حزب اختلاف کی سیاست کا مخمصہ


پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاست مجموعی طور پر محازآرائی، ایک دوسرے کی حکومتوں کو قبول نہ کرنا، حکومتوں کو گرانا، کمزورکرنا اور الزام تراشی، کردار کشی سمیت اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مل کر غیر جمہوری کھیل سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کھیل میں کوئی ایک سیاسی جماعت ملوث نہیں بلکہ تمام حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف منفی کھیل کھیلتی رہی ہیں۔ حزب اختلاف جمہوریت سے جڑے نظام میں مستقبل کی حکومت ہوتی ہے یا اسے حکومت کے مقابلے میں ایک متبادل نگرانی کا ایک ایسا گروہ کہاجاتا ہے جو حکومتی سطح پر موجود غلط پالیسیوں یا حکمرانی کے نظام میں متبادل پالیسی یا حکمت عملی کو پیش کرتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی نظام حکومت اور حزب اختلاف کے باہمی تعلقات میں بہتری اور ایک دوسرے کو قبول کرکے تعاون کے امکانات سے ہی مسائل سے نمٹ سکتا ہے۔

لیکن لگتا یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی طرح حزب اختلاف کی سیاست نے بھی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جمہوری نظام مضبوط ہونے کی بجائے کمزوری کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ عمران خان نے ماضی میں بطور حزب اختلاف جو کچھ کیا اس پر بہت سے لوگوں کی تنقید کافی جائزہے۔ لیکن آج کی حزب اختلاف کا طرز عمل بھی ماضی کی حزب اختلاف سے مختلف نہیں۔ اس وقت ملک میں جو حزب اختلاف کی جماعتیں ہیں حکومت کے خلاف کھڑی نظر آتی ہیں۔ ان کا مجموعی بیانیہ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت ناکام ہوگئی ہے او ر یہ عوامی مینڈیٹ کے بغیر اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت سے تشکیل دی گئی ہے۔ ان کے بقول اس حکومت کی تبدیلی ملک کی سلامتی، بقا اور عوامی سطح کے مفادات کو ممکن بنانے کے لیے ناگزیر ہوگئی ہے۔

اس وقت حزب اختلاف کی جماعتوں میں جو جماعتیں نمایاں ہیں ان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، افتاب شیر پاؤ سمیت جماعت اسلامی نمایاں ہیں۔ اس وقت حزب اختلاف کی سیاست پانچ بنیادی نکات کے گردہ گھوم رہی ہے۔ اول وزیر اعظم عمران خان کا استعفی، دوئم مائنس ون فارمولہ او رپی ٹی آئی میں سے نئے وزیر اعظم کا انتخاب، سوئم تحریک عدم اعتماد کی بنیاد پر وزیر اعظم کی رخصتی، چہارم فوری نئے منصفانہ اور شفاف سطح کے انتخابات کے لیے ملک گیر عوامی تحریک، پنجم اسٹیبلیشمنٹ فوری طور پر عمران خان او ران کی حکومت کی حمایت سے دست برادر ہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان چاروں نکات پر حزب اختلاف کی جماعتوں میں کسی ایک نکتہ پر اتفاق نہیں۔ ہر جماعت کا اپنا موقف ہے اور وہ دوسرے گروہ کے موقف کی حمایت نہیں کرتی۔ مثال کے طور پر مولانا فضل الرحمن کی حکومت گراوایجنڈے پر پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ ن کی سوچ کافی مختلف نظر آتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں سے نالاں اور فاصلے پر بھی ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ دونوں جماعتیں حکومت گرانے کے ایجنڈے پر سیاسی مصلحت سمیت سیاسی مجبوریوں کا شکار ہیں۔

پیپلز پارٹی بنیادی طور پر سندھ میں ایک مضبوط حکومت رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ اگر وفاق کی حکومت گرتی ہے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہ بات محض سیاسی بنیادوں پر وفاق تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے سیاسی اثرات سندھ سمیت دیگر صوبائی حکومتوں پر بھی پڑیں گے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کسی ایسے ایجنڈے کی حمایت نہیں کرے گی جس سے اس کی اپنی صوبائی حکومت کو کوئی بڑا خطرہ پیدا ہو۔ پیپلز پارٹی میں اگرچہ بلاول سرگرم ہیں لیکن سب جانتے ہیں آج بھی پیپلزپارٹی میں فیصلے کی اصل سیاسی طاقت آصف علی زرداری ہیں اور وہ جو بھی فیصلہ یا سیاست کریں گے وہ ہی فی الحال حتمی تصور ہوگا۔

مسلم لیگ ن دو کشتیوں میں سوار ہے۔ ایک کشتی نواز شریف اور مریم نواز یا شاہد خاقان عباسی کے گرد گھومتی ہے تو دوسری کشتی میں شہباز شریف اور خواجہ آصف، سردار ایاز صادق، رانا تنویر سمیت کئی ایسے اہم نام ہیں جو پہلی کشتی کے مسافروں سے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ شہباز شریف کے اسٹیبلیشمنٹ سے مراسم او رمستقبل کی سیاسی منصوبہ بندی کا کھیل بھی نمایاں ہے او روہ اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی ہیں تو حزب اختلاف کی سیاست کا حصہ۔ لیکن یہ لوگ فاصلے پر ہیں یا حالات کی نزاکت کی وجہ سے زیادہ فعال اور سرگرم ہونے کی بجائے بس بڑی جماعتوں کی زبانی جمع خرچ میں حمایت کرتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کا بطور حزب اختلاف کردار محدود ہے۔ یہ ہی رویہ آج کل افتاب شیر پاؤ کا بھی نظر آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنے سیاسی دھرنے کی ناکامی کے بعد کافی مایوس بھی نظر آتے ہیں او راس کی وجہ ان کے اقتدار کے حصہ داری کے کھیل میں خیبر پختونخو اہ میں ان کے سیاسی مینڈیٹ کی تحریک انصاف کے ہاتھوں بدترین شکست یا ڈکیتی ہے۔

جماعت اسلامی کافی سرگرم ہے لیکن اس کی سیاسی فلائٹ فی الحال حزب اختلاف کی جماعتوں سے فاصلے پر ہے اور وہ تن تنہا حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا موقف ہے جہاں تحریک انصاف ناکام ہوئی ہے وہیں ان دونوں موجود بڑی سیاسی جماعتوں کی ماضی کی کارکردگی بھی شاندار نہیں۔ جماعت اسلامی کی کوشش ہے کہ وہ اس سیاسی بحران میں اپنی علیحدہ شنا خت کوہر صورت قائم یا برقرار رکھے۔

ایک مسئلہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں آنے والے دنوں میں کل جماعتی کانفرنس کا ہے۔ منطق یہ دی جارہی ہے کہ اس کانفرنس میں ہر صورت حکومت مخالف تحریک یا حکومت گراؤ ایجنڈے کو حتمی شکل دی جائے گی۔ یہ کانفرنس شہباز شریف کی بیماری کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے حالانکہ اگر وہ چاہیں تو اس کانفرنس میں ویڈیو لنک کی مدد سے بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ شہباز شریف اس کانفرنس کے انعقاد اور اس کے نتیجے میں کسی بڑی مہم جوئی کے لیے تیار نہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ فی الحال دونوں جماعتوں پر مشتمل کمیٹی بنادی گئی ہے اور شہباز شریف نے بلاول کی خواہش کے باوجود بیماری کے باعث ملنے سے انکار کیا ہے۔ حالانکہ بلاول عیادت او رحالات دونوں پر بات چیت کے لیے تیار تھے۔ پیپلز پارٹی کے بھی بعض حلقے بلاول کو یہ باور کروارہے ہیں کہ شہباز شریف حکومت کے خلاف کسی بڑی مہم جوئی کے لیے تیار نہیں حالانکہ خود بلاول بھی کسی بڑی مہم جوئی نہیں چاہتے۔

حزب اختلاف کی جماعتیں چاہتی ہیں کہ کسی طریقے سے اگلے برس مارچ 2021 میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات سے قبل ہر صورت عمران خان کی حکومت رخصت ہوتاکہ سینٹ میں ان کی برتری کو روکا جاسکے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے لیے وہ خود سے کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا بڑا انحصار یا دارومدآر صرف اور صرف اسٹیبلیشمنٹ پر ہی ہے۔ یعنی وہ سلیکٹرز سے ہی عملاً مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ خود ہی عمران خان حکومت کی حمایت سے دست بردار ہوکر نئے سیاسی ماحول کو پیدا کریں۔

اس وقت حزب اختلاف کی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کی پوری کوشش ہے کہ کسی طریقے سے اس بیانیہ کو تقویت دی جائے کہ موجودہ صورتحال میں عمران خان او رفوج میں ٹکراؤ ہے یا ان دونوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرکے سیاسی تبدیلی کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ کیونکہ یہاں ساری حزب اختلاف کی جماعتوں سمیت اہل دانش اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک اسٹیبلیشمنٹ او رعمران خان کے درمیان ٹکراؤ پیدا نہیں ہوگا، کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ اسی بنیاد پر حزب اختلاف کسی مہم جوئی کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے تیار نہیں او رو ہ سمجھتی ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ ایک طرف مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کا سیاسی کردار نہیں ہونا چاہیے اور دوسری طرف ان ہی سے مطالبہ یا انحصار کہ وہ خود کچھ کریں ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، پارلیمانی بالادستی سے زیادہ طاقت پر مبنی اقتدار کے کھیل کا ہے۔ یہ سب جماعتیں عمران خان کو پس پردہ قوتوں کی مدد سے باہر نکالنا چاہتی ہیں۔ یعنی ان کے بقول ہم بھی عمران خان کی طرح اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مل کر پرانی تنخواہ پرکام کرنا چاہتے ہیں۔

ماضی میں ایک کھیل اینٹی بھٹو او رپرو بھٹو کے درمیان تھا جس نے ہماری سیاست کو کافی حد تک کمزور کیا، کیونکہ اس میں اصولوں سے زیادہ سیاسی دشمنی کا رنگ نمایاں تھا۔ اب بھی جو سیاست ہو رہی ہے اس میں نیا رنگ عمران خان پرو اور عمران خان مخالفت کا ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر عمران خان دشمنی میں بڑی مضبوطی سے کھڑی نظر آتی ہیں اور یہ ہی سیاست ہماری قومی المیہ بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments