کیا کبھی عوام کی حکومت قائم ہو گی؟



سوچتا ہوں کہ اس ارض پاک پر کبھی کوئی ایسی سحر طلوع ہو گی جس میں کوئی داغ نہ ہو، جس میں باد نسیم چلتی ہو جو لوریاں سناتی ہو، جو روح کو معطر کرتی ہو، جو فضا میں خوشبو گھولتی ہو۔

اس سحر کی آس آنکھوں میں سجائے ہم نے ستر سال گزار دیے، کئی نسلیں اس سحر کے خواب آنکھوں میں سجائے قبروں میں جا اتریں لیکن یہ سحر نہیں آئی، اس صبح کے انتظار میں کئی بہنوں نے اپنے بھائی کھو دیے، ماؤں نے اپنے بیٹے قربان کر دیے، سہاگنوں نے اپنے سہاگ گنوا دیے، بچے یتیم ہوگئے، عورتیں بیوہ ہو گئیں، عصمتیں تار تار ہوئیں، خون کی ہولی اور آگ کے دریا کے پار جب قافلے اس طرف اترے تو ان کے نصیب میں جو سحر تھی وہ داغ داغ تھی۔

ابھی اس ملک نے پنگھوڑے سے باہر قدم بھی نہیں رکھا تھا کہ ملک کے پہلے وزیراعظم کو ایک بھرے جلسے میں گولی مار دی گئی، پھر اسکندر مرزا اور غلام محمد کی صورت میں چھایا اندھیرا پہلے مارشل لاء کئی صورت میں اور گہرا ہوگیا۔ دس سال تک ایک عفریت نے اس کو اپنے پنجوں میں جکڑے رکھا جب اس کی گرفت کچھ کمزور ہوئی تو اس نے اس کو آزاد کرنے کی بجائے اس کو ایک دوسری بلا کے چنگل میں دے دیا، یہ نحیف و نزار ملک بھلا کب تک برداشت کرتا اور اس کا ایک حصہ کٹ گیا۔

پانچ سال تک ملک ٹوٹنے کے بعد یہ عفریت اپنی سانسیں بحال کرتا رہا، اپنی توانائی مجتمع کرتے ہوئے دوبارہ نئے سرے سے اس نے اس نحیف کو اپنے پنجوں میں دبوچ لیا، ملک میں دس سال پھر گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا، جس کے بطن سے جہادی فیکٹریوں، کلاشنکوف اور ہیروئن نے جنم لیا۔ ملک میں مرد حق اور مرد مومن کے اپنے اقتدار کو تخفظ دینے کی خاطر لائے ہوئے اسلام نے ملک میں فرقہ واریت کی بنیاد رکھی، اس فرقہ واریت سے تو کافر، میں کافر، وہ کافر، سب کافر کا کان پھاڑ دینے والا شور بلند ہوا اور پھر قتل و غارت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، جس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے اور پتا نہیں کب تک بھگتے گی۔

یہ پیر تسمہ پا اسلام کے نام پر گیارہ سال اس ملک کی گردن دبوچے رہا، پیر تسمہ پا جب گردن کے گرد شکنجہ کس لے تو پھر وہ گردن نہیں چھوڑتا لیکن شاید عالمی قوتوں کو اس کی ضرورت ختم ہوئی اور ایک دن اڑتے جہاز میں آم پھٹ گئے اور موصوف فضا میں ہی کہیں تحلیل ہوگئے۔ لیکن اس ملک کی رگوں میں ایسا زہر انڈیل گئے جس نے آگے چل کر اپنا اثر دکھانا تھا، دکھایا بھی، اور اب تک دکھا رہا ہے، کبھی تخفظ اسلام بل کی صورت میں اور کبھی اقلیتوں کی حالت زار کی شکل میں۔

پھر کچھ عرصہ اس مظلوم ملک کے ساتھ جمہوریت جمہوریت کھیلا گیا کبھی ایک پارٹی کو لایا گیا اس سے دل بھر گیا تو دوسری کو لے آیا گیا، یہ کھیل کچھ سالوں تک چلا اور پھر اس تکلف کو بھی ختم کرتے ہوئے براہ راست میدان میں کودتے ہوئے ایک کتا اس بغل میں دابے اور ایک کتا اس بغل میں دابے ملک میں ایک روشن خیالی کی ڈکٹیٹر شپ قائم کردی گئی، پالیسی بدلی، جہادی فیکٹریوں کی ضرورت باقی نہ رہی، لیکن ان میں بنا ہوا مال موجود تھا، فیکٹریاں بھی پوری رفتار کے ساتھ دھڑا دھڑ نیا مال بنا رہی تھیں اس روشن خیال پالیسی کے خلاف مرد مومن کی بنائی ہوئی جہادی فیکٹریوں میں مینوفیکچرنگ ہوئے جہادی نبرد آزما ہوئے اور پھر فلک نے دیکھا کہ اس مظلوم ملک کی سڑکوں نے خون اگلا، ماؤں نے اپنے بچوں کے لاشے اٹھائے، ہر بازار، ہر گلی، ہر کوچے اور ہر محلے سے آگ کے شعلے بلند ہوئے جس میں سب کچھ جل کے بھسم ہو گیا۔

روشن خیال موصوف اگر بم کو لات نہ مارتے تو شاید ابھی تک ہم اس روشن خیالی سے ہی فیض یاب ہورہے ہوتے لیکن طاقت کے نشے میں چور بم کو لات مار بیٹھے اور اس کے نتیجے میں خدا خدا کر کے اس ملک کی جان اس خون آشام بلا سے چھوٹی۔

لیکن جب ایک دفعہ کسی کو اقتدار کے نشے کی لت لگ جائے تو وہ اتنی آسانی سے نہیں چھوٹتی، کبھی یہ براہ راست اقتدار میں آکر اپنا نشہ پورا کرتے ہیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو سکے تو پھر سیاسی انجینیرنگ کر کے چلمن کے پیچھے بیٹھ کر اپنا نشہ پورا کیا جاتا ہے۔ آج کل پردے کے پیچھے بیٹھ کر نشہ پورا کیا جا رہا ہے، جسم کسی کا ہے اور اس کے اندر روح ”ان“ کی ہے، اس ملک کے اصل مقتدرہ قوت یہ ہیں، ملک کے اصل مالک یہ ہیں۔

ان کے ہاتھ میں ایسا جادو ہے جو ان کے خلاف بولے وہ پلک جھپکتے میں غائب ہو جاتا ہے۔ جو ان کی بات نہ مانے جیل اس کا مقدر ٹھہرتی ہے، اس کو نشان عبرت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ دوسرے اس سے سبق حاصل کریں اور کوئی مستقبل میں ان کے حکم سے روگردانی کرنے کی سوچے بھی نہ، مطیع اللہ جان کا اغوا اور رہائی سب کے لیے ایک خاموش پیغام ہے۔

جس خواب کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے قربانیاں دیں تھیں کیا وہ خواب کبھی پورا ہوگا۔ کیا کبھی عوام اپنی مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کریں گے؟ کیا کبھی ادارے بنیں گے؟ کیا کبھی ان کو مضبوط ہونے دیا جائے گا؟ اور کیا کبھی قومی سلامتی کی ریاست سے یہ مملکت فلاحی ریاست میں تبدیل ہوگی؟ کیا کبھی پاکستانی ہونے کے ناتے ہم دنیا میں سر اٹھا کر جی سکیں گے؟ کیا کبھی اس ارض پاک پر ایسی فصل گل اگے گی جسے اندیشۂ زوال نہیں ہوگا؟ کیا کبھی عوام کی سینچی ہوئی کیاری میں کوئی پھول اگے گا یا سب پھول مصنوعی طریقے سے اگا کر اصلی بنا کر پیش کئیے جائیں گے۔

کیا یہ ملک صرف ایوب خان، یحی خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرفوں اور ان کی اولادوں کا ہے، کیا اس ملک پرعوام کا کوئی حق نہیں، کیا عوام انتہائی غلیظ سرکاری ہسپتالوں کے گیٹ پر اور رکشوں میں بچے پیدا کرتے رہیں گے اور کچی آبادیوں میں بھوک سے بلکتے ہوئے دو وقت کی روٹی کے انتظار میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بغیر کسی علاج معالجے کے سسک سسک کر مرتے رہیں گے۔

پاکستان میں جونہی کسی کینٹ ایریا میں داخل ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے یورپ کے کسی حسین ملک میں داخل ہو گئے ہوں، ایک دم لینڈ اسکیپ بدل جاتا ہے، چوڑی صاف ستھری سڑکیں، سبز گھاس کے ساتھ پھولوں کی قطار در قطار خوشبو بکھیرتی روشیں، ہنستے مسکراتے زندگی سے بھر پور قہقہے لگاتے لوگ، آسودگی اور خوشی سے دمکتے چہرے، بڑی بڑی خوبصورت گاڑیاں، ترتیب، بہترین اسکول اور ہسپتال، کیا کبھی سارا پاکستان ایسا ہوگا؟ کیا کبھی عوام کی حکومت قائم ہوگی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments