نوشابہ کی ڈائری: مشرقی پاکستان اور کنفیڈریشن کا ذکر


دل کی عجیب حالت ہے، خوش بھی افسردہ بھی۔ باجی جو شادی ہوکر حیدرآباد جارہی ہیں۔ مجھے سمجھا رہی تھیں ”ارے یہ تو رہا حیدرآباد، جب ملنے کو دل چاہے امی کے ساتھ صبح آنا شام کو واپس چلی جانا۔“ کتنا بھی قریب ہو ہے تو دوسرا شہر نا، پھر ہمارے گھر میں ٹیلی فون بھی نہیں کہ جب بات کرنے کو دل کیا فون ملالیا۔ چھوٹی خالہ کے ہاں فون ہے، کتنا مزا آتا ہے رانگ نمبر ملاکر بات کرنے میں۔ ہم لوگ جب کراچی جاتے ہیں تو میں، شائستہ اور شگفتہ رات کو یہ سب کرتی ہیں جب خالہ خالو سوجاتے ہیں۔ ہمیں بھی کراچی میں جا بسنا ہے، وہاں سے حیدرآباد جانا ہوا کرے گا۔ ابو بس میرے میٹرک کرنے کا انتظار کر رہے ہیں، پھر ہم چلے جائیں گے۔ میں دسویں میں آہی گئی ہوں، بس امتحان ہوئے اور ہماری روانگی۔

اگلے مہینے باجی چلی جائیں گی تو گھر کا سارا کام مجھے کرنا پڑے گا۔ اب بھی کتنے دن ہو جاتے ہیں ڈائری لکھنے میں، تین مہینے بعد لکھ رہی ہوں، باجی کے جانے کے بعد تو گھر کے کام، پڑھائی، مگر لکھتی رہوں گی جب بھی وقت ملا۔ مس نرگس نے کہا تھا اپنی پرانی ڈائری پڑھنے میں بڑا مزا آتا ہے، واقعی، ابھی میں نے چند صفحے ہی لکھے ہیں لیکن انھیں پڑھتی ہوں تو اچھا لگتا ہے۔

آخر سعید کا خط آہی گیا، میں جواب نہیں دوں گی، چلو دوں گی تو مگر بہت انتظار کروا کے۔ موصوف ”مہاجر قوم“ کے غم میں ہلکان ہیں۔ پورا خط انھی باتوں سے بھرا ہے۔ ایک ہفتے سے تھے کراچی میں، جلسے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ مہاجرقومی موومنٹ کا جلسہ جو کراچی میں ہوا ہے، بہت بڑا جلسہ تھا۔ سعید نے لکھا ہے کہ ”پورا نشتر پارک بھرا ہوا تھا، بارش ہوئی مگر سب بیٹھے رہے، کوئی نہیں گیا۔ خوب ہوائی فائرنگ ہوئی۔ میں نے بھی فائر کیے۔

“ یہ سب تو ابو بھی بتاچکے ہیں۔ دن کو پورا اخبار پڑھتے ہیں اور شام کو چائے پیتے ہوئے خبریں سناتے اور تبصرے کرتے ہیں۔ ہم لوگ تو چپ چاپ سن لیتے ہیں لیکن بھائی جان ہوں یا کوئی مہمان آیا ہو تو کبھی کبھی سیاست پر بحث چھڑ جاتی ہے۔ پرسوں شام بڑے خالو آئے ہوئے تھے۔ ابو اور بڑے خالو ایم کیوایم اور نشترپارک کے جلسے پر دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میں سن رہی تھی مگر سمجھ نہیں پارہی تھی۔ بڑے خالو کہہ رہے تھے، ”الطاف حسین نے بات تو ٹھیک کی ہے۔

اب اگر مشرقی پاکستان جیسا معاملہ ہو تو مہاجروں کو قربانی کا بکرا نہیں بننا چاہیے۔ الطاف حسین نے جن تین طاقتوں کی بات کی ہے، ہمیں ان میں سے کسی کا بھی ساتھ نہیں دینا چاہیے۔“ ابو کو ان سے اختلاف تھا، کہنے لگے، ”ہاتھیوں کی لڑائی میں گھانس غیرجانب دار ہی ہوتی ہے، مگر سب سے زیادہ نقصان اسی کا ہوتا ہے۔ ویسے بھی جس خدشے کی بات کی جارہی ہے اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے کٹا ہوا اور ہزار کلومیٹر دور تھا، بنگالیوں کی آبادی ملک کی تمام قومیتوں سے زیادہ تھی۔

یہ صورت حال نہ سندھ کی ہے نہ بلوچستان کی، پختون فوج میں ہیں پورے ملک میں پھیلے ہیں، وہ علحیدگی کیوں چاہیں گے۔“ کافی دیر تک یہی گفتگو ہوتی رہی۔ مشرقی پاکستان اور کنفیڈریشن کا ذکر باربار ہورہا تھا۔ مشرقی پاکستان کے بارے میں بھائی جان سے پوچھا تھا، انھوں نے بہت کچھ بتایا اور ایک پرانی کتاب میں شامل انگریزوں کے دور کے ہندوستان کا نقشہ بھی دکھایا اور اس کے ایک سرے پر انگلی رکھ کر بتایا ”یہ پاکستان ہے“ پھر آخری سرے پر انگلی رکھ کر کہنے لگے ”یہ تھا مشرقی پاکستان“ میں نے حیرانی سے پوچھا تھا ”اتنی دور۔

“ کنفیڈریشن کے بارے میں اخبار میں چھپتا رہتا ہے۔ اس کا نعرہ سندھی بلوچ پشتون فرنٹ والے لگاتے ہیں ممتازعلی بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ وغیرہ شہاب بھائی نے بتایا تھا کہ کنفیڈریشن کا مطلب ہے کہ صوبے مکمل خودمختار ہوں گے، انھوں نے بہت تفصیل سے بتایا تھا مگر میری سمجھ میں زیادہ نہیں آیا۔ میں نے ڈھونڈ کر وہ اخبار نکالا جس میں نشترپارک کے جلسے کی خبر اور الطاف حسین کی تقریر چھپی تھی۔ الطاف حسین نے اپنی تقریر میں کہا تھا ملک میں تین طاقتیں ہیں، فوجی، پیپلزپارٹی، اور کنفیڈریشن اور علیحدگی پسند۔

اگر پہلی دو قوتیں ناکام ہوجاتی ہیں تو پھر تیسرے فریق کو تقویت حاصل ہوگی اور اس صورت حال میں مہاجروں کو اپنے کردار کا تعیں کر لینا چاہیے اور انھیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ سانحہ مشرقی پاکستان نہیں دہرایا جائے گا، کیوں کہ اس تجربے نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہمیں فوج سے آگے بڑھ کر قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اپنے گھروں کی حفاظت کرنا چاہیے۔ ملک کی حفاظت وہ کریں جنہیں اس کی تنخواہ ملتی ہے۔ ”ان سب باتوں سے ایسا لگتا ہے جیسے کچھ ہونے والا ہے اس لیے مہاجروں کو اپنی بچت کا سامان کرلینا چاہیے۔ ہر طرف ایسی ہی باتیں ہو رہی ہیں۔ پتا نہیں ایسا کیا ہونے والا ہے؟

بھائی جان بھی تو کراچی چلے گئے۔ وہاں نوکری لگ گئی ہے نا۔ ہر جمعرات کی رات آتے ہیں ”مہران ایکسپریس“ سے اور ہفتے کی صبح چلے جاتے ہیں۔ جمعرات کو ان کے آنے کا انتظار رہتا ہے، کب دور ریلوے اسٹیشن سے ٹرین کی سیٹی کی آواز آئے اور اس کے کچھ دیر بعد بھائی جان چھوٹا سا بیگ لٹکائے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائیں۔

خیر میں سعید کے خط کی بات کر رہی تھی۔ اس نے لکھا ہے کہ مہاجر جاگ گئے ہیں (میں جواب میں لکھوں گی تو ان سے کہو منہ دھوکر ناشتہ کر لیں، ہی ہی ہی) اور لکھا ہے کہ میرا تو اب جینا مرنا مہاجر قوم اور الطاف بھائی کے لیے ہے۔ ایسے کتنے ہی جذباتی ڈائیلاگ لکھے ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ اگلا جلسہ حیدرآباد میں ہوگا۔ خط نہیں لگتا ہے اخبار پڑھ رہی ہوں یا کوئی مضمون، ارے بھئی اپنی بات کرو۔ اپنی بات بس اتنی ہے کہ ”نوشابہ تم بہت یاد آتی ہو۔“ ہمیشہ آخر میں سلام محبت لکھتا تھا، اس بار ”جیے مہاجر“ لکھا۔ چلو جو بھی لکھا، خط تو آیا، دن نہیں گزر رہے تھے۔

بھائی جان بھی شہاب بھائی کے ساتھ اس جلسے میں گئے تھے جس کی تیاری میں سعید بھی لگا تھا۔ اب پتا چلا شہاب بھائی بھی ایم کیوایم کے کارکن بن گئے ہیں۔ بھائی جان امی سے کہہ رہے تھے، ”امی پہلی بار کسی جلسے میں ہمارے مسائل کی بات کی گئی۔“ اور یہ بھی کہہ رہے تھے، ”الطاف حسین کیا تقریر کرتا ہے۔ پانی میں آگ لگادیتا ہے۔“

مزے کی بات، بھائی جان کو ڈانٹ پڑگئی، اکثر پڑتی ہے۔ ہوا یہ کہ انھوں نے پتا نہیں کس بات پر کہہ دیا ”اپن لوگ جب کراچی شفٹ ہوجائیں گے ․․․“ بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ امی نے جھاڑ پلادی ”یہ اپن لوگ کیا ہوتا ہے، باہر رہ رہ کر تمھاری زبان بگڑ گئی ہے۔ تمھارے ابو نے سن لیا تو دماغ درست کردیں گے۔“ بھائی جان بہت غلط اردو بولتے ہیں، پتا نہیں کون کون سے لفظ بول جاتے ہیں، جس پر انھیں امی اور ابو سے سننی پڑتی ہے۔ کبھی کبھی مجھے بھی اسی وجہ سے ڈانٹ پڑ جاتی ہے۔

کچھ دنوں پہلے زینت پھپھو آئی تھیں۔ زینت پھپھو کراچی میں رہ کر اتنا سخت پردہ کرتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ کراچی میں بھلا کون پردہ کرتا ہے۔ باجی بھی وہاں جاکر برقع اتار دیتی ہیں، ورنہ سب مذاق اڑاتے ہیں۔ پھوپھا اس معاملے میں بہت سخت ہیں، پورے مولوی ہیں۔ گھر میں ٹی وی ہے مگر سب کو صرف خبریں دیکھنے کی اجازت ہے۔ پھپھو بہت پریشان تھیں۔ بتارہی تھیں عرفان افغانستان چلا گیا ہے جہاد کرنے۔ دو ہی دو بیٹے ہیں عمران اور عرفان۔

دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ۔ عمران بھائی نماز پڑھنے بھی نہیں جاتے اور چھوٹا بھائی جہاد پر چلا گیا۔ عرفان نے ابھی سے داڑھی رکھ لی اور بڑے بھائی صاحب کی داڑھی مونچھیں صفاچٹ۔ پھوپھا نے کتنی بار جمعہ کی نماز نہ پڑھنے اور الٹی سیدھی باتیں کرنے پر عمران بھائی کو مارا ہے، مگر باز ہی نہیں آتے۔ کہتے ہیں ”سب بے کار کی باتیں ہیں۔“ پھوپھا کہتے ہیں فضول قسم کی کتابیں پڑھ کر کمیونسٹ ہوگیا ہے۔ ابو، پھوپھا کو بھی سمجھاتے ہیں کہ اولاد پر اتنی سختی اچھی نہیں ہوتی، اور عمران بھائی کو بھی کہ باپ کی بات مان لیا کرو، مگر دونوں ہی نہیں سنتے۔

پھوپھا تو اب عمران بھائی سے بات بھی نہیں کرتے۔ پھپھو سے ان کا ذکر بھی ”آپ کے صاحب زادے“ کہہ کر کرتے ہیں۔ پھپھو امی ابو سے کہہ رہی تھیں دعا کرنا میرا بیٹا صحیح سلامت واپس آ جائے۔ میں نے افغانستان کے حالات پر ڈراما دیکھا تھا ”پناہ“ عظمیٰ گیلانی تھی اس میں۔ عظمیٰ گیلانی کی بھی کیا زبردست شخصیت ہے۔ اس ڈرامے میں افغانیوں پر روس کے حملے اور ان کے پاکستان میں پناہ لینے کی کہانی دکھائی گئی تھی۔ دل بہت دکھا تھا دیکھ کر۔ خیر، اللہ کرے پھپھو کی پریشانی دور ہو عرفان ساتھ خیریت کے واپس آ جائے۔

ایک اور بات، پتا نہیں لکھنی چاہیے یا نہیں۔ ایک ہفتے پہلے اسکول میں میرے کپڑے خراب ہوگئے، خون ہی خون، میں تو پریشان ہوکر رونے لگی، پھر کیمسٹری کی ٹیچر مس شہناز نے مجھے ایک طرف لے جاکر سمجھایا کہ یہ تو سب لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پوچھنے لگیں تمھاری امی نے تمھیں کچھ نہیں بتایا؟ میں نے کہا نہیں۔ گھر آکر امی کو بتایا تو ایسے مسکرادیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ پھر انھوں نے بھی سمجھایا۔ تسلی ہوگئی، مگر یہ کیا مصیبت ہے ہم لڑکیوں کے ساتھ، وہ بھی ہر مہینے۔

میں نے امی سے کہا یہ ہوتا ہے تو آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں، کہنے لگیں ”ارے ایسی باتیں وقت سے پہلے نہیں بتائی جاتیں، یہی تہذیب ہے، وقت آنے پر خود پتا چل جاتا ہے۔“ لو، یہ کیا بات ہوئی۔ اب بہت زور کی نیند آ رہی ہے۔ سورہی ہوں۔ خداحافظ۔ پھوپھا ایک دن کہہ رہے تھے ”خداحافظ کہنا غلط ہے، اللہ حافظ کہنا چاہیے۔“ ان کے سامنے اب اللہ حافظ ہی کہنا ہے، یاد رکھنا۔

11 اگست 1986

اس سیریز کے دیگر حصےمس مارگریٹ نعت پڑھتیں تو لگتا پکی مسلمان ہیںنوشابہ کی ڈائری: ٹی وی فریج بیچ کر اسلحہ خریدنا ہوگا 28 دسمبر 1986

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments