کورونا وائرس: ویکسین کی تلاش سے متعلق جھوٹے اور گمراہ کن دعوؤں کی حقیقت


کورونا وائرس ویکسین سے متعلق آکسفورڈ یونیورسٹی کے حوصلہ افزا نتائج کا اعلان کرنے کے دو ہفتے بعد، ویکسین اور ان کی حفاظت کے بارے میں سوشل میڈیا پر جھوٹے اور گمراہ کن دعوے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں ویکسین کے خلاف چلائی جانے والی تحریک، آن لائن پلیٹ فارمز پر خاصی شہرت حاصل کر چکی ہے اور ویکسینیشن کے خلاف مہم چلانے والوں نے اب اپنی ساری توجہ کورونا وائرس سے متعلق گمراہ کن دعوے پھیلانے کے لیے وقف کر دی ہے۔

ویکسین کے ڈی این اے پر اثرات سے متلعق دعوے

اس سلسلے میں سب سے پہلے، آسٹیوپیتھ کیری مادیج کی کورونا وائرس ویکسین ٹرائلز کے بارے میں غلط دعوؤں پر مبنی ایک ویڈیو، سوشل میڈیا پر مقبول ہوئی ہے۔

ان کی ویڈیو میں غلط دعوی کیا گیا ہے کہ یہ ویکسین لینے والے کے ڈی این اے (جس میں جینیاتی معلومات موجود ہوتی ہیں) کو تبدیل کردے گی۔

’کووڈ 19 ویکسین ہمیں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیاتیات میں شامل کرنے کے مقصد سے تیار کی گئی ہیں۔‘

ویکسین

وہ بغیر کسی ثبوت کے یہ دعویٰ بھی کرتی ہیں کہ ویکسینز ’ہم سب کو مصنوعی ذہانت والے انٹرفیس کا عادی بنا دے گی۔‘

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 25 ویکسینز کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے میں ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی انسانی ڈی این اے کو تبدیل نہیں کرے گی نیز یہ کہ ان میں لوگوں کو مصنوعی ذہانت کے انٹرفیس سے جوڑنے کے لیے ٹیکنالوجی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

یہ ویکسینز، ہمارے جسموں کو وائرس کو پہچاننے اور ان سے لڑنے کی تربیت دے کر مدافعتی ردعمل پیدا کرنے کے لیے تیار کی گئی ہیں۔

کیری میڈیج متعدد کئی اور جھوٹے دعوے بھی کرتی ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ ویکسین کے ٹرائلز ’کسی محفوظ سائنسی پروٹوکول کی پیروی نہیں کررہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ ویکسین محفوظ ہے۔‘

کورونا بینر

’میں آکسفورڈ کی کورونا ویکسین کے تجربے کا حصہ ہوں‘

کورونا وائرس: آکسفورڈ ویکسین ٹرائل کے نتائج حوصلہ افزا

کورونا وائرس اور آن لائن پھیلنے والی غلط معلومات

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

کورونا وائرس کی نئی قسم کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟


بی بی سی آن لائن صحت کی ایڈیٹر، مشیل رابرٹس کا کہنا ہے کہ ’نئی ویکسینز کو بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کی سفارش سے قبل، انھیں سخت حفاظتی جانچ پڑتال کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔‘

ہم نے ان دعوؤں کے بارے میں کیری مادیج کا موقف لینے کی کوشش کی، لیکن ہمیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ویڈیو کہاں کہاں شیئر کی گئی ہے؟

ویکسین

اس ویڈیو کو سب سے پہلے جون میں یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا تھا، جہاں اسے تین لاکھ سے زیادہ صارفین نے دیکھا، لیکن یہ فیس بک اور انسٹاگرام پر بھی مشہور ہے۔

یہ اب بھی امریکہ، برطانیہ کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں پھیل رہی ہے۔

جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والی ایک سائنس دان، سارہ ڈاؤنز جو ’مسٹریس آف سائنس‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں، کی والدہ نے انھیں اس ویڈیو کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

سارہ کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ کی دعائیہ جماعت نے اس ویڈیو کو ان سے شیئر کیا تھا۔

سارہ نے اس ویڈیو میں شئیر کی گئی غلط معلومات کی حقیقت والدہ کی دعائیہ جماعت کو بھجوا دیں۔ وہ کہتی ہیں ’اب وہ زیادہ بہتر طور پر آگاہ ہو چکے ہیں، جس کی مجھے بے حد خوشی ہے کیونکہ انھوں نے اس ویڈیو میں بیان کی گئی باتوں پر یقین کر لیا تھا۔‘

ویکسین ٹرائلز کی رفتار سے متعلق دعوے

ویکسین

جب پیر کو آکسفورڈ کورونا ویکسین کے ابتدائی نتائج شائع ہوئے تو کورونا وائرس سے متعلق فیس بک گروپس میں اس موضوع پر کافی بحث و مباحثہ ہوا۔

کچھ فیس بک صارفین نے ایسے تبصرے شائع کیے جن میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ ویکسین نہیں چاہیے کیونکہ انھیں لگا کہ ’لیبارٹری کے آزمائشی چوہوں‘ کے طور پر ان کا استعمال کیا جائے گا اور یہ کہ جان بوجھ کر ’اس ویکسین کو تیز رفتاری سے پیداواری صلاحیت تک پہنچایا گیا ہے۔‘

اگرچہ ویکسین کی تیاری میں تیزی کو مدِنظر رکھتے ہوئے حفاظت کے بارے میں خدشات لاحق ہوسکتے ہیں، لیکن آکسفورڈ ویکسین گروپ کے سربراہ پروفیسر اینڈریو پولارڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ کلینیکل ٹرائلز میں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات شامل ہیں۔

اس میں شریک ممالک کے ریگولیٹرز کو بھیجی جانے والی حفاظتی رپورٹس بھی شامل ہیں۔

آکسفورڈ میں پہلے دو مرحلوں کے دوران ٹرائلز اس لیے جلدی ختم ہوئے کیونکہ یونیورسٹی میں کورونا وائرس کی ویکسین پر پہلے سے کام چل رہا تھا۔ اس کے علاوہ انتظامی اور مالی امداد کے عمل میں تیزی اور اس ویکسین ٹرائل میں سب کی بے انتہا دلچسپی کا مطلب یہ تھا کہ ویکسین ٹرائلز کے لیے رضا کار تلاش کرنے کے کام میں کوئی لمحہ ضائع نہیں ہوا۔

اب جب یہ ٹرائلز تیسرے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں اور مزید ہزاروں رضاکار ان میں شریک ہوں گے، تو اس دوران ویکسین کے ذیلی اثرات کے لیے تمام شرکا کی نگرانی کی جائے گی۔

پہلے دو مراحل میں ویکسین لینے والے شرکا پر کوئی ذیلی اثرات نہیں ہوئے، اگرچہ ٹیسٹنگ کے شرکا میں سے 16-18 فیصد نے بخار کی شکایت کی تھی۔ محققین کا کہنا ہے کہ ذیلی اثرات کے لیے پیراسیٹامول استعمال کی جاسکتی ہے۔

جب پہلی بار آکسفورڈ ویکسین کا ٹرائل شروع ہوا تو ایک دعویٰ کیا گیا کہ پہلا رضاکار ہلاک ہو گیا ہے۔

بی بی سی کے طبی نمائندے فرگس والش اور فیکٹ چیکرز نے جلد ہی اس افوا کا پول کھول دیا۔ فرگس والش نے اس رضاکار کے ساتھ ایک انٹرویو بھی کیا۔

ویکسین اور ہسپانوی فلو کے بارے میں دعوے

ویکسین

سوشل میڈیا پر پھیلنے والے ایک میم میں دعویٰ کیا ہے کہ 1918 میں ہسپانوی فلو کی وبائی بیماری کے دوران 50 ملین اموات کی ذمہ دار ویکسینز تھیں۔

لیکن یہ سراسر غلط ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسا کہ امریکہ میں بیماریوں کے کنٹرول کے مراکز نے بتایا ہے کہ اس وقت کوئی ویکسین موجود نہیں تھی۔

مورخ اور مصنف مارک ہیننگس بوم کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ میں سائنس دانوں نے بنیادی بیکٹیریل ویکسینز کے تجربات کیے، لیکن یہ ایسی ویکسینز تھیں جنھیں آج ہم ویکسین کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے۔

’اسی میں بہتری تھی کہ کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ انفلوئنزا ایک وائرس تھا۔‘

موت کی دو اہم وجوہات تھیں۔ ابتدائی فلو انفیکشن یا وائرس کے نتیجے میں پھیپھڑوں کو سیالوں سے بھر دینے والا قوتِ مدافعت کا زبردست ردعمل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp