کراچی آپریشن: 1990 کی دہائی میں کراچی میں ہونے والے ’آپریشن بلیو فوکس‘ کی دل دہلا دینے والی داستان


کراچی آپریشن

انسانی لاش سے رسنے والے خون کے دھبے اُس کے ہاتھوں پر لگے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر اُس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات اُبھرے۔ پانچ میں سے تین لاشیں مردہ خانے کی سلیب پر رکھی تھیں اور دو سیڑھیوں کے پاس زمین پر۔

مردہ خانے کے دوسرے کونے میں لگے واش بیسن سے ہاتھ دھوتے وقت اُس نے بڑے اطمینان سے عملے کے رکُن سے پوچھا ’چاچا ، میرا ناشتہ لگا دیا؟‘ جواب میرے لیے سوال سے بھی زیادہ حیران کُن تھا۔ ’جی ، وہ رکھا ہے! آپ کے پیچھے۔‘

اب مجھ سے رہا نہیں گیا۔ ’تم یہاں ناشتہ کرو گے، مردہ خانے میں؟ ان لاشوں کی موجودگی میں؟‘ اب سوال کرنے کی باری اُس کی تھی۔

’کتنے دن ہوئے یہ کام کرتے ہوئے؟‘ یہی کوئی دو برس، میں نے جواب دیا۔
’تین برس اور کر لو۔ پھر یہیں تم بھی میرے ساتھ ناشتہ کر رہے ہو گے، لاشوں کے پاس۔ میری طرح تمہارے سینسز بھی ڈیمیج ہو جائیں گے۔‘

کراچی کے جناح ہسپتال کے میڈیکو لیگل آفیسر (ایم ایل او) کی بات مجھے کچھ غلط بھی نہیں لگی، آخر میں بھی تو اُن پانچ لاشوں کے درمیان تاثرات سے بالکل عاری کھڑا تھا۔

یہ پانچوں لاشیں گولیاں لگنے سے ہلاک ہونے والوں کی تھیں اور پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال لائی گئی تھیں۔ میں کراچی کے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے کرائم رپورٹر کے طور پر تفصیلات جاننے مردہ خانے پہنچا تھا۔

یہ سنہ 1992 میں شروع ہونے والے اُس ’آپریشن کلین اپ‘ کا اختتامی زمانہ تھا جس کا سرکاری نام ’آپریشن بلیو فوکس‘ رکھا گیا تھا، مگر یہ ’کراچی آپریشن‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اُس وقت تک کراچی اِتنی قتل و غارت اور لاشیں دیکھ چکا تھا کہ شاید ہم تمام اہلیان کراچی کے ’سینسز ڈیمیج‘ ہو چکے تھے۔

1990 کی اس پُرتشدد دہائی میں تب تک ڈاکٹرز، پولیس سرجنز اور رپورٹرز کے لیے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی کہ کوئی مردہ خانے میں ناشتہ کر رہا ہو۔

مگر پچیس برس تک یہ سب ہوتے دیکھنا اور اس کو رپورٹ کرنا کبھی آسان نہیں رہا۔

ذرا سا دل کڑا کیجیے تو میں آپ کو بھی اُسی پُرتشدد کراچی کی گلیوں میں لے چلوں، جہاں یہ آپریشن کیا گیا تھا۔

اِس کے لیے میری مدد کی اُس قتل و غارت اور اس کے گِرد گھومتی سیاست کی خبریں آپ تک پہنچاتے رہنے والے بہت سے صحافیوں، اس وقت فرائض انجام دینے والے رینجرز اور پولیس افسروں، کئی مقتولین کے اہلِخانہ اور آپریشن کا جائزہ لینے والے تجزیہ کاروں نے۔

نواز شریف اور الطاف حسین

24 اکتوبر 1990 کے انتخابات ہوئے تو نواز شریف کی قیادت میں مرکز میں ‘اسلامی جمہوری اتحاد’ نے حیران کُن کامیابی حاصل کی اور کراچی سے کامیاب ہونے والی مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے نواز شریف کی حکومت میں شمولیت اختیار کی

’آپریشن بلیو فوکس‘

کہانی کا آغاز کیا سینیئر صحافی اور ممتاز تجزیہ کار مظہر عباس نے جو اب پاکستان کے نجی نیوز چینل ’جیو‘ سے وابستہ ہیں۔

24 اکتوبر 1990 کے انتخابات ہوئے تو نواز شریف کی قیادت میں مرکز میں ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ نے حیران کُن کامیابی حاصل کی اور کراچی سے کامیاب ہونے والی مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے نواز شریف کی حکومت میں شمولیت اختیار کی۔

آج ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر ڈپٹی کنوینر عامر خان اور ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد، دونوں اس وقت الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ کی جوائنٹ سیکریٹری تھے۔ دونوں کو الطاف حسین اپنا ’دایاں اور بایاں بازو‘ قرار دیتے تھے۔

ایم کیو ایم نے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو دو زونز میں تقسیم کر رکھا تھا۔

مغربی اور وسطی ضلعے پر مشتمل علاقوں کے ذمہ دار عامر خان تھے جبکہ مشرقی اور جنوبی اضلاع کی ذمہ داری آفاق احمد کے سپرد تھی۔

پھر خبریں آنا شروع ہوئیں کہ یونٹ اور سیکٹر کے ذریعے علاقہ کنٹرول کرنے کی سیاست ہو رہی ہے اور بھتے وصول کیے جا رہے ہیں اور الطاف حسین ان شکایات پر آفاق احمد اور عامر خان کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

سنہ 1991 میں عامر خان اور آفاق احمد کو تنظیم سے خارج کر دیا گیا اور سارا تنظیمی ڈھانچہ توڑ دیا گیا، یونٹ اور سیکٹرز تحلیل کر کے سینکڑوں کارکنوں کی تنظیمی رکنیت معطل کر دی گئی۔

عامر خان، آفاق احمد اور ایم کیو ایم سے نکالے جانے والے اُن کے کئی حامی شہر سے چلے گئے یا روپوش ہو گئے۔ ایم کیو ایم کا موقف تھا کہ انھوں نے جرائم پیشہ عناصر کو تنظیم سے نکال دیا ہے۔

اب ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد اُس وقت کی صورتحال کے اس تجزیے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔

کراچی آپریشن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے آفاق احمد نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کو تو خود الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی حمایت حاصل تھی۔

’اگر آپ کو یاد ہو تو اس سلسلے میں ایک اجلاس میں ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت یعنی چیئرمین عظیم احمد طارق، جنرل سیکریٹری عمران فاروق اور وائس چیئرمین سلیم شہزاد تینوں موجود تھے۔ ایم کیو ایم نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کی حمایت کی۔‘

آفاق احمد کے بقول ’پھر فوج کے اس وقت کے سربراہ اسلم بیگ سے الطاف حسین کی ملاقات ہوئی تو مجھے لگا کہ سارے معاملات پہلے سے طے شدہ تھے۔

’اس ملاقات میں ایم کیو ایم سے فرمائش کی گئی کہ جناب آپ قومی دھارے کی سیاست کیجیے، الطاف حسین نے کہا کہ ہمارے پاس اتنے وسائل کہاں؟ تو جنرل بیگ نے یونس حبیب کو وسائل کا انتظام کرنے کو کہا اور جب وسائل کا انتظام ہو گیا تو الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ بنانے کی تیاریاں ہوئیں۔‘

آفاقی احمد بتاتے ہیں کہ ’اُس وقت ہمارا (میرا اور عامر خان کا) اس بات پر اختلاف ہوا کہ ہم تو مہاجر سیاست کرنے آئے تھے اگر آپ قومی دھارے کی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور مہاجر لفظ سے دستبردار ہوں گے تو ہم تو پھر نہ یہ سیاست کریں گے نہ آپ کا ساتھ دیں گے اور یوں ہم ان سے علیحدہ ہو گئے۔‘

کہانی اور آگے تب بڑھی جب جنرل آصف نواز فوج کے سربراہ بنے تو خبریں آنے لگیں کہ سندھ میں ڈاکوؤں، پتھاریداروں، جرائم پیشہ عناصر خصوصاً اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے ’72 بڑی مچھلیوں‘ کے خلاف آپریشن ہونے والا ہے اور 28 مئی 1992 کو آپریشن بلیو فوکس شروع کر دیا گیا، جسے کراچی آپریشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

کراچی

جنرل آصف نواز فوج کے سربراہ بنے تو خبریں آنے لگیں کہ سندھ میں ڈاکوؤں، پتھاریداروں، جرائم پیشہ عناصر خصوصاً اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے ’72 بڑی مچھلیوں’ کے خلاف آپریشن ہونے والا ہے

کراچی آپریشن 19 جون 1992 کو شروع ہوا اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کی حمایت خود ایم کیو ایم نے بھی کی۔

لیکن جب آفاق احمد اور عامر خان واپس آئے اور ایم کیو ایم کو اندازہ ہوا کے اُن کو ہدف بنا لیا گیا ہے تو معاملے نے دوسرا رخ اختیار کیا۔

آفاق احمد اور عامر خان کی قیادت میں بنائی جانے والی ’ایم کیو ایم حقیقی‘ کے لیے ریاست کی جانب سے کھلی حمایت اور الطاف حسین کی تنظیم کے خلاف یکطرفہ کارروائی سے خود ریاست کے اداروں میں اختلافات ابھرنے لگے۔

ایم کیو ایم نے اپنے خلاف ’یکطرفہ‘ کارروائی کی بنیاد پر احتجاجاً حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی اور آپریشن کلین اپ سیاست کی نذر ہو گیا۔

اسی دوران جام صادق کے انتقال پر نئے وزیر اعلیٰ کی تلاش شروع ہوئی اور ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

جو ماحول آپریشن سے قبل الطاف حسین کی تنظیم کے خلاف بنا ہوا تھا وہ یکطرفہ کارروائی سے متاثر ہوا اور ایم کیو ایم سیاسی طور پر مظلوم نظر آنے لگی۔

ذرائع ابلاغ میں بحث شروع ہو گئی کہ اگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کرنا تھا تو ایم کیو ایم حقیقی کیوں بنائی گئی؟ یہ تو وہی جرائم پیشہ عناصر ہیں جن کے خلاف یہ کارروائی شروع ہوئی تھی اور اس بحث میں آپریشن اپنی سمت کھو بیٹھا۔

پاکستان سے ترک وطن کر جانے والے سندھ پولیس کے ایک سابق افسر نے کہا کہ ’جب آپ ایک گینگسٹر کو ختم کرنے کے لیے دوسرے کو لاتے ہیں تو اصل مقصد پیچھے رہ جاتا ہے، کراچی آپریشن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔‘

’دی نیوز‘ کے سابق چیف رپورٹر ضرار خان نے کہا ’ہم نے دیکھا کہ فوج کے ٹرکوں پر ایسے افراد علاقوں میں لائے گئے جو پہلے مفرور تھے اور بعد میں ایم کیو ایم حقیقی کی افرادی قوت بنے۔ الطاف حسین کی تصاویر اور پوسٹرز، سائن بورڈز طرز کی بڑی بڑی ہورڈنگز اور قد آور تصاویر پر کالک ملی گئی اور جوتوں کے ہار لٹکائے گئے۔‘

ایم کیو ایم کے کارکنوں کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ملوایا گیا اور یہ زیر حراست افراد ’رٹّو طوطوں‘ کی طرح ’جرائم کا اعتراف‘ کرتے دکھائی دیے۔

ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد کہتے ہیں کہ ’یہ بالکل بیہودہ بات ہے کہ ہمیں سپورٹ یا مدد حاصل تھی۔‘

’الطاف حسین سے اختلافات کے بعد ہمارے خاندان کراچی بھر میں بے یار و مددگار تھے۔ ہمارے گھر جلائے جا رہے تھے اور ہم مزید باہر نہیں رہ سکتے تھے تو ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ ہم تمام معتوبین اور مخالفین مل کر واپس آئے۔‘

’ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم رات کو آئے مگر طے تھا کہ تمام کارکنان ساتھ آئیں گے اور اگر ہمارے مخالفین علاقوں میں ہوں گے تو ان کو ٹریپ کریں گے اور کیا ہم نے واپس آ کر انھیں ٹریپ۔‘

’جب ہم آ گئے تو عام لوگوں کا حوصلہ بھی بڑھ گیا اور کارکنان اور عام لوگوں نے ایم کیو ایم کے خلاف اپنے جذبات و ناراضی کا کھل کر اظہار کیا۔ ہم تو بہت کم تعداد میں تھے جو غصہ ایم کیو ایم کے خلاف سڑکوں پر نظر آیا وہ تو عوام کا اظہار تھا۔‘

ہیرالڈ (ڈان گروپ آف نیوز پیپرز کا انگریزی جریدہ) نے لکھا کہ جب صورتحال بگڑی تو خود ایم کیو ایم کی قیادت نے فوج کو بلوایا کہ عوام بہت مشتعل ہیں، نائن زیرو (ایم کیو ایم ہیڈ کوارٹر) پر حملہ کر سکتے ہیں فوج کو بھیجیں۔

الطاف

آفاق احمد اور عامر خان کی قیادت میں بنائی جانے والی ‘ایم کیو ایم حقیقی’ کے لیے ریاست کی جانب سے کھلی حمایت اور الطاف حسین کی تنظیم کے خلاف یکطرفہ کارروائی سے خود ریاست کے اداروں میں اختلافات ابھرنے لگے

آفاق نے وضاحت کی ’ہمیں کسی کی کوئی مدد نہیں تھی اور نہ مل سکی بلکہ ہمارا تو نقصان ہو گیا۔‘

ضرار خان نے کہا کہ آئی ایس پی آر نے ایک روز صحافیوں کو جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) کراچی میجر جنرل سلیم حیدر سے ملوایا تو انھوں (ضرار) نے سوال کیا کہ اب تک تو ہم صحافیوں کو مبینہ طور پر ایم کیو ایم کے صرف چار ’ٹارچر سیل‘ (مخالفین کو اغوا کرکے اذیت دینے کے مراکز یا عقوبت خانے) معلوم تھے جن میں ایک مہاجر خیل لانڈھی، دوسرا سیفی پولی ٹیکنیک کالج نارتھ ناظم آباد کے قریب، تیسرا لیبر سکوائر بلدیہ ٹاؤن میں اور چوتھا لائنز ایریا کے علاقے ٹیونیشیا لائنز میں بتایا جاتا تھا، مگر آپ تو دعویٰ کر رہے ہیں کہ شہر میں 52 ٹارچر سیل تھے۔ آپ نے تو گھروں کی چھتوں کو بھی ٹارچر سیل قرار دے دیا، رسیاں بھی دکھا دیں، یہ تو آپ جن پر الزام لگا رہے ہیں انہی کو مظلوم بھی بنا رہے ہیں یہ تو ’کاؤنٹر پروڈکٹِیو‘ ہو جائے گا، اور ہوا بھی یہی۔‘

آپریشن اور گرفتاریوں کے پیش نظر ایم کیو ایم کی قیادت روپوش ہو گئی اور پانچ چھ ماہ بعد ایم کیو ایم کے روپوش چئیرمین عظیم احمد طارق منظر عام پر آئے۔

مظہر عباس نے کہا کہ ’جب عظیم طارق پریس کانفرنس کرتے تھے تو وہاں کچھ انٹیلیجینس کے لوگ بھی دکھائی دیتے تھے۔ شاید حکام امید کر رہے تھے کہ ایم کیو ایم کی قیادت عظیم احمد طارق کے ہاتھ میں آ جائے گی۔

’اپنی آخری پریس کانفرنس میں انھوں نے الطاف حسین پر کافی تنقید کی۔ ایک یا شاید دو دن بعد ہی عظیم طارق کو ان ہی کی رہائش گاہ پر قتل کر دیا گیا۔‘

’شک تو ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم پر ہی گیا۔ لیکن ایم کیو ایم نے واضح طور پر الزام خفیہ اداروں پر عائد کیا کہ انھوں نے عظیم طارق کو مار دیا تاکہ آپریشن کے نام پر ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی تیز کر دی جائے۔‘

’مگر بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ کیونکہ وہ پریس کانفرنس میں بہت تنقید کر چکے تھے الطاف حسین کے خلاف اور انھوں نے ایم کیو ایم کی قیادت کی مرضی کے خلاف روپوشی ختم کی تھی تو ایم کیو ایم کے اندر یہ خدشات بھی تھے کہ انھوں نے ریاستی اداروں سے ساز باز کر لی ہے اور یہی وجہ بنی ان کے قتل کی۔ یعنی عظیم طارق کے قتل پر مختلف حلقوں کی رائے مختلف تھی۔‘

آفاق احمد نے بھی اس قتل کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو قرار دیا۔

’عظیم بھائی مجھ سے رابطے میں تھے۔ آخری پریس کانفرنس کے بعد مجھے عظیم بھائی کی سلامتی کی فکر ہوئی، میں نے ان سے کہا کہ فیڈرل بی ایریا سے نکلیں مگر انھوں نے کہا کہ میں نے اپنا انتظام کر لیا ہے لیکن انھیں قتل کر دیا گیا۔‘

’جب میں وہاں پہنچا تو جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) کراچی میجر جنرل سلیم حیدر نے مجھے بتایا کہ عظیم طارق نے ان سے کہا تھا سکیورٹی کا انتظام کرنے کے لیے اور ہم اُن کو سکیورٹی دینے کے انتظامات کر ہی رہے تھے کہ انھیں قتل کر دیا گیا۔‘

کراچی کے ایک سابق پولیس افسر نے جو اب پاکستان میں نہیں رہتے یاد دلایا کہ ’عظیم طارق کے قتل کے بھی تین ملزمان گرفتار ہوئے اور پھر ضمانت پر رہائی کے بعد ان تینوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔‘

مظہر عباس نے کہا ’ان قاتلوں کو کس نے مارا، یہ کبھی معلوم نہیں ہو سکا۔ مگر اس کے بعد آپریشن کریڈیبیلیٹی (معتبریت) کھو بیٹھا۔‘

سنہ 1993 میں صدر غلام اسحاق خان سے کشیدگی اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر نواز شریف کی حکومت برطرف ہوئی اور پھر عدالت سے بحال بھی ہوئی مگر بالآخر جنرل وحید کاکڑ کے زمانے میں نواز شریف اور غلام اسحاق خان دونوں کو جانا پڑا۔

ایم کیو ایم

آفاق احمد نے کہا کہ عام آدمی کو تو زیادہ قتل کیا گیا، باقاعدہ لہر چلتی تھی کہ بھئی آج جو لوگ مرے وہ پٹھان تھے، یا سنّی تھے، یا شیعہ تھے، بس سب مر رہے تھے

نئے انتخابات کے نتیجے میں جب بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی دوسری بار اقتدار میں آئی تب تک شہر میں خوف و دہشت کا راج قائم ہو چکا تھا۔

کراچی آپریشن کے نگرانوں میں شامل رہنے والے رینجرز کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ ’عجیب ماحول تھا۔ نامعلوم افراد پورے شہر پر راج کر رہے تھے۔ پورا شہر بدترین تشدد کی لپیٹ میں تھا۔ مختلف علاقوں میں قتل و غارت میں ملوث ان عناصر کو مکمل پشت پناہی اور مدد ملتی تھی یا پھر ان دہشتگردوں کا خوف ایسا تھا کہ پوری پوری آبادی خاموشی سے یہ قتل و غارت دیکھتی رہتی تھی۔‘

کراچی کے شہری بتاتے ہیں کہ کئی علاقوں میں ٹارچر سیل تھے، مخالفین کا اغوا اور قتل ہوتا، ان کی لاشوں کو عبرت بنا کر بوری میں بند کر کے پھینک دیا جاتا تھا، زندہ انسانوں کے گھٹنوں میں ڈرل مشین سے سوراخ کیے جاتے، کھمبوں سے لٹکا کر ان کو زندہ اور مردہ حالت میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا تھا، جسم کو آری، ہتھوڑے اور چھینی سے کاٹنا، ہاتھ پاؤں میں کیلیں ٹھونک دینا، گلے کاٹ دینا، زبان کی بنیاد پر شناخت کر کے لوگوں کو بسوں سے اتار کر مار دیا جانا سب کچھ روز کا معمول ہوتا تھا۔

آفتاب صدیقی تب کراچی کے شہری تھے اور اب شمالی لندن میں مقیم ہیں۔ آپریشن کے تناظر میں شہر کی بدامنی اور قتل و غارت کا ماحول بتاتے ہوئے انھوں نے اس وقت کراچی کے عام شہری کی زندگی میں اس خوف کی فضا کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔

’شہر میں اسلحے کی بھرمار اور مسلح گروہوں کی حکمرانی تھی۔ ریاست کی عملداری تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ پورا شہر یرغمال تھا۔ ہسپتالوں اور خیراتی اداروں تک میں سیاسی طور پر متحرک مسلح گروہ اور جتھے سرایت کر چکے تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’حکام قتل و غارت میں ملوث عناصر سے شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام دکھائی دے رہے تھے۔ اور دیتے بھی کیسے؟ جس شہر میں فوج کے افسر میجر کلیم کو اغوا کیا جاتا ہو، پولیس افسران گھر سے تھانے اور تھانے سے گھر جاتے ہوئے وردی نہ پہن سکتے ہوں کہ کوئی مار دے گا، یعنی جہاں عام شہری کو جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ دینے کے ذمہ دار ادارے اپنا تحفظ نہ کر پا رہے ہوں وہاں کیا تعجب کی بات تھی کہ سیاسی کارکنوں کے قتل و غارت کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بس سے اتار کر زبان کی بنیاد پر شناخت کر کے قتل کیا جا رہا ہو، کام پر جاتے مزدور ہوں یا بچوں کو سکول لے جانے والے والدین کوئی زندہ گھر واپس نہ آتا ہو، جہاں ساس بہو اور نند بھاوج کے جھگڑے تک سیاسی دفاتر میں نمٹائے جاتے ہوں وہاں ان عناصر کو بغیر کسی فوجی آپریشن کے کیسے قابو کیا جا سکتا تھا۔‘

انھوں نے کہا ’بلاشبہ ہزاروں عام شہری اس قتل و غارت کی نذر ہوئے۔‘

اس زمانے کے کراچی کی رہائشی بتاتے ہیں کہ ان مسلح سیاسی جماعتوں کی صحیح و غلط ہر بات سے صرفِ نظر کر لینے کی اسی ریاستی روش نے ان تنظیموں کی ایسی حوصلہ افزائی کی کہ پھر ان جماعتوں کی قیادت کے لیے تنقید یا سیاسی مخالفت ایسا ’گناہ‘ بن گئی جس کی ’کم سے کم سزا موت‘ قرار پائی۔

حکام، صحافیوں اور سرکاری شخصیات و افسران کے اندازے کے مطابق صرف ایم کیو ایم اور حقیقی کے مسلح تصادم میں ہزاروں لوگ، جن میں اکثریت سیاسی کارکنوں کی تھی، جان سے گئے۔

آفاق احمد کہتے ہیں کہ ’ہمارا تنظیمی ریکارڈ گواہ ہے کہ صرف ہمارے اپنے 432 کے لگ بھگ کارکنان شہید ہوئے۔ مجھے الطاف حسین کی تنظیم کو پہنچنے والے جانی نقصان کا نہیں پتا۔‘

ایدھی فاؤنڈیشن کا ریکارڈ کہتا ہے ہزاروں ’لاوارث لاشیں‘ تو انھوں نے دفنائیں۔ شہر میں عام لوگوں کو بھی بے دریغ قتل کیا گیا۔ وہ لوگ قتل ہوئے جو باہر سے روزگار کمانے کراچی آئے تھے، ان کے تو لواحقین بھی یہاں نہیں تھے بے چارے لاوارث قرار دے کر دفنائے گئے۔

اس سوال پر کہ کس نے کس کو کیوں مارا؟ آفاق احمد نے کہا کہ عام آدمی کو تو زیادہ قتل کیا گیا، باقاعدہ لہر چلتی تھی کہ بھئی آج جو لوگ مرے وہ پٹھان تھے، یا سنّی تھے، یا شیعہ تھے، بس سب مر رہے تھے۔

جب آفاق احمد سے پوچھا گیا کہ اس قتل و غارت کا ذمہ دار وہ کسے سمجھتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’غیر ملکی طاقتیں بھی کار فرما تھیں، کوئی تھا جو کراچی کو مسلسل مفلوج رکھنا چاہتا تھا، بھارت اور امریکہ کو بھی آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp