’تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ‘ پر تحفظات، پرویز الہی کی شیعہ علما کونسل کو ’مشاورت کی یقین دہانی‘


پاکستان کے صوبے پنجاب میں شیعہ علما کونسل نے سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کو تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے جس کے بعد کونسل کے سیکریٹری جنرل کے مطابق انھیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس بل کو اس وقت تک آگے نہیں بھیجا جائے گا جب تک کہ تمام مکاتب فکر اور علما کے ساتھ مشاورت نہیں کر لی جاتی۔

شیعہ علما کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی کی زیر صدارت ملنے والے تین رکنی وفد نے پیر کو پرویز الہی کو پنجاب کے بنیاد اسلام ایکٹ پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی نے ’ہمارے تحفظات کو مانتے ہوئے یقین دلایا کہ آج سے اس بل پر تمام مکاتب فکر اور علما کے ساتھ مشاورت کے عمل کا آغاز کیا جاتا ہے اور جب تک شیعہ علما کے تحفظات دور نہیں ہو جاتے اس بل کو آگے نہیں بھیجا جائے گا۔‘

عارف واحدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج سپیکر پنجاب اسمبلی سے تقریباً دو گھنٹے تک ملاقات جاری رہی جس میں ہم نے اس ایکٹ پر شق وار اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔‘

شیعہ مکتبہ فکر کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے یہ ’اقدام غلط ہے‘ اور اس سے ’ملک میں ایک نئی فرقہ وارنہ بحث کا آغاز ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کیا ہے اور اس پر تنقید کیوں؟

اسلامیات کی کتاب پر پابندی کیوں لگائی گئی؟

کیا ریاست کو کتابوں پر پابندی لگانی چاہیے؟


تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ کیا ہے؟

واضح رہے کہ تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ کے تحت ہر قسم کی ایسی کتابوں یا دیگر اشاعت پر پابندی ہوگی جن میں ‘اللہ، پیغمبرِ اسلام، دیگر مذاہب کے انبیا، مقدس کتب، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، فرشتوں، اہلِ بیت کے حوالے سے کوئی گستاخانہ، تنقید پر مبنی مواد شامل ہوگا۔

اس قانون کے مطابق کتابوں میں ‘جہاں بھی اسلام کے آخری پیغمبر کا نام لکھا جائے گا، اس سے پہلے خاتم النبیین اور اس کے بعد عربی رسم الخط میں صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم لکھنا لازم ہو گا۔’

اسی طرح دیگر انبیا، صحابہ، خلفا راشدین، امہات المومنین اور دیگر مقدس ہستیوں کے نام کے ساتھ بھی اسلامی تعریفی القابات لکھنا لازمی ہو گا۔


شیعہ علما و رہنماؤں کے کیا تحفظات ہیں؟

شیعہ علما کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی کی سربراہی میں سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی سے ملاقات کرتے ہوئے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس حوالے سے انھیں ایک تین صفحات پر مشتمل مسودہ دیا گیا ہے جس میں ’ہمارے تمام تحفظات درج ہیں جس کو انھوں نے قبول کرتے ہوئے اس پر مشاورت جاری رکھنے کا کہا ہے۔‘

شیعہ

شعیہ علما کونسل کے چند اہم نکات

ایکٹ کے نام پر تحفظ

شیعہ علما کونسل نے پنجاب حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے ’تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ‘ کے نام پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایکٹ کا نام مناسب نہیں ہے۔

کتب کی اشاعت

شعیہ علما کونسل کی جانب سے اس قانون میں کتب کی اشاعت سے متعلق پابندی اور شرائط کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چند حکومتی حلقوں کی جانب سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ قانون قابل اعتراض مواد کی روک تھام کے لیے ہے ’جبکہ اس قانون کے تحت مذہبی اور عمومی کتابوں اور لٹریچر پر قدغن عائد کی جا رہی ہے۔‘

اس حوالے سے علامہ عارف واحدی کا کہنا تھا کہ ‘اس قانون کے تحت صرف مذہبی کتابوں کا ہی نہیں بلکہ تمام عمومی کتابوں کا مسئلہ ہے۔’

ان کے مطابق ’اس قانون کے تحت باہر سے کوئی کتاب نہیں آ سکے گی۔ یہ عوام کو جدید علوم، تحقیق اور دنیا کے لٹریچر سے محروم کرنے والی بات ہے۔’

انھوں نے کہا کہ اس قانون کا ’مقصد عوام کے نظریات کو روکنا اور ان پر قابو پانا ہے جو کسی جمہوری حکومت یا ملک میں نہیں ہو سکتا، ایسا دور آمریت میں ہوتا ہے۔’

آئین پاکستان کی خلاف ورزی

شیعہ علما کونسل نے اس ایکٹ کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 19، 20 اور آرٹیکل 227 سے متصادم اور خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ملک کا آئین پر مسلک، فرقے اور مذہب کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق فراہم کرتا ہے۔‘

متحدہ علما بورڈ پنجاب اور قابل اعتراض مواد

شیعہ علما کونسل کی جانب سے اس قانون پر یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا ہے کہ اگر یہ قانون قابل اعتراض مواد کی روک تھام کے لیے بنایا گیا ہے تو صوبے میں پہلے سے ایک متحدہ علما بورڈ کا ادارہ فعال ہے جس نے گذشتہ برسوں میں متعدد کتابوں اور قابل اعتراض مواد پر پابندی عائد کی ہے۔ ان کے مطابق ’اس ادارے کی موجودگی میں اس قانون کی ضرورت ہی نہیں۔‘

پہلے سے موجود قوانین

شعیہ علما کونسل کی جانب سے اس قانون پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ایکٹ میں متنازعہ کتب کی اشاعت پر پانچ سال قید و جرمانہ اور خاص مواد کی اشاعت پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے مطابق سزا دینے کی تجویز دی گئی ہے ’تو اگر پہلے سے قوانین موجود ہیں تو ایسے میں اس بل کی ضرورت نہیں رہتی۔‘

بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ

شیغہ علما کونسل نے اس قانون کو انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس قانون میں کتب کے اشاعت کے حوالے سے شرائط اور پابندیاں انسانی فکر اور سوچ پر قدغن کے مترادف ہے۔ یہ قانون ایک معتصبانہ سوچ کا عکاس ہے۔ اس سے ملک میں علمی تحقیق کو محدود کیا جائے گا۔‘ کونسل کے مطابق ’جبکہ ملک میں پہلے سے بیرون ملک سے آنے والی کتابوں کی اشاعت کے لیے پرنٹرز اور پبلشرز کے قوانین موجود ہے تو اس قانون کو منظور کروانا ناقابل فہم ہے۔‘

اسلامی تاریخ کے حقائق سے انکار

شیعہ علما کونسل کا کہنا ہے کہ اس قانون کو تیار کرتے وقت ’ایک مخصوص سطحی اور معتصابہ سوچ کو تقویت بخشتے ہوئے اس میں اسلامی تاریخ کے ناقابل تردید حقائق سے انکار کرتے ہوئے مسلمہ تاریخی اختلاقی امور سے رو گردانی کی گئی۔‘

اسلامی تعریفی القاب کے استعمال پر تحفظات

شیعہ علما کونسل کی جانب سے پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کی دفعہ 3 ایف جس کے ذریعے مقدس شخصیات کے ناموں کے ساتھ مخصوص اسلامی تعریفی القاب کا استعمال لازم بنایا گیا ہے اس پر بھی اعتراض اور تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

مذہبی مکاتب و مسالک کی تکریم

شیعہ علما کونسل کی جانب سے یہ بھی نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ اس قانون میں کوئی ’ایسی شق موجود نہیں جو دیگر مکاتب فکر اور مسالک کی تکریم کا تحفظ کرے۔‘

شیعہ علما کونسل کا موقف

شیعہ علما کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف واحدی کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور اتحاد کو ہمیشہ فروغ دینے میں سرگرم رہی ہے اور وہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کی خواہشمند ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ریاست کوئی فرقہ وارنہ ریاست نہیں ہے، اس ملک میں کسی ایک فرقے کی بالادستی نہیں ہے، بلکہ اس ملک کو تمام مذاہب اور فرقوں کے ماننے والوں کے لیے بنایا گیا تھا، مسلم غیر مسلم یہاں بسنے والے تمام اس ملک کے شہری ہیں، سب کے برابر کے حقوق ہیں اور یہاں فرقہ وارانہ تقسیم کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔’

شیعہ علما کونسل کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ’محرم الحرام سے چند دن قبل ایسے قانون کو لانا ملک میں مذہبی ہم آہنگی کی فضا کو خراب کرنا اور فرقہ واریت اور تشدد کو ہوا دینے کی ایک کوشش ہے جس کو ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی نے ’ہمارے تحفظات کو مانتے ہوئے یقین دلایا کہ آج سے اس بل پر تمام مکاتب فکر اور علما کے ساتھ مشاورت کے عمل کا آغاز کیا جاتا ہے اور جب تک شیعہ علما کے تحفظات دور نہیں ہو جاتے اس بل کو آگے نہیں بھیجا جائے گا۔‘

’پرویز الہی اپنی پوزیشن واضح کریں‘

’صوبائی و وفاقی حکومت کو مشاورت کا کہا ہے‘

مجلس وحدت المسلمین کے رہنما ناصر عباس کا کہنا ہے کہ انھوں نے پنجاب حکومت میں گورنر پنجاب کو خط لکھنے کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت، وفاقی وزارت برائے مذہبی امور سمیت چند دیگر وزارتوں اور وزیروں کو بھی اس سے متعلق خط لکھ کر اپنے تحفظات سے تحریری طور پر آگاہ کیا ہے۔

تاہم اب تک کسی بھی حکومتی پلیٹ فارم سے اہل تشیع مکتب فکر سمیت وفاق المدارس اور دیگر علما کو اس پر مشاورت کی دعوت نہیں دی گئی ہے نہ ہی اس پر باضابطہ مشاورت کی گئی ہے۔

اس ضمن میں جب پنجاب حکومت کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے رابطے کر کے موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت سے بات کرنے کا کہا۔

بی بی سی کی جانب سے متعدد بار صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔

کتابیں

ماہرین کی رائے

لمز یونیورسٹی کے پروفیسر اور جنوبی ایشیا میں اسلامی تاریخ کے ماہر علی عثمان قاسمی کا کہنا ہے کہ ’نہ یہ بل مناسب ہے نہ ہی یہ قانون مناسب ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کو جب بھی لایا جاتا اس پر اتنا ہی ہنگامہ ہونا تھا کیونکہ اس میں بنیادی عقائد کے معاملے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا پاکستان میں شیعہ علماؤں اور جماعتوں کی ایک تاریخ ہے۔ ’حکومت پنجاب نے ایک غیر ضروری بحث کا آغاز کیا ہے کہ کس مذہبی شخصیت کے نام کے ساتھ کیا تعریفی القابات استعمال کیے جائیں گے۔ جبکہ اس حوالے سے پہلے ہی قوانین موجود ہیں۔ مذہبی شخصیات کے ناموس کے تحفظ کے لیے بھی قوانین موجود ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے ملک میں بہت بڑا فساد کھڑا ہونے کا خدشہ ہے۔‘

حکومت کا اس قانون کو متعارف کروانے کے مقصد پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ا’س بل کا نہ تو کہیں سے مطالبہ آیا تھا، نہ ہی کوئی تحریک چل رہی تھی، لیکن اگر اس بل کو حکومت کی جانب سے تمام مدارس کو ایک صفحے پر لانے اور تمام مدارس میں یکساں نصاب متعارف کروانے کے تناظر میں دیکھیں تو حکومت کو مذہبی گروہوں اور مدارس کو رعایت دینی پڑے گی۔ یہ رعائتیں مخلتف طرح سے دی جا رہی ہیں جس میں پرائمری تک ناظرہ قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دینا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح علما کی طاقت کو بے حساب بڑھا دیا جائے تاکہ کوئی بھی کتاب ان کی اجازت کے بغیر شائع نہ ہو سکے۔ لگتا یہ ہے کہ اس قانون کا مقصد علما کو ایک رعایت دینا تھا تاکہ باقی معاملات پر ان کی رضامندی حاصل کی جا سکے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp