عورت کی برابری صرف قانون بنانے سے ممکن نہیں (شہر بانو شریف)۔


\"hijab_woman\"

“۔ ۔ ” وہ لفظ تھا کہ سیسہ! سیدھا سماعت کو چیرتا ہوا اس کے کانوں سے ہی نہیں ٹکرایا بلکہ سر سے پیر تک اس کا سارا جسم جھنجھنا اٹھا تھا۔ اس کے کان سرخ ہوگئے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ یہ غلیظ گالی یا اس طرح کے دوسرےفحش کلمات اس کے کانوں میں پڑے تھے۔ اس سے پہلے بھی ایسے جملے اسے اور دوسری ساتھی خواتین کو سننا پڑے تھے مگر اس وقت تو شاید حد ہی ہوگئی تھی۔ الیکشن کی مہم اپنے عروج پر تھی۔ ایک جانب وہ تھی اور اس کا چھوٹا سا پینل جس میں اس کے ہی جیسے مخلص، محنتی اور دردمند صحافی شامل تھے۔ وہ اس الیکشن میں حصّہ لینا بھی نہیں چاہتی تھی کیونکہ پچھلی دفعہ اس نے ایک عرصے سے یونین پر قابض گروپ کو شکست تو دے دی تھی مگر وہ لوگ اپنی شکست کا بدلہ ہر روز اس کے بارے میں نت نئی افواہیں پھیلا کر لیا کرتے تھے۔ کبھی اس پر اپنی تنخواہ بڑھوانے کا الزام، تو کبھی انتظامیہ کے ساتھ ساز باز کرنے کا الزام اور تو اور اس پر پیسے لینے کا الزام بھی لگا دیا گیا۔ اس کا ہر دن ایک نئے امتحان اور ایک نئی کشمکش کے ساتھ شروع ہوتا تھا۔ مگر خدا کا کرنا ایسا ہواکہ ایک کے بعد ایک مخالف پروپیگنڈہ کا خاتمہ ہوتا گیا اور وہ کافی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی چلی گئی۔ اس نے بہت سے ایسے کام کیے جو اس سے پہلے نہیں کیے جاسکے تھے۔ لوگ خوش بھی ہوئے مگر کب تک۔ منفی پراپیگنڈہ تو روز کی کہانی تھی۔ لگتا تھا کہ جیسے مخالف گروپ نے نت نئی کہانیاں بنانے کے لئے باقاعدہ ایک فیکٹری لگا ئی ہوئی تھی جہاں سے ہر روز ایک نئی داستان تیار کر کے پیش کی جاتی تھی۔ پتھر پر پانی گرتا رہے تو اس میں بھی سوراخ ہوجاتا ہے یہ تو لوگوں کے دل تھے آخر کار اس منفی مہم کا شکار ہو ہی گئے اور آہستہ آہستہ نئے الیکشن کی بازگشت سنائی دی جانے لگی۔ وہ بھی کچھ مایوسی کا شکار ہو چلی تھی اس لئے سوچا کہ الیکشن کرواہی دیے جائیں تا کہ اس روز کے جھگڑے سے نجات مل سکے۔ پھر دوستوں نے ہمّت بندھائی اور اس کے انکار کے باوجود دوستوں کے اصرار پر وہ ایک نئی امنگ کے ساتھ دو بارہ الیکشن میں کھڑی ہوگئی۔

پچھلے کئی دنوں سےالیکشن کےہنگامے اپنےعروج پر تھے اور وہ اپنی انتخابی مہم کے لئے سرگرم تھی۔ نہ جانے یہ اس کا شوق تھا یا خدمت خلق کا جذبہ، جو شاید اسے اپنے اجداد سے ملا تھا، بس اسے شوق تھا کہ وہ اپنے پروفیشن کے لوگوں کے کام آئے۔ اسی لیے اس نے پچھلی دفعہ بھی اپنی یونین کے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ وہ ایک صحافتی ادارے میں کام کرتی تھی۔ دس سال سے زائد عرصہ گذرچکا تھا اور وہ خواتین صحافیوں کے ساتھ ہونے ہوالی زیادتیوں کو دیکھ دیکھ کر بے حد دکھی ہوتی تھی۔ خواتین صحافی، بالخصوص اخبار میں کام کرنے والی خواتین، پاکستان میں بے حد کسمپرسی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ کام کی زیادتی، کم تنخواہ، مرد باس۔ کوئی ایک دکھ ہو تو بتایا جائے، تعلیم اور قابلیت تو ایک طرف، ہر وقت اپنے آپ کو منوانے کے لئے نہ جانے کیا کیا جتن کرنا پڑتے تھے مگر ترقی یا فوائد کے نام پر ایک خاموشی یا نت نئی فرمائشوں کی فہرست تھما دی جاتی۔

”آپ بہت جلدی گھر چلی جاتی ہیں، ترقی کے لئے آفس کو وقت دینا پڑتا ہے۔ “

”بھئی تنخواہ بڑھوانی ہے تو ذرا زمانے کے ساتھ چلنا سیکھیں۔ “

یہ اور اس طرح کے کئی کاٹ دار جملے اس کی اور ساتھی کارکنوں کی ساری محنت اکارت کردیتے۔

اس دفعہ اس کی کوشش تھی کہ خواتین کو لیڈرشپ کے کردار میں لے کر آئے، ان کے مسائل، ان کے حقوق کے بارے میں آواز اٹھائے۔ اس سلسلے میں اسےکافی کامیابی بھی ہوچکی تھی۔ اس نے اپنی خواتین ساتھیوں کی رکنیت بھی بڑھائی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ جتنی بھی صحافی تنظیمیں ہیں ان میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ انہیں فیصلہ ساز پوزیشنوں پر لانا چاہتی تھی۔ وہ خود بھی اس پوزیشن پر بہت مشکل سے پہنچی تھی اور شاید پاکستان میں ان چند گنی چنی خواتین میں اس کا شمار ہوتا تھا جو اس مقام تک پہنچی تھیں۔

اس وقت یہ غلیظ لفظ سن کر وہ ایک لمحے کوتو مبہوت رہ گئی مگر دوسرے ہی لمحے اپنی ہمت مجتمع کرکے اس نے اس صحافی کو للکارا جس نے یہ لفظ ادا کیا تھا۔ اس کی گرجدار آواز سن کرتمام آس پاس کھڑے اس صحافی کے دوست اس کو تیزی سے ہال سے باہر لے گئے۔ دوتین قریب کھڑے لوگوں کی طرف جب اس نے کچھ شکایتی، کچھ پرامید نظروں سے دیکھا کہ شاید وہ اس بد تمیزی پر کچھ احتجاج کریں گے مگر جواب میں اسے مایوسی ہوئی۔ کیونکہ زیادہ تر نے کہا کہ انہوں نے ایسا کچھ سنا ہی نہیں۔

دوسری خواتین بھی وہاں بیٹھی تھیں وہ بھی کچھ پریشان اور کچھ حیران تھیں۔ کچھ دیر وہاں بھنبھناہٹ ہوئی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس شخص کی تو عادت ہی ایسی ہے۔ اس بات نے اسے اور بھی دکھی کردیا۔ کوئی بری بات کو برا کہنے کوتیار ہی نہیں۔

آخرکار اگلے دن اس نے اپنی انتظامیہ سے اس موضوع پر بات کرنے کی ٹھانی اور انہیں ایک چھوٹا سانوٹ لکھ کر اس موضوع کی حسّا سیت کا احساس دلایا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ خواتین کو اپنے کام کی جگہ پر ایک محفوظ ماحول چاہیے۔ اگرچہ کہ خواتین نے وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے رات کے وقت کام کرنے پر بھی حامی بھرلی تھی اور اپنے مزاج کے خلاف وہ تمام کام کر رہی تھیں جس کے ذریعے وہ اپنے کام کی اہمیت کا احساس دلا سکیں مگر لگتا تھا کہ سب کوششیں بے سود ثابت ہورہی ہیں۔ اس رات کا یہ واقعہ ان لاحاصل کوششوں کا غمّاز تھا۔

انتظامیہ سے بات کرنے کا نتیجہ حیران کن حد تک اس کی توقعات کے عین مطابق نکلا۔ وہ لوگ ایسی کسی بات کو برداشت نہیں کرسکتے تھے جس سے ان کے ادارے کی بدنامی ہو۔ ان کوائری ہوئی اور اس شخص کی برطرفی کے آرڈر آگئے خواتین میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی اورزیادہ تر خواتین نے اس کی بہادری کی تعریف کی خاص طور پر وہ خواتین تو بہت خوش تھیں جن کو اس طرح کے مسائل کا مستقل سامنا تھا مگر وہ اسے اپنا نصیب سمجھ کر خاموش ہو جاتی تھیں۔ آخر جاب بھی تو کرنا تھی۔

مگر دوسری جانب مرد ملازمین کے لئے شاید یہ فیصلہ ان کی غیرت پر تازیانہ ثابت ہوا اور انہوں نے اس کے خلاف ایک اور منفی مہم شروع کردی۔ اس کے لیے آفس آنا دوبھر ہوگیا۔ طنز بھرے جملے۔ معنی خیز مسکراہٹیں۔ ذومعنی باتیں۔

”ارے مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کا دعوی اور اتنی سی بات نہ برداشت کرسکیں“

”صحافی صحافی ہوتا ہے، کوئی مرد یا عورت نہیں ہوتا۔ “ جدید سوچ کے حامل ایک اور صحافی نے ٹکڑا لگایا۔

”ارے بھئی تمہیں اس کی عادت معلوم ہے۔ چھوڑ دو معاف کردو بے چارہ بے حد پریشان ہے۔ “ کیوں اس کیجاب کے پیچھے پڑی ہو“۔ کسی اور نے شرمندہ کرنے کی کوشش کی۔

انہی لڑائیوں اور کوششوں میں ؎ الیکشن کادن قریب آگیا مخالف گروپ کی مہم میں ایک اور نعرہ شامل ہوگیا تھا ”یہ خاتون تو ورکرز کی مخالف ہیں۔ یہ تو کسی کے لیے کام نہیں کرسکتیں۔ “

اسے دکھ اس وقت ہوا جب اس کے ہمدردوں کا ایک گروپ بھی مخالفین سے جاکر مل گیا۔ وہ پریشان نہیں تھی بس دکھی تھی کیونکہ اسے اپنے خواب ریزہ ریزہ ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ خواتین اور مرد صحافیوں کے لیے ایک باعزت روزگار اورسہولیات، ان کے جائز حقوق، معاشرے میں بہتر مقام، ان کو مالکان کے چنگل سے چھڑا کر ایک باعزت مقام دینے کا خواب، ٹھیکہ داری نظام کا خاتمہ اور سب سے بڑھ کر خواتین کوزیادہ سے زیادہ فیصلہ ساز پوزیشنوں پر لانے کا خواب۔ لگتا تھا اس کی کوششیں ایک دفعہ پھر ناکام بنائی جارہی تھیں۔

آخر کار الیکشن کا دن آگیا۔ اس دن آفس پہنچ کر اسے آس پاس عجیب سی اجنبیت کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ لوگ۔ وہ جگہ۔ وہ آفس۔ لگتا تھا کہ لوگوں کے ساتھ درو دیوار بھی اس سے نظریں چرارہے تھے۔ وہ خاموشی سے اپنے آپ کا دفاع کرتی رہی، لوگوں سے اپنے کیے ہوئے کاموں کے بارے میں بات کرتی رہی۔ کچھ دنوں سے وہ ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھ پا رہی تھی مگر آتے جاتے آفس میں لگے ٹی وی کی اسکرین پر نظر پڑتی تو اسے امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں کچھ خبریں مل ہی جاتی تھیں۔ ہلیریؔ جگہ جگہ دورہ کر رہی تھی، اس کے حامی خاص طور پر خواتین ہر جگہ اس کے ساتھ 18۔ 18 گھنٹے کام کر رہی تھیں۔ ایک عزم ان کے مسکراتے چہروں سے ہویدا تھا جبکہ اس کا مخالف امیدوار ڈونلڈ ٹرمپؔ، اقلیتوں اور خواتین کے بارے میں کافی نا مناسب بیانات دے رہا تھا جس کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

”مگر مجھے کیا؟“ اس نے سر جھٹک کرسوچا اور پھر اپنے ووٹرز کی طرف گھوم ہوگئی۔ آخرکار پولنگ کا اختتام ہوا اور رزلٹ کا تکلیف دہ انتظار شروع ہوا۔ وہ امیدوبیم کی کیفیت میں لوگوں سے مسکرا مسکرا کرملتی رہی۔ تین دن پہلے والے واقعہ کی بازگشت اب بھی کم نہیں ہوئی تھی۔ آدھی رات کے بعد نتیجہ آیا جو اس کی توقعات کے برعکس تھا۔ وہ بری طرح ہارچکی تھی۔ اگرچہ کہ اسے آس پاس کا ماحول دیکھ کرپہلے ہی کچھ اندازہ توہوگیا تھا کہ اس کے مخالفین کو تکلیف صرف اس کی ذات سے تھی مگر نتیجے کے بارے میں وہ کافی پر امید تھی۔ حا لانکہاس کی دوست نے اس سے کہا بھی تھا”دیکھو یہ لوگ تمہیں حراساں کررہے ہیں۔ یہ تمہیں بحیثیت خاتون لیڈر کبھی قبول نہیں کریں گے۔ “ مگر اس نے ہنس کر اسے تسلی دی ”نہیں ڈیئر ایسا نہیں ہے، یہ سب لوگ میری بے حد عزت کرتے ہیں۔ مجھے اتنا عرصہ کام کرتے ہوئے ہو گیا انہوں نے مجھے کبھی ایساکوئی احساس نہیں ہونے دیا“۔

”تم بے وقوف ہو“۔ دوست نے پھر کہا ”تم نے جب تک ان کو چیلنج نہیں کیا تھا وہ تمہاری عزت کررہے تھے۔ اب جبکہ تم ان کی جگہ لینا چاہتی ہو۔ ۔ ان پر حکمرانی کرناچاہتی ہوتو وہ تمہیں کبھی بھی قبول نہ کریں گے۔ “

”نہیں نہیں! تم غلط سوچ رہی ہو“ اس وقت تو اس نے اپنی دوست کی بات سختی سے رد کردی تھی مگر الیکشن کا ریزلٹ دیکھ کر وہ سوچ میں پڑگئی۔ مگر جلد ہی اپنے اس احساس پر قا بو پاتے ہوئے اس نے سر جھٹکا اور جیتنے والوں کے لیے دل بھر کے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اسے لوگوں کے منافقت بھرے تعریفی جملے اور ان کی ذو معنی ہنسی بہت کچھ بتا رہی تھی مگر وہ ایک نئے عزم کے ساتھ کہ ”اب میں زیادہ محنت کروں گی“اٹھی اور اپنے گھر روانہ ہوگئی۔

صبح وہ دیر سے جاگی، اچانک اس کی نظر ٹی وی اسکرین پرپڑی ”ڈونلڈ ٹرمپ جیت گیا، ہیلری الیکشن ہارگئی“ بریکنگ نیوز کا ٹکر اس کا منہ چڑا رہا تھا، تجزیہ نگار چیخ چیخ کراپنے تاثرات کا اظہار کررہے تھے ”امریکی چاہے کتنے بھی پڑھے لکھے ماڈرن اور وسیع النظر کیوں نہ ہوں مگر ایک عورت کو سربراہ مملکت کے روپ میں نہیں دیکھ سکتے“۔

”وہ ایک منافق، ضدّی، جنس پرست اور متعصّب مرد کو ایک مخلص، محنتی اور پر عزم عورت پر ترجیح دیں گے“ ایک تجزیہ نگار نے ہانک لگایٰ

وہ سر جھٹک کر مسکرا دی اور زیرلب کہا ”میری اور ہیلری کی شکست کتنی ملتی جلتی ہے۔ “ پھر چشم تصوٗر میں ہیلری کو مخاطب کیا ”ہیلری ہم عورتیں چاہے کہیں بھی ہوں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں۔ یا تمہارے جیسے ترقی یافتہ معاشرہ میں۔ مرد ہمیں برابری تودور کی بات۔ 100 قدم پیچھے ہی دیکھنا چاہتے ہیں“۔

”چاہے کتنے ہی برابری کے قوانین بنالو۔ کتنے ہی دعوے کرلو۔ حقیقت ہمیشہ افسانے سے مختلف ہی ہوتی ہے۔ “

”ہمارا اور تمہارا طویل اور صبر آزما سفر ابھی جاری ہے اور تب تک جاری رہے گا جب تک ہمیں ہمارا مقام نہیں مل جاتا۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments