امریکہ اور چین تصادم کی راہ پر


امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے گزشتہ ہفتے کے خطاب سے یہ آشکار ہوتا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان جاری مسابقت کا میدان اب معیشت اور سفارت کاری نہیں بلکہ بدترین تصادم کی شکل اختیار کر رہا ہے جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ پومپیو نے جو کچھ کہا اس نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکی صدر بش نے کہا تھا کہ دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ہمارے سا تھ ہے یا ہمارے دشمن کے۔ غالباً حالات اسی طرف لیکن بہت تیزی سے جار ہے ہیں۔ مائیک پومپیو کی حالیہ تقریر بہت ہی اشتعال انگیز اور تضحیک آمیز تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے خطرناک جھوٹ چین کے صدر شی جن پنگ کا یہ خواب ہے کہ’’ اکیسویں صدی چین کی صدی‘‘ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت انسانیت کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔ اگر ہم آزاد اکیسویں صدی چاہتے ہیں تو ہمیں چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو بدلنا ہوگا۔ ہم چین کے خواب کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔

پومپیو چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی آنکھ سے چین کو دیکھے اور اسے آزادی اورجمہوریت پسند اقوام کے لیے خطرہ تصور کرے۔ چین کے صدر شی جن پنگ پر پومپیو کے ذاتی اور رکیک حملوں نے مجھے یاد دلائی کچھ عرصہ پہلے تک امریکی پاکستانی لیڈرشپ کو بھی اسی طرح رگیدا کرتے تھے۔ پومپیو نے کہا کہ کمیونسٹ چین مارکسسٹ لیننسٹ ہے۔ صدر شی ایک جابرانہ نظریے کے علمبردار ہیں۔ وہ ہمارے طرز زندگی کے لیے ہی خطرہ نہیں بلکہ وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے لبرل عالمی نظام کو بے گھر کرنا چاہتے ہیں۔ صدر شی کے عزائم کا مقابلہ کرنا ہمارا مشن ہے۔ امریکی رہنماؤں کے چین بارے خیالات 1946 کے زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔

امریکی پالیسی سازوں اور سیاستدانوں نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ سوویت یونین امریکہ اور انفرادی آزادی پر مبنی عالمی سیاسی نظام کا دشمن ہے لہٰذا اسے عالمی نظام کا حریف قراردے کر اس کا مکو ٹھپنے کے لیے سردجنگ کے عنوان سے کئی دہائیوں پر محیط کشمکش برپا رہی۔ امریکہ نے برطانیہ کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا۔ برطانیہ کے حالیہ دورے میں مائیک پومپیو نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مغربی ممالک چین کے خطرہ کا ادراک کریں۔ برطانیہ نے امریکہ کی پیروی میں ہواوے کو جو دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی ہے کو دیس نکالا سنایا۔ اگرچہ یورپ کے دیگر ممالک نے ابھی تک امریکہ کی تقلید نہیں کی لیکن وہ بتدریج چین سے منہ موڑ ر ہے ہیں۔ بھارت پہلے ہی لداخ میں لگے زخم چاٹ رہا ہے۔

امریکہ اور چین کے تعلقات میں بگاڑ صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا لیکن کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے پر امریکہ نے موقع غنیمت جانا اور عالمی رائے عامہ کو چین کے خلاف ہموار کرنا شروع کردیا۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ وبا جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئی لیکن صدر ٹرمپ اسے چین کی لیبارٹریوں کی پیدوار قراردیتے ہیں۔ ہانگ کانگ اور سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، امریکہ کے خلاف سائبر وار اور دانشورانہ املاک کے راز چوری کرنے جیسے الزامات کی بنا پر نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے عہدے داران اور ان کے خاندانوں پر سفری پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔

بائیس جولائی کو ہیوسٹن میں چین کا قونصل خانہ بند کردیا گیا۔ الزام تھا کہ قونصل خانہ امریکی مفادات کے خلاف استعمال ہو رہا ہے اور جاسوسی میں ملوث ہے۔ اسی دن امریکہ نے چین کے چار میڈیا ہاؤسز کو چین کی حکومت سے وابستہ قراردے کر چلتا کردیا۔ جوابی طور پر چین نے بھی ایک امریکی قونصل خانہ بند کردیااور امریکی میڈیا کے بیجنگ میں مقیم نمائندوں کا عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا۔ امریکی سیاستدانوں کا چین کے بارے میں موجودہ رویہ الیکشن مہم کا حصہ بھی ہوسکتا ہے لیکن غالب امکان ہے کہ یہ کسی بڑے منصوبے پر عمل درآمد کا ابتدائیہ ہے۔

سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو aسلامی فوبیا اور سیاسی اسلام کے عنوان سے خطرہ کا ہوا کھڑے کرکے اس کا مقابلہ شروع کر دیا گیا۔ اس زمانے میں سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے تہذیبی کشمکش اور عالمی نظام کی تشکیل نوکے عنوان سے ایک شہرہ آفاق کتاب لکھی۔ انہوں نے بتایا کہ مغرب جس کا امام امریکہ ہے زوال پذیر تہذیب ہے۔ ایشیائی ممالک معاشی اور فوجی طاقت کے طور پر دنیا میں ابھریں گے اور مسلمان اپنی آبادی کی بنیاد پر مغرب کو چیلنج کریں گے لہذا مغرب کا ٹکراؤ چین اور مسلم دنیا سے ہوگا۔ مصنف نے اہل مغرب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی مغربی شناخت پر قائم رہیں۔ اسی بنیاد پر امریکہ اور یورپ متحد ہوکر غیر مغربی معاشروں کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ سرمایہ دارنہ نظام معیشت، شخصی آزادی اور جمہوریت انسانی فکر کے ارتقا کی معراج ہے۔ دنیا کو اس نظریہ کوقبول کرنا چاہیے کیونکہ یہ سچا ہے اور عالمی تہذیب کو معرض وجود میں لا سکتا ہے۔ ایسی عالمی تہذیب جس کی باگیں مغرب اور بالخصوص امریکہ کے ہاتھ میں ہوں۔ نوے کی دہائی کے بعد امریکہ میں ری پبلیکن پارٹی کی جب بھی حکومت رہی ہے وہ اسی سیاسی فکرمیں سے زیراثر نظر آئی۔ ٹرمپ بھی اسی نقطہ نظر کو لے کر سفید فام امریکی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ گمان گزرتا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے اس تھیوری کو من وعن قبول کرلیا ہے۔ عراق، لیبیا اور ایران کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ اسی سوچ کا غماز ہے۔ مسلمان ممالک میں معاشی ترقی یا متبادل سیاسی نظام پیش کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ چنانچہ چین کی معاشی ترقی اور فوجی طاقت میں مسلسل اضافے نے امریکہ کو اس سے صف آرا کر دیا۔ دنیا بدل رہی ہے اور خاص کر ہمارا خطہ۔ چین اورامریکہ جو کل تک تجارتی شراکت دار تھے اب بتدریج حریف نہیں بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت پاکستان اور بھارت کی شکل اختیار کررہی ہے۔ اگر چین اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی برقراررہی یا بڑھی تو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہونا فطری ہے۔ پاکستان نے گزشتہ کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات میں کامیابی سے توازن قائم رکھا۔ اب ایسا کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments