جسے تر نوالہ سمجھا تھا


”جی نہیں، کوئی ٹیبل خالی نہیں ہے“ ویٹر نے روکھے لہجے میں کہا۔ مجھے کافی مایوسی ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ ویٹر کوئی نہ کوئی جگہ نکال لے گا۔ میں نے ایک بار پھر ہال کا طائرانہ جائزہ لیا۔ ریسٹورنٹ میں رش تھا۔ پھر ایک ٹیبل پر میری نگاہیں رک گئیں۔ دو لڑکیاں ایک ہی سائیڈ پر بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں اور دوسری طرف دو کرسیاں خالی تھیں۔ غالباً وہ آرڈر کا انتظار کر رہی تھیں۔

میں نے پلٹ کر ویٹر کی طرف دیکھا وہ اکتا کر جا چکا تھا۔ میں نے سر جھٹک کر قدم آگے بڑھائے۔
”ایکسکیوزمی! کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟“

میں نے بے تکلفی کے انداز میں کہا اور جواب کا انتظار کیے بغیر کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ دونوں لڑکیوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔ دونوں اپنے خد و خال اور حلیے سے ایک دوسرے کی ضد تھیں۔ ایک مشرقی تہذیب کا مرقع تھی تو دوسری مغرب کی پروردہ لگ رہی تھی۔ ایک لڑکی روایتی مشرقی لباس میں تھی اور اس کا ایک بال بھی دکھائی نہ دیتا تھا جب کہ دوسری دپٹے سے بے نیاز جینز اور شرٹ میں ملبوس تھی۔ لائٹ براؤن بال اس کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔

تاہم میری حرکت پر دونوں کا ردعمل بالکل ایک جیسا تھا۔ دونوں نے چونک کر بڑی حیرت سے مجھے دیکھا۔ اس سے پہلے کہ ان کی حیرت غصے میں بدل جاتی اور وہ چند نامناسب الفاظ سے گفتگو کا آغاز کرتیں میں نے پہل کر دی اور بڑے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔

”یقیناً آپ کو بہت برا لگ رہا ہو گا، میں آپ کی پرائیویسی میں مخل ہوا لیکن میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھا، یہ میرا فیورٹ ریسٹورنٹ ہے، جب بھی مجھے موقع ملے تو میں یہاں ضرور آتا ہوں، آج بھی ایسا ہی موڈ تھا اور موقع بھی، سو میں اسے گنوانا نہیں چاہتا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کونے میں بیٹھ کر ناشتا کر لوں۔“ جملے کے آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے میں اٹھ کھڑا ہوا۔

”سوری! آپ تشریف لے جا سکتے ہیں“ ہم وطن لڑکی نے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”اؤ کے“ میں نے بے بسی سے کندھے جھٹکے۔ ابھی واپسی کے لیے مڑا ہی تھا کہ ایک خوشگوار جملہ سماعت سے ٹکرایا۔

” آئی تھنک اٹس او کے۔ پلیز جوائن اس۔“
”بنڈل آف تھینکس“ میں نے فوراً اس آفر کو قبول کر لیا۔
”جینیفر۔ ۔ ۔“ ہم وطن لڑکی کے لہجے میں ہلکا سا احتجاج تھا۔
”فارگیٹ اٹ ارم۔“ غیر ملکی لڑکی نے سر ہلایا۔

”سوری! میں اپنا تعارف کرا دوں، میرا نام جمشید ہے، آپ مجھے جم کہہ کر بلا سکتی ہیں۔“ میں نے جلدی سے کہا۔

”بہت شکریہ! آپ کو بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ناشتے کے بعد ہم آپ کو بھلا دیں گے۔“ ارم نے منہ بنایا۔
”بی پولائٹ ارم! ہمیں کوئی پرابلم نہیں ہے۔“ جینیفر بولی تو میں چونک اٹھا۔
”آپ اردو بول سکتی ہیں؟“

”کیوں نہیں! میں یہاں تین سال سے ہوں، اردو سیکھ لی ہے۔“ جینیفر کا لہجہ انگلش زدہ تھا مگر اردو بولنے میں روانی تھی۔

اس کے بعد گفتگو کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو ناشتے کے بعد چائے کے دوسرے کپ تک جاری رہا۔ تاہم یہ گفتگو زیادہ تر میرے اور جینیفر کے درمیان ہی ہوتی رہی جسے اب میں جینی کہتا تھا۔ ارم کی بات چیت ہوں ہاں تک محدود تھی۔

جب ان دونوں سے رخصت لے کر میں اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچا تو جینی کا وٹس ایپ نمبر اور دوستی کا پہلا میسج میرے پاس آ چکا تھا۔

میں نے اپنے بارے میں کھل کر بتا دیا تھا کہ میرا تعلق لاہور سے ہے۔ بزنس مین ہوں، دارالحکومت میں بزنس کے سلسلے میں ہی آیا ہوں، کروڑوں کی آمدنی ہے اور بیرون ملک بھی چند سال رہ کر آیا ہوں۔ شاید میں لاشعوری طور پر جینی کو متاثر کرنا چاہتا تھا حالانکہ بزنس تو والد صاحب کا تھا۔ میں تو محض ان کے پیسے پر عیش کر رہا تھا۔

اصل میں جینی پہلی نظر میں ہی مجھے بہت اچھی لگی تھی۔ میں اپنی زندگی کے بائیس برسوں میں جتنی لڑکیوں سے ملا تھا وہ ان سب سے الگ تھی۔ نجانے اس میں ایسی کیا کشش تھی میں اس کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا۔

فون پر میسجنگ رات گئے تک جاری رہی۔ چناں چہ اگلی صبح ہم پھر اسی ریسٹورنٹ میں ناشتا کر رہے تھے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ارم بھی اس کے ساتھ موجود تھی۔ ارم کا رویہ بہتر تھا تاہم وہ کچھ بیزار نظر آتی تھی۔

بہت سی باتیں ہوئیں جن سے ان دونوں کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ جینی کا تعلق انگلینڈ سے تھا اور وہ ایک ایسے ادارے سے منسلک تھی جس میں اس کے ہم وطن اور پاکستانی برابر تعداد میں تھے۔ ارم اس کی کولیگ اور بیسٹ فرینڈ تھی۔

اگلے دن میری ایک بہت اہم بزنس میٹنگ تھی۔ چاہتے ہوئے بھی جینی سے ملنے نہ جا سکا۔ فون پر اسے اپنی مصروفیت کے بارے میں مطلع کیا اور آفس پہنچ گیا۔ کاروباری معاملات کو دیکھنے کے لیے میری مستعد ٹیم موجود تھی۔ دو تین دن سے میں نے آفس کو کم ہی وقت دیا تھا۔ اس وجہ سے کام کا بوجھ زیادہ تھا۔ آفس مینجر زیدی صاحب نے جاتے ہی ایک لمبی فہرست بتا دی۔ میں اس کے مطابق کام تو کر رہا تھا مگر ارتکاز کی کمی کو زیدی صاحب کی تجربہ کار نگاہیں بھانپ چکی تھیں۔

”سر کیا بات ہے؟ کیا کوئی پریشانی ہے؟“

زیدی صاحب نے بظاہر سرسری انداز میں پوچھا لیکن میں چونک اٹھا۔ اگر زیدی صاحب یہ اندازہ لگا سکتے ہیں تو کوئی اور بھی لگا سکتا ہے۔ مجھے نارمل انداز میں رہنا چاہیے۔ کسی کو میرے ذاتی معاملات کے بارے میں بھنک بھی نہیں پڑنی چاہیے۔

”کچھ نہیں زیدی صاحب! میں کے اینڈ کے کمپنی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جن سے آج لنچ پر ملاقات طے ہے۔ ان سے ہر صورت ڈیل ہونی چاہیے۔“ میں نے بات بنائی۔

”سر اس کی مطلق فکر نہ کریں۔ آخر ہم کس لئے ہیں۔ بس یوں سمجھیں کہ ڈیل ہو چکی ہے۔ آپ نے بس دستخط کرنے ہیں۔“ زیدی صاحب نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔

”ویل دن زیدی صاحب، یو آر گریٹ۔“
”تھینک یو سر“ زیدی صاحب کھل اٹھے اور میں نے اطمینان کی سانس لی۔

پانچ بجے سارے کام نمٹا کر میں اپنی گاڑی میں آفس سے نکل آیا۔ آفس کے بعد میں ڈرائیور کو چھٹی دے دیتا تھا۔ یہ بھی اس لئے تھا کہ میرے ذاتی معاملات کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو۔ مجھے سپر مارکیٹ جانا تھا۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد پہلا قدم اٹھایا ہی تھا کہ وہ دونوں نظر آ گئیں۔

”ہیلو“ جینی نے فوراً خوشگوار لہجے میں کہا اور ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
”گڈ ایوننگ“ میں نے اس کے گداز ہاتھ کو نرمی سے دباتے ہوئے کہا۔
”آپ کیسی ہیں؟“ میں نے ارم کی طرف دیکھا۔
”جی شکر ہے“ ارم نے کہا۔
”تو شاپنگ ہو رہی ہے؟“ میں نے جینی کے بائیں ہاتھ میں شاپنگ بیگ کی طرف اشارہ کیا۔
”ایک ڈریس لیا ہے اور کچھ نہیں۔“ جینی نے کہا۔
”کیا میں دیکھ سکتا ہوں؟“

”یہیں پہن کر دکھاؤں کیا؟“ جینی نے شرارتی لہجے میں کہا۔ میں ہنس پڑا جبکہ ارم نے فوراً اسے آنکھیں دکھائیں۔

”نہیں نہیں۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ تو کل شام ایک پارٹی ہے۔ میرے ایک بہت قریبی دوست کی ویڈنگ انورسری ہے۔ آپ میری طرف سے دعوت قبول کریں اور وہاں ملتے ہیں۔“

”ہوں۔ آئی تھنک یہ مناسب نہیں ہو گا۔ پارٹی آپ کے فرینڈ کی ہے۔ انویٹیشن آپ دے رہے ہیں۔“ جینی نے نفی میں سر ہلایا۔

”ہم اپنی پارٹیوں میں اپنے دوستوں کو بھی بلاتے ہیں، اس طرح نئے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے، نئی دوستیاں بنتی ہیں۔ چلیں خیر اس بارے میں بعد میں بات کریں گے۔ ایک کپ کافی کے بارے میں کیا خیال ہے؟“ میں نے کہا۔

”آئیڈیا برا نہیں ہے۔“ جینی نے مسکرا کر کہا۔
”تو پھر آئیے۔“
کافی کے بہانے سے اچھی گپ شپ رہی۔

اس دن کی ملاقات کے بعد میرے دل میں عجیب سی بے چینی پیدا ہو گئی۔ میں اپنے اپارٹمنٹ میں بظاہر اکیلا تھا مگر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جینی بھی وہیں ہے۔ فضا میں اس کی آواز گونجتی تھی اور مجھے ہر طرف اسی کا عکس دکھائی دیتا تھا۔ میں اس سے ہمکلام تھا۔ اس کے لمس کو محسوس کر رہا تھا۔ اس کے بدن کی خوشبو مجھے پاگل بنا رہی تھی۔ رات دیر تک اسی کے خیالوں میں مگن رہا۔ اگلی صبح ناشتے کے لئے خاص ریسٹورنٹ میں گیا۔ وہ دونوں نہیں آئی تھیں۔

میں نے میسج کیا تو رپلائی آیا کہ آج وہ نہیں آ سکیں گی۔ بہت بے مزہ ہوا۔ جیسے تیسے ناشتا کر کے آفس چلا گیا۔ آفس میں بھی جی نہ لگا تو واپس اپنے اپارٹمنٹ میں آ گیا۔ پہلے سوچا کہ اسے فون کروں۔ پھر رک گیا۔ در اصل میں اب جو بات کہنا چاہتا تھا، اس کے لئے سوچ بچار کی ضرورت تھی لیکن میں غور و فکر میں وقت ضائع کرنے والے لوگوں میں سے نہیں تھا۔ شاید اسی لئے میں نے اپنے فون سے اسے کچھ ایسے میسیجز کر دیے جو دوستی کی حدوں سے باہر تھے۔

اب میں شدت سے جواب کا انتظار کر رہا تھا لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا۔

شاید وہ بہت مصروف ہو گی اور اس نے ابھی تک میسجز نہ پڑھے ہوں۔ میں سوچ رہا تھا کیوں نہ اسے فون کر لوں۔ فون اٹھایا پھر نمبر ملاتے ملاتے رک گیا۔ تھوڑی دیر اور انتظار کرنا چاہیے۔

میرا خیال تھا کہ انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ میں نے اسے یقین دلایا تھا کہ اسے دیکھنے کے بعد میری تلاش کا سلسلہ ختم ہوا۔ اس کی باتوں سے بھی یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے۔ اب میں نے تنہائی میں ملنے اور ایک دوسرے کو بہتر طور پر جاننے کی درخواست کی تھی تو اس پر اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔

اتنا تو وہ بھی سمجھتی ہو گی کہ میں نے اسے محض ڈنر کے لئے انوائیٹ نہیں کیا ہے۔ میں نے مختلف حیلے بہانوں سے خود کو بہلانے کی کوشش کی مگر اس کا خیال دل سے نکلتا ہی نہیں تھا۔

بالآخر دو گھنٹوں کے انتظار کے اس کا میسج ملا۔ لکھا تھا ”میں آ رہی ہوں“

دل میں اک لہر سی اٹھی۔ اگر چہ یقین تھا کہ یہی جواب ملے گا اس کے باوجود خوشی سے دل جھوم اٹھا۔ شام ہونے والی تھی۔ کمرے کی صبح اچھی طرح صفائی کروائی تھی پھر بھی میں مطمئن نہیں تھا۔ جہاں ذرا سی بے ترتیبی نظر آئی اسے ترتیب میں کیا۔ اپنا بہترین سوٹ پہنا۔ پرفیوم کا بے دریغ استعمال کرنے کے بعد سوچنے لگا کہ اس سے کیا باتیں کروں گا۔ کھانے کا آرڈر بھی دے چکا تھا۔ بیسیوں ڈشز ٹھیک ساڑھے سات بجے کمرے میں پہنچ جائیں گی۔ اس کے بعد کمرے میں صرف میں اور جینی ہوں گے کوئی دوسرا نہیں ہو گا۔

میں تصور میں اس کے نرم و گداز لمس کو محسوس کر رہا تھا۔ اب تو چند ساعتیں باقی ہیں پھر جینی میری بانہوں میں ہو گی۔ انتظار کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں، کچھ ایسا ہی حال تھا۔ آخر ڈور بیل بجی اور میرے دل میں جلترنگ بجنے لگا۔

تو بالآخر جینی میرے دروازے پر آ گئی ہے۔ گویا جسے پہلی نظر میں دیکھنے کے بعد میں نے جو کچھ سوچا تھا آج اس خواب کو تعبیر مل رہی ہے۔ میں دل ہی دل میں خود کو داد دے رہا تھا کہ کیا اندازہ لگایا تھا۔ جینی تر نوالہ ہی ثابت ہوئی تھی۔ مسکراتے ہوئے میں آگے بڑھا اور دروازہ کھول دیا۔

مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگا میں ایک قدم پیچھے ہٹا تو ارم اندر آ گئی۔
”ارم تم؟ تم یہاں کیسے آئیں۔“ میں گڑ بڑا گیا۔

”بھول گئے کیا؟ تم ہی نے تو میسج میں اپنا پتا لکھا تھا۔“ ارم مسکرائی۔ میں نے اب اسے غور سے دیکھا۔ آج اس کی تیاری غضب کی تھی۔ چہرے پر میک اپ کی تہیں بتا رہی تھیں کہ تیاری میں خاصا وقت صرف ہوا ہو گا۔

” لیکن میں نے تو جینی کو میسج کیا تھا“

”پھر ایک بات نظر انداز کر رہے ہو کہ وہ میری بیسٹ فرینڈ ہے۔ تمہارے سارے میسیجز ہم دونوں پڑھتی تھیں۔ تم نے جینی کے بارے میں غلط اندازہ لگایا تھا۔ وہ تمہیں صرف دوست سمجھتی تھی لیکن آج کے میسج کے بعد وہ دوستی کا تعلق بھی توڑنا چاہتی تھی۔ پھر میں نے وہ میسج کیا کہ میں آ رہی ہوں۔“

”لیکن ارم! تم نے ایسا کیوں کیا؟“

”اب بھی نہیں سمجھے مائی لو۔ دیکھو مجھ میں کیا کمی ہے؟ اور پھر وہ تو غیر ہے، میں تمہاری ہم وطن ہوں۔ مجھے چھو کر دیکھو جینی تمہیں یاد بھی نہیں رہے گی۔“ ارم نے خمار آلود آواز میں کہا۔ وہ سپردگی کا پیکر بن کر آگے بڑھی اور میرے سینے سے لگ گئی۔ میرا دل یوں دھڑکنے لگا جیسے میں نے میلوں کی دوڑ لگائی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments