چین، امریکہ کشیدگی: ڈیڈلائن مکمل ہونے کے بعد چین کے شہر چنگدو میں امریکی قونصل خانے کے عمارت خالی کر دی گئی


چینی

امریکی قونصل خانے کے باہر مقامی لوگوں کا ایک ہجوم لگا ہوا تھا جو عمارت کی تصاویر لے رہے تھے اور سیلفیاں بنا رہے تھے

72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن مکمل ہونے کے بعد چین کے شہر چنگدو میں امریکی قونصل خانے کے امریکی سفارتکار عمارت سے نکل گئے ہیں۔

چین نے امریکہ کی جانب سے ہیوسٹن میں چینی قونصل خانہ بند کرنے کے اقدام کا جواب دیتے ہوئے اپنے جنوب مغربی شہر چنگدو میں موجود امریکی قونصل خانے کو بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

سوموار کی ڈیڈلائن سے پہلے، عملے کو عمارت سے نکلتے ہوئے دیکھا گیا، امریکی قونصل خانے کے باہر لگی تختی اتار لی گئی اور امریکی جھنڈے کو سرنگوں کر دیا گیا۔

چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ چینی عملے نے مقررہ مدت کے بعد عمارت میں گھس کر کنٹرول سنبھال لیا۔

امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’قونصل خانہ گذشتہ 35 سال سے مغربی چین، بشمول تبت، کے عوام کے ساتھ ہمارے تعلقات کا مرکز تھا۔‘

’ہمیں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے پر مایوسی ہوئی ہے اور ہم اس اہم خطے میں چین میں دوسری جگہوں سے لوگوں تک رسائی جاری رکھیں گے۔‘

جیسے ہی امریکی قونصل خانہ بند ہوا، مقامی رہائیشی وہاں جمع ہو گئے، جن میں سے اکثر چینی جھنڈے لہرا رہے تھے اور سیلفیاں لے رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

چین اور امریکہ: تجارتی جنگ، سفارتی جنگ اور پھر اس کے بعد؟

چین کا ردعمل، چنگدو میں امریکی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم

امریکہ کا چینی قونصل خانہ بند کرنے کا فیصلہ، دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ

بحیرۂ جنوبی چین کے مصنوعی جزیرے آباد، امریکی جواب کیا ہو گا؟

امریکی قونصل خانہ

اتوار کو ورکرز نے امریکی قونصل خانے کے نام کی تختی اتارنا شروع کر دی تھی

گذشتہ بدھ کو امریکہ نے ہیوسٹن میں چینی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم دیا تھا، اور الزام لگایا تھا کہ یہ جاسوسی اور چوری کا گڑھ بن گیا ہے۔

یہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے دوران سامنے آنے والی تازہ ترین پیش رفت ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکہ کے لیے ایک ’ضروری ردِ عمل‘ تھا کیونکہ امریکہ نے چین کے ہیوسٹن میں موجود قونصل خانے کو بند کر دیا تھا۔ اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکہ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ چین ’انٹیلیکچوئل پراپرٹی چرا‘ رہا تھا۔

خیال رہے کہ گذشتہ چند ماہ سے امریکہ اور چین کے درمیان چند اہم مسائل پر تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے قونصل خانہ بند کرنے کا اقدام ’امریکہ کے نامعقول اقدامات کے سامنے جائز اور ضروری ردِ عمل تھا۔‘

امریکہ اور چین کے درمیان حالیہ صورتحال ایسی ہے جو چین ’نہیں دیکھنا چاہتا اور امریکہ پر اس کی تمام ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔‘

ہمارے نمائندوں کے مطابق چنگدو میں امریکی قونصل خانہ سنہ 1985 میں قائم ہوا تھا اور یہاں 200 سے زیادہ اہلکار کام کرتے ہیں اور اس کی تبت سے قربت کے باعث اس کی خاصی سٹریٹیجک اہمیت تھی۔

China flag at consulate in Houston

چینی باشندوں پر ’ویزا فراڈ‘ کا الزام

امریکہ نے چار ایسے چینی باشندوں پر ویزا فراڈ کا الزام عائد کیا ہے جنھوں نے مبینہ طور پر چینی فوج کا رکن ہونے کے حوالے سے جھوٹ بولا تھا۔

ان میں سے تین باشندوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے جبکہ ایف بی آئی چوتھے شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہے جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ سان فرانسسکو میں چینی قونصل خانے میں موجود ہیں۔

ایف بی آئی کے اہلکاروں نے امریکہ کے 25 مختلف شہروں میں ایسے افراد کے انٹرویو کیے ہیں جن کی چین کی فوج کے ساتھ ’غیر اعلانیہ وابستگی‘ ہے۔

سرکاری وکلا کا کہنا ہے کہ یہ چین کا امریکہ میں سائنسدان بھیجنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

امریکہ کے محکمہ انصاف کے اٹارنی جان سی ڈیمیرز نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی کے اراکین نے تحقیق کی غرض سے ویزے حاصل کیے اور چینی فوج کے ساتھ اپنی وابستگی کو چھپایا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ چین کی کمیونسٹ جماعت کے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ ہمارے روشن خیال معاشرے سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور ہمارے تعلیمی اداروں کا استحصال کیا جا سکے۔‘

چنگدو

یہ گرفتاریاں امریکہ کے اس اعلان کے بعد سامنے آئی ہیں جس میں اس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ چینی سائنسدان نے سان فرانسسکو قونصل خانے میں پناہ لے لی ہے۔

خیال رہے کہ رواں ہفتے امریکی حکام کی جانب سے ہیوسٹن میں چینی قونصل خانے بند کیا جا چکا ہے۔

جمعرات کو گرفتاریوں کے اعلان سے قبل چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وینگ وینبن نے امریکہ کے الزامات کو ’بدنیتی پر مبنی بہتان‘ قرار دیا اور کہا کہ چین ’اس حوالے سے ردِ عمل دے گا اور اپنے جائز حقوق کی حفاظت کرے گا۔‘

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی چین کے ساتھ حالیہ مہینوں میں واضح تناؤ دیکھا گیا ہے جس کی وجوہات میں تجارت، کورونا وائرس کی عالمی وبا کا پھیلاؤ اور نیا ہانگ کانگ سکیورٹی قانون شامل ہیں۔

امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ان افراد پر الزام عائد ہونے کے چند گھنٹوں بعد بیان میں کہا ہے کہ چین کی جانب سے ‘نئے ظلم’ ہے۔

اس حوالے سے کیلی فورنیا میں رچرڈ نکسن صدارتی لائبریری میں سیکریٹری پومپیو نے ’تمام اقوام کے سربراہان‘ سے چین کے خلاف کھڑے ہونے کا کہا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی سے آزادی واپس لینا ’ہمارا اولین مشن ہے۔‘

چین امریکہ تجارتی جنگ

الزامات کیا ہیں؟

جن چار چینی باشندوں پر ویزا فراڈ کا الزام لگایا گیا ہے ان وینگ شن، سونگ شین، ژاؤ کے کے اور تانگ یوان شامل ہیں۔ یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تانگ سین فرانسسکو قونصل خانے میں موجود ہیں۔

ان تمام چینی باشندوں نے مبینہ طور پر پیپلز لبریشن آرمی سے وابستگی کے حوالے سے جھوٹ بولا ہے اور کہا ہے کہ یا تو وہ کبھی آرمی میں بھرتی نہیں ہوئے یا اب اس کے لیے کام نہیں کرتے۔

وینگ ین کو سات جون کو کسٹمز اور سرحدوں کے تحفظ پر معمور ایجنسی کے اہلکار نے لاس اینجلس انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

محکمہ انصاف کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ وہ اب بھی پی ایل سے وابستہ ہیں اور ملٹری یونیورسٹی لیب میں کام کرتے ہیں حالانکہ سنہ 2016 میں انھوں نے اپنے ویزے پر یہ لکھوایا تھا کو وہ فوج سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔

سونگ شین اور یاؤ کے کے کو 18 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔

سرکاری وکلا نے الزام عائد کیا ہے کہ سونگ نے دعویٰ کر رکھا تھا کہ وہ نیورولوجسٹ کی حیثیت سے فوج کا حصہ تھے تاہم اب وہ فوج چھوڑ چکے ہیں تاہم حقیقت میں وہ اب بھی چین میں پی ایل اے ایئر فورس کے ہسپتال کے ساتھ وابستہ تھے۔ یاؤ کے کا دعویٰ تھا کہ وہ بھی کبھی ملٹری کا حصہ نہیں رہے تاہم وہ پی ایل اے کی تحقیق کے اعلیٰ ادارے کے رکن تھے۔

خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تانگ مبینہ طور پر پی ایل اے ایئرفورس کا حصہ ہیں۔ اس اہلکار نے ان کی ایسی تصاویر دیکھیں جن میں وہ فوجی لباس میں ملبوس تھیں اور ایسے شواہد بھی جن سے مبینہ طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایئرفورس میڈیکل یونیورسٹی کے لیے کام کرتی ہیں۔

انھوں نے بھی مبینہ طور پر اپنے ویزا پر یہی لکھا ہے کہ وہ کبھی بھی فوج سے وابستہ نہیں رہیں۔

People spraying water on object outside of consulate and man closing rubbish bin

سان فرانسسکو میں چینی قونصلیٹ پر کیا الزامات ہیں؟

سان فرانسسکو میں قائم ایک وفاقی عدالت میں سرکاری اہلکاروں کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق چینی سائنسدان جوان تینگ کیلیفورنیا کی یونیورسٹی میں بائیولوجی کی محقق تھیں۔

ان دستاویزت کے مطابق گذشتہ ماہ وفاتی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

عدالت میں پیش کی گئی دستاویزت میں کہا گیا کہ بعد میں تحقیقات میں ان کی ایسی تصاویر سامنے آئیں جن وہ فوجی وردی پہنے ہوئے ہیں اور ان کے گھر کی تلاشی سے پتا چلا کہ ان کا تعلق چین کی پیپلز لبریشن آرمی سے ہے۔

ایف بی آئی کے انٹرویو کے بعد تنگ جون کی 20 تاریخ کو چینی قونصل خانے چلی گئیں جہاں ایف بی آئی کو ان تک رسائی ممکن نہیں تھی۔

سرکاری وکلاء کا کہا ہے کہ تینگ واحد چینی سائنسدان نہیں ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ چینی فوج کے اس پروگرام کا حصہ ہے جس کے تحت وہ مختلف بہانوں سے چینی سائنسدانوں کو امریکہ بھیجتی ہے۔

اس دستاویز میں دو دیگر مقدمات کا حوالہ دیا گیا جن میں چینی سائنسدانوں کو کیلیفورنیہ میں فوج سے اپنے تعلق کے بارے میں جھوٹ بولنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی اقدامات کو اشتعال انگیزی قرار دیا ہے

چینی قونصلیٹ میں کیا ہو رہا ہے؟

ہیوسٹن کے قونصلیٹ کا معاملہ اس وقت اٹھایا گیا جب اس کی عمارت کے دلان میں کئی ڈبوں میں آگ لگی دیکھی گئی۔

ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے ان کوڑے دانوں میں کچھ لوگ کاغذت جل رہے ہیں۔

ہنگامی عملے کو طلب کیا گیا لیکن ہیوسٹن پولیس کے مطابق انھیں عمارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔

امریکی انتظامیہ نے بدھ کے روز چین کو قونصل خانے کی عمارت 72 گھنٹوں میں خالی کرنے کا وقت دیا تھا۔

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ‘وہ یہ بالکل واضح کر رہے ہیں کہ چین کی کیمونسٹ پارٹی کو کیا رویہ رکھنا چاہیے۔ اور جب وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم ایسے اقدامات اٹھائیں گے کہ جن سے امریکی مفادات، امریکی سلامتی، امریکی معیشت اور نوکریوں کا تحفظ کیا جا سکے۔’

امریکہ میں چین کے پانچ قونصلیٹ ہیں اور واشنگٹن میں سفارت خانہ ان کے علاوہ ہے۔ چین نے امریکہ کے اس فیصلے کو سیاسی اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اپنے اتحادیوں پر بھی زور ڈال رہے ہیں کہ وہ چین کے خلاف اقدامات کریں

چین اور امریکہ کے درمیان کون سے امور کشیدگی پیدا کر رہے ہیں

چین اور امریکہ کے درمیان بہت سے معاملات ایسے ہیں جو کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔ جن میں کچھ سنگین معاملات مندر درجہ ذیل ہیں:

  • کورونا وائرس: امریکہ صدر نے متعدد بار اس وائرس کو چینی وائرس کا نام دیا ہے اور اپنے خفیہ اداروں کی رپورٹ کے برعکس اس بات پر اصرار کیا ہے کہ یہ وائرس چینی کی لیباٹریوں میں بنایا گیا ہے۔ جواباً چینی حکام نے کہا ہے کہ کووڈ 19 امریکہ میں وجود میں آیا لیکن اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے
  • تجارت: صدر ٹرمپ چین پر ایک عرصے سے غیر منصفانہ تجارتی پالیسی جاری رکھنے اور فکری ملکیت کی چوری کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ تجارت کے شعبے میں سنہ 2018 سے چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی چل رہی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف اقدامات اٹھاتے رہے ہیں
  • ہانگ کانگ: چین نے چند ماہ قبل ہانگ کانگ میں جاری مظاہروں کو کچلنے لیے نئے سیکیورٹی قوانین کا نفاذ کیا ہے جس کے بعدامریکہ نے ہانگ کانگ کو حاصل خصوصی تجارتی مراعات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چین نے امریکہ کے ان اقدامات پر اسے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے
  • جنوبی بحیرہ چین: دونوں ملکوں کے درمیان اس بات پر بھی تنازع ہے کہ چین درتی وسائل سے مالا مال اس سمندر میں اپنے موجودگی میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ اس متنازع سمندری حدود میں چین کی پیش قدمی کو امریکی وزیر خارجہ بدمعاشی اور دھونس قراد دیتا ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp