچ والی زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں اس بات پر گویا اتفاق ہے کہ 15 سے 24 برس کے افراد نوجوان کہلاتے ہیں۔

تخمینہ بتاتا ہے کہ 2030 ء تک دنیا میں نوجوانوں کی تعداد 1.3 ارب ہو جائے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قدر توانا آبادی کی وجہ سے ملک کا ہر شعبہ فعال اور چوکس ہوتا لیکن مقصد سے محروم نوجوان آبادی بڑی تیزی سے ریاست اور سماج پر بوجھ بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ نوجوان صرف اس صورت میں فعال انسانی سرمایے میں ڈھلتے ہیں جب ان کی طاقت کو کسی مقصد کے تحت بروئے کار آنے کا موقع دیا جائے۔ اندازہ لگائیں پاکستان کی 64 فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے جبکہ 29 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔

ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ 2050 ء تک پاکستان میں نوجوان آبادی بڑھنے کی شرح یہی رہے گی۔ نوجوان کسی ملک کی ترقی کا انجن ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ملک کی تقدیر بدلنے کی طاقت ہوتی ہے۔ یہ طاقت سماجی تخریب کی سرگرمیوں پر خرچ ہو گی تو زوال اور انحطاط کا عمل تیز ہو جائے گا۔ جانے کیوں اب تک امور نوجوانان کی وزارت سے لے کر سماجی اداروں تک نے اس طاقت کے بے قابو ہونے کا اندازہ نہیں کیا۔ پاکستان میں ہر قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعت نے نوجوانوں کے یوتھ ونگز بنا رکھے ہیں۔

بڑی جماعتوں نے طلباء تنظیمیں بھی بنائی ہیں۔ طلبا تنظیمیں اور یوتھ ونگز کا تاریخی جائزہ اسی نتیجے پر ختم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو تشدد کے ذریعے سماج میں نمایاں ہونے کی ترغیب اور تربیت دی جا رہی ہے۔ یہ ونگز اور طلباء تنظیمیں صحت مند کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ دوسری طرف اگر کوئی نوجوانوں کی شعوری تربیت کی کوشش کرے تو اسے غدار قرار دے کر پسپا کر دیا جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ادارے اپنے گہرے اور مضبوط اثرورسوخ کے باوجود ان الزامات کے شکار لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

سیاسی جماعتیں کچھ بھی جواز پیش کریں سچائی یہی ہے کہ نوجوانوں کو مقصد سے دور کرنے میں ان کا مجرمانہ کردار تاریخ نے محفوظ کر لیا ہے۔ میں دن کے وقت کچھ دیر سوشل میڈیا استعمال کرتا ہوں۔ ایک پڑھا لکھا نوجوان حیران کن طور پر وہی زبان استعمال کر رہا ہے جو وحشت کے مارے ناخواندہ افراد کا وطیرہ ہے ’عدم برداشت‘ اختلاف رائے کو جھگڑا بنانا اور گالم گلوچ عام ہے۔ سوشل میڈیا پر گینگ بنا کر لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔

بڑی تعداد مختلف جماعتوں کے میڈیا سیل کی پھیلائی معلومات کی مخالفت یا حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان اس وقت سرمائے کی شکل میں ڈھل سکتے ہیں جب انہیں تین سہولیات فراہم ہوں یعنی ایجوکیشن ’فائدہ بخش کام اور بامعنی مصروفیت۔ ریاست‘ سیاسی جماعتوں ’سماجی تنظیموں اور اداروں نے یہ بات کبھی سوچی نہیں اس لئے نوجوانوں کی انفرادیت منفی رویوں میں ڈھل رہی ہے۔ وہ معاشرے جو نوجوانوں کو ترقی کے عمل میں شریک کرنا چاہتے اپنی طاقت اور اس کے بعداز استعمال نتائج پر نظر رکھتے ہیں۔

سماج نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنی استعداد میں اضافے کے لئے کام کر سکیں‘ اپنی سماجی مہارتوں کو بہتر کریں ’اپنے رویے کو بہتر بنائیں۔ تعلیمی کامیابیوں میں اضافہ کریں خود انحصاری کا راستہ اپنائیں اور ذاتی استعداد میں اضافہ کریں۔ ایک طویل عرصے تک نوجوان کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہ تھے۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت نے پیپلز یوتھ انویسٹمنٹ سکیم متعارف کرائی۔ نواز شریف جواب میں پیلی ٹیکسی سکیم لے آئے۔

عمران خان کے ووٹر نوجوان ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے نوجوانوں کے لئے کامیاب جوان یوتھ ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کیا پھر ٹائیگر فورس بنائی۔ پہلا پروگرام کس مرحلے میں ہے اس کی خبر شاید کسی کے پاس نہیں۔ ٹائیگر فورس اپنے قیام کے بعد کام کی تلاش میں ہے۔ پہلے اسے کورونا میں مددگار اور پھر شجر کاری میں تعاون کے لئے تیار کیا گیا۔ کیا یوتھ پالیسی کی حدود اتنی ہی ہوتی ہیں‘ کیا کسی کو علم ہے کہ مائیں بیٹوں سے خوفزدہ رہنے لگی ہیں۔ کیا کوئی جانتا ہے نوجوان اپنی دیسی شناخت سے کاٹ دیے گئے ہیں۔ کیا کوئی ادراک رکھنا ہے کہ ہمارا انجن فیل ہوگیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments