ستائشی جملوں کے طلبگار لوگ


کتنا مشکل کام ہے اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنا۔ اس کام کو ناپسندیدہ سمجھتے ہوئے ہی ایسے جملے کہے جاتے ہیں ”اپنے منہ میاں مٹھو“ ”انجمن ستائیش باہمی“ مگر کچھ لوگوں کے لئے تو یہ معمول کا کام ہے۔ ڈھٹائی سے دوسروں کی کامیابیاں اپنے نام کر لیتے ہیں اور ناکردہ کاموں کی تعریف اس طرح وصول کرتے ہیں جس طرح بارہواں کھلاڑی کامیابی پر اور کچھ خوشامدی لوگ اس کے کان میں کہہ دیتے ہیں کہ اگر آپ فیلڈنگ کے لئے نہ جاتے تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔

ایسے لوگ جو جو صلاحیتوں کے اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں ان کے دماغ میں شہرت کی خواہشیں مچلتی رہتی ہو، دل ہر وقت ستائشی جملے سنے کا منتظر رہتا ہو، اس خواہش کے لئے وہ جو طریقے استعمال کرتے ہیں اس پر صاحب عقل سر پیٹتے ہیں اور باقی لوگ محظوظ ہوتے ہیں

صآحب ثروت افراد، سرکاری افسران اور سیاستدان عموماً خوشامدیوں اور موقع پرست افراد کا ہدف ہوتے ہیں ان سے بچنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں کوئی جوش نصیب ہی ہوگا جو ان کے دام فریب سے بچا ہوگا۔ یہ لوگ ہر وقت احساس دلاتے رہتے ہیں کہ اگر آپ نہ ہوتے تو نہ جانے کیا تباہی و بربادی جنم لے لیتی۔

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے
(میر)

یہ ایسے ہنر مند ہوتے ہیں کہ یہ عیب اس خوبصورتی کے ساتھ کرتے ہیں کہ شکار کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ جال میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔

کمزور شخصیت کے مالک ان لوگوں کو جو بھی خوبصورت لقب دیا جائے۔ ان کی شان میں جس قدر بھی غلو سے کام لیا جائے یہ اسی قدر خوش ہوتے ہیں۔

ایسے ہی ایک شخصیت کے کمزور مگر ملکیت کے مضبوط ریٹائرڈ افسر کے گرد لوگوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا اور لوگ ان کی وہ وہ خوبیاں بیان کرتے تھے کہ انھیں خود بھی بہت مشکل سے یقین آتا تھا۔ لیکن لوگ بھی ”ہنر خوش آمد“ میں کمال رکھتے ہیں ان کی اس قدر تعریفیں کرتے کہ وہ بھی خود کو ایک عظیم ہستی سمجھنے لگے اور اپنے لیے کی گئی تعریفوں کے زیر اثر آگئے اور پھر ”اپنے میاں مٹھو“ بنے والا محاورہ ان پر صادق آنے لگا۔

کسی نے ان سے کہہ دیا کہ اجمل صاحب اس ملک سے آلودگی ختم کرنے میں آپ کا بڑا کردار ہے۔ پہلے تو انہیں یقین نہ آیا کہ وہ تو ضلعی انتظامیہ کے ایک دفتر میں ملازم تھے ان کا ماحول کے ساتھ کیا تعلق؟ انھوں نے تعریف کرنے والے سے آہستگی سے پوچھا کہ میں نے آلودگی ختم کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ وہ صاحب کہنے لگے اجمل صاحب ایک تو آپ میں انکساری بہت ہے آپ کو یاد نہیں آپ اپنے آفس میں تیں چار بوتل پلانٹ رکھتے تھے، ان کی دیکھ بھال کرتے تھے، لوگ ان سے محظوظ ہوتے تھے، اور آپ کی دیکھا دیکھی آپ کے کئی ماتحتوں نے بھی اپنے آفسزز میں بوتل پلانٹ کی کئی کئی بوتلیں رکھنا شروع کردیں۔

اور میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ شہر بھر میں اس بات کو فروغ ملا۔ آپ کا یہ ماحول دوست اقدام ناقابل فراموش ہے۔ بس یہ سنا تھا کہ اجمل صاحب کی باچھیں کھل آٹھیں اور فوراً حکم صادر فرمایا کہ اس سلسلے میں ایک عظیم الشان تقریب منعقد کی جائے۔ تقریب منعقد کی گئی لوگوں نے تقاریر کیں اجمل صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی تاج پوشی کی گئی اور انھیں ”ماحول دوست“ شخصیت کے لقب سے نوازا گیا۔

ایک اجمل صاحب ہی نہیں جگہ جگہ ستائش کے بھوکے نظر آتے ہیں، تعریفی و توصیفی کلمات کے بھوکے۔ القابات کے بھوکے، شہرت کے بھوکے، توجہ حاصل کرنے کے بھوکے، ایسی کمزور شخصیت کے لوگ اگر اعلی عہدوں تک پہنچ جائیں تو خود دار لوگوں کے لئے دردسر بن جاتے ہیں۔

ہروقت خوش آمدی لہجے میں انھیں یقین دلانا کہ قبلہ آپ کی طرز زندگی سب سے اعلی ہے، آپ کا ہر فیصلہ ملک و ملت کے مفاد میں ہے۔ آپ کے احساسات نازک تر ہیں آپ کے سوچنے کا انداز جدا گانہ ہے ایک عزت نفس رکھنے والے کے لئے درد مسلسل سے کم نہیں۔ ہر وقت بے عیب تصویر پیش کرنے کی کوشش کرنا اذیت مسلسل سے کم نہیں۔

خودنمایی، خودستائش، خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ایسے مریض معاشرے کے لئے ناسور ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے لوگ معاشرے کے اعلیٰ منصب پر متمکن ہیں، عہدوں پر قابض ہیں۔ جو باصلاحیت لوگوں کی عزت نفس کو پامال کرے ان کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ایسے لوگوں کو تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لیکن ذرا ٹھہریے فصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں یہ لوگ تو ذہنی مریض ہیں خود کو دھوکہ دے رہے ہیں ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو ایس کمزور شخصیات کی کاسہ لیسی کرتے ہیں اور ان کی ناقابل قبول خواہشات اور عادات کی تکمیل میں سہولت کاری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments