پاناما گیٹ، کونج کا شکار اور قطری شہزادہ


\"zulfiqar-ali\"

وفاقی حکومت نے قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جبر کو پنجاب کے دو اضلاع بھکر اور جھنگ میں کونج کے شکار کا خصوصی اجازت نامہ 2016۔17 جاری کر دیا ہے۔

یہ وہی صاحب ہیں جس کا خط سپریم کورٹ میں پانامہ گیٹ کیس میں شریف خاندان کے کاروبار کو حلال ثابت کرنے کے لئے بطور ثبوت پیش کیا گیا۔ اب اس خط کی قیمت بے ضرر اور نایاب پرندے کو بھگتنی پڑے گی۔ حالانکہ کونج کا شکار بہت سارے بین الاقوامی کنونشن اور معاہدہ جات کے تحت غیر قانونی اور ممنوع ہے جس پر پاکستان حکومت نے بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ اور گورنمنٹ آف پاکستان کے قانون کے تحت بھی اس کے شکار کی عمومی اجازت نہیں ہے۔ پھر بھی عرب شہزادے کونج کو مار مار کے اس کے ساتھ اپنی سیلفیاں بنائیں گے۔

میں نے جب سے یہ خبر پڑھی ہے میرا دل بہت اداس ہے۔ اسی اداسی اور لاچارگی کے عالم میں میں کئی گھنٹے لیٹا آسمان کو تکتا رہا۔ تو مجھے ایسا لگا جیسے میں کونج ہوں اور میں انسانوں کی عدالت میں فریاد کر رہی ہوں۔

آئے انسان تجھے کیا ہو گیا ہے میں تو کب سے تیرے دکھ میں تیرے ساتھ ہوں۔ جیسے ہجر کے کرب میں تو کُرلاتا ہے ایسے ہی میں اپنی ڈارسے بچھڑ کے آہ و فغاں کرتی ہوں۔ تیرے شاعر تو میرا درد سمجھتے ہیں انہوں نے اپنی شاعری میں مجھے درد کے استعارے کے طور پر برتا ہے۔ میں تو صوفیوں کی محبت میں ”سات پھیرے“ لگا کے اپنا سفر ”کانا“ کرتی ہوں۔ میں سندھ دریا کے درشن کرنے کے لئے ہزاروں میل کا سفر کر کے اس وطن میں ہر سال آتی ہوں اور تو مجھے ”تولھے“ کے پیچھے اپنی شناخت چھپا کے مارتا ہے تو کبھی گولیوں سے میرے قافلے کو بھون ڈالتا ہے۔ آئے آدم کی اولاد تیرے اعتبار میں میں نے کتنی بار اپنی جان لُٹائی ہے۔ میں چاندنی راتوں میں سفر پے نکلتی ہوں تو بھیس بدل بدل کے میری سادگی اور حُسن کو تار تار کرتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ میں تو نشانی ہوں تیری ہری بھری فصلوں کی، تیرے چنے کے کھیتوں کی، تیرے باجرہ کی فصلوں کی، تیرے تھل کے ٹھنڈے ٹیلوں کی، تیرے لوک گیتوں کی، تیرے بچوں کو محسور کرنے کی اورحُسن و وجاہت کی!

آئے انسان اب تو میری نسل معدوم ہونے کو ہے مگر تو ”مردانہ طاقت“ کو بڑھانے کی خاطر مجھے شکار کرتا ہے۔ میرے بچوں سے ماں کی مامتا چھینتے ہوئے تُجھے ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ اگر میں اس زمین سے نا پید ہو گئی تو تیرے اندر کی ویرانی تجھے بھی سکون سے نہیں جینے دے گی۔ قُدرت کے نظام میں تو اکیلا زندہ نہیں رہ پائیگا۔ جسطرح تو اپنے ماحول اور دوسرے جانداروں کے ساتھ کر رہا ہے اس کا سخت عذاب تیرا پیچھا نہیں چھوڑیگا۔

یہ دُنیا صرف تیری ملکیت نہیں ہے اس پے باقی زندہ اور غیر زندہ عناصر کا اُتنا حق ہے۔ تو سمجھتا ہے تو نے دُنیا کو تسخیر کر لیا تو نے قدرت کے رازوں سے پردہ اُٹھا دیا۔ مگرافسوس تُجھے تہذیب سے رہنا نہیں آیا۔ کتنے جاندار تیری لا پرواہی اور نا سمجھی کی وجہ سے نا پید ہو گئے، کتنے اپنی بقا کے لئے لڑ رہے ہیں۔

تُجھے پتہ ہے یہ زمین ہم سب کی ماں ہے۔ ہم سب اس کے بچے ہیں۔ یہ بات پُرانے شاستروں، لوک کہانیوں، اساطیروں اور اس سندھ کی کنارے پے لکھی جانے والی قدیم ترین کتاب رگ وید میں درج ہے۔ میری ماں کے دریاوں کو تو نے سُکھا دیا، اس پے اُگے جنگل کاٹ کے تو نے اسے ننگا کر دیا، اس کے پہاڑوں کو تو نے سیمنٹ میں بدل دیا، اس کے میدانوں اور سمندروں پے تو نے کنکریٹ سے بنے بڑے بڑے پلازے کھڑے کر دیے۔ ماں کے سینے کو تو نے چیر کر اُس کے دل گُردے نکال لئے، اس کی ہواوں کو تو نے دھوئیں سے بھر دیا مگر پھر بھی تیر کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ تجھے اب بھی سمجھ نہیں آ رہی ایک ایک کر کے سب نعمتیں اور رحمتیں تجھ سے روٹھ جائینگی۔

جو بیت گیا سو بیت گیا ابھی بھی وقت ہے ہمیں جینے دے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب تیری سانسوں میں کارخانوں کا دھواں ہوگا، تیرے خوراک میں زہر ہوگا، تیری آنکھوں کے سامنے بڑی بڑی کنکریٹ سے بنی عمارتیں ہوں گی، تیری روح ویران ہو جائے گی، تیرے کانوں میں پرندوں کی آواز کی بجائے ہمہ قسمی شور ہو گا، تیری یاداشتوں میں بربادیوں کے منظر سما جائیں گے اور پھر تیری آہ و فغاں سننے والا کوئی نہیں ہو گا۔ تو اور تیری تنہائی آپس میں باتیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments