افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا دعویٰ ہے کہ رہا ہونے والے طالبان کے خلاف خفیہ ایجنسی این ڈی ایس چھاپے مار رہی ہے


افغان

طالبان کے دوحہ دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق اگر اُنھیں پاکستان کی طرف سے رسمی طور پر دعوت دی جائے تو وہ پاکستان جائیں گے

دنیا بھر میں جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے تقریباً ہر فرد کی روزمرہ کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں وہیں افغانستان میں ان طالبان رہنماؤں کو بھی اپنے گھروں تک محدود رہنے کا کہا گیا ہے جو حال ہی میں حکومتی جیلوں سے رہا ہوئے ہیں لیکن اس کی وجہ وبا نہیں ہے۔

افغانستان کی جیلوں سے رہا ہونے والے افغان طالبان کے لیے یہ احکامات طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر نے جاری کیے ہیں۔ قیدیوں کی رہائی کا عمل امریکہ اور طالبان کے درمیان طے معاہدے کے تحت مکمل کیا جا رہا ہے۔ قیدیوں کی رہائی میں افغان حکومت اور طالبان کے بیچ مذاکرات کیوجہ سے پہلے ہی کافی تاخیر ہو چکی ہے۔

رہا کیے گئے طالبان رہنماؤں کے لیے جاری ہدایات

افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ رہا ہونے والے طالبان کو امارات کی جانب سے تاکید کی جاتی ہے کہ:

  1. وہ میدان جنگ میں دوبارہ نہ جائیں
  2. اپنے گھروں میں رہیں
  3. اور اس حکم پر سختی سے عملدرآمد کریں

انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ رہا ہونے والے طالبان کے خلاف افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کی جانب سے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور انھیں حراست میں لیا جا رہا ہے ۔

اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ وہ کابل انتظامیہ کے لیے بھی اعلان کرتے ہیں کہ ’اس طرح کی اشتعال انگیز کارروائیوں سے باز رہیں وگرنہ کابل انتظامیہ ہر قسم کے نتائج کی ذمہ دار ہوگی۔‘

یہ بھی پڑھیے

افغان امن معاہدے کی ’سادگی‘ پیچیدگیوں کا باعث بنے گی؟

سہیل شاہین: معاہدے پر عملدرآمد تسلی بخش طور پر آگے بڑھ رہا ہے

امریکہ طالبان معاہدے سے افغان عوام کتنے پر امید

’افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی‘

https://twitter.com/suhailshaheen1/status/1287124832514121728

مقامی ذرائع ابلاغ میں افغان حکومت کی جانب سے ایسے بیان آئے ہیں جن میں ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔

افغان سکیورٹی کونسل کے ترجمان فیصل جاوید نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں کم نہیں ہوئیں کیونکہ صرف ایک ہفتے کے دوران طالبان کی کارروائیوں میں 46 شہری ہلاک اور 93 زخمی ہوئے ہیں۔‘

https://twitter.com/suhailshaheen1/status/1287124834426724357

اس ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ امن کے قیام کے لیے ‘پختہ عزم’ کی ضرورت ہے جو طالبان کی کارروائیوں سے نظر نہیں آرہا۔

افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی کو ان طالبان کی فہرست فراہم کی ہے جنھیں امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں طے پائے گئے معاہدے کے تحت رہا کیا گیا ہے اور پھر مبینہ طور پر انھیں دوبارہ مختلف چھاپوں کے دوران یا حراست میں لیا گیا یا ان کے رشتہ داروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس فہرست میں ایسے نو طالبان رہنماؤں کے نام شامل ہیں جن کے خلاف افغانستان میں سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائیاں کی ہیں۔

قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان اس سال 29 فروری کو طے کیے گئے معاہدے کے تحت افغان حکومت طالبان کے 5000 قیدی رہا کرے گی اور طالبان اپنی قید سے افغان حکومت کے تقریباً 1000 اہلکاروں کو رہا کریں گے۔

ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت کی حراست میں لگ بھگ 600 ایسے افغان طالبان ہیں جو بڑے جرائم میں ملوث ہیں اور حکومت انھیں رہا کرنے کو تیار نہیں ہے۔

رواں سال مارچ میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ 5000 افغان طالبان کو پے رول پر رہا کیا جائے۔ اسی طرح افغان طالبان نے بھی افغان حکومت کے 1000 اہلکاروں کو، جو افغان طالبان کی قید میں ہیں، رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ قیدیوں کی رہائی پر عمل بتدریج ہو رہا ہے لیکن یہ سست روی کا شکار ہے۔

اب تک کتنے قیدی رہا ہوئے ہیں؟

سہیل شاہین نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک افغان طالبان نے کابل انتظامیہ کے 898 اہلکاروں کو رہا کیا ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے اب تک 4170 افغان طالبان قیدی رہائی پا چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر باقی قیدیوں کو رہا کر دیا جاتا ہے تو بین الافغان مذاکرات ایک ہفتے کے دوران شروع ہو سکتے ہیں۔

اس سے پہلے سہیل شاہین نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہو جائے پھر عید کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع کیے جا سکتے ہیں۔

سہیل شاہین نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ بین الافغان مذاکرات کا پہلا دور قطر کے شہر دوحہ میں ہوگا جس کے لیے افغان طالبان نے تیاری مکمل کر لی ہے۔

معاہدے کے بنیادی نقاط

قطر کے شہر دوحہ میں 29 فروری کو جس معاہدے پر دستخط کیے گئے اس کے تحت امریکہ 10 مارچ سے اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کرے گا اور افغانستان میں اپنے پانچ فوجی اڈے بند کرے گا۔

معاہدے کے تحت افغان طالبان کے 5000 قیدی رہا کیے جائیں گے اور اسی طرح طالبان کی تحویل میں موجود 1000 سکیورٹی اہلکاروں کو رہا کر دیا جائے گا۔

اس دوران بین الافغان مذاکرات شروع کیے جانے کی بھی بات کی گئی ہے۔

اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ یہ سارا عمل 14 ماہ میں مکمل کیا جائے گا اور افغانستان کی سرزمین امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور یہ کہ طالبان افغانستان میں موجود القاعدہ اور داعش کی سرگرمیوں کو روکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp