نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے قیدی مغرب کے لیے خطرہ کیوں؟


بارسلونا میں ہبنے والے شدت پسندی کا حملہ

خیال ہے کہ غیرملکی جنگجو جب شام سے لوٹیں گے تو اُن کے واپس آنے سے مقامی سطح پر حملوں کا خطرہ بڑھ جائے گا

شمال مشرقی شام کے غلیظ اور گنجان آباد حراستی مراکز میں موجود نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ہزاروں شکست خوردہ قیدی جنگجو ایک ایسا پوشیدہ خطرہ پیش کرتے ہیں جو یہاں تیزی سے پنپ رہا ہے۔

یہاں فسادات اور جیل توڑ کر بھاگنے کی کوششیں اب معمول بن گئی ہیں۔

دولتِ اسلامیہ نے ان قیدیوں کو ان کی بیویوں اور خاندان کے دیگر افراد سمیت آزاد کروانے کا عہد کر رکھا ہے جبکہ انسانی سمگلنگ کا نیٹ ورک بھی مبینہ طور پر اپنی جگہ متحرک ہے جو انھیں رشوت کے ذریعے حراستی مراکز سے نکلنے میں مدد کرتا ہے۔

برطانیہ میں اپیل کی عدالت نے رواں ماہ اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ برطانوی نژاد شمیمہ بیگم کو ان کی برطانوی شہریت سے محروم کیا جائے۔ اس فیصلے سے بھی نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے قیدیوں کا مسئلہ اجاگر ہوا ہے۔

یہی نہیں کردوں کی حراست میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے برطانوی جنگجو کی موت واقع ہونا بھی اس مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرواتی ہے۔

فرینک گارڈنر کے مزید تجزیے پڑھیے

القاعدہ کی ناراض امریکیوں کو اپنا ہمدرد بنانے کی کوشش

’مشرقِ وسطیٰ میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ‘

’اعلیٰ سعودی اہلکار کو خاندان کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے‘

جب مارچ 2019 میں دولتِ اسلامیہ کو باغوز میں اپنی نام نہاد خلافت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تو اس کے ہزاروں اراکین کو ان سے لڑنے والے شامی کردوں نے انھیں حراستی مراکز میں قید کر لیا تھا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کہانی ابھی نامکمل ہے جس کے باعث آنے والے دنوں میں یہ دنیا کی سلامتی کے لیے یہ ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔

شمالی مشرقی شام میں الہول کیمپ

الہول کیمپ میں گیارہ ہمار سے زیادہ جنگجو ہیں اور اس بھی کہیں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین رہ رہی ہیں۔

کنگز کالج لندن میں دفاعی امور سے تعلق رکھنے والے محکمے کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ ان حراستی مراکز سے بھاگنے والے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجو دنیا کے دوسرے حصوں میں دوبارہ اکھٹے ہو رہے ہیں اور دولتِ اسلامیہ کےدوبارہ ابھرنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

برطانوی پارلیمان کی کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین ٹوبیئس ایلوڈ کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہم دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے کے لیے پرعظم ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم فضائی مہم ختم ہوتے ہی اپنا سامان باندھ کر واپس آ جائیں۔

‘ہزاروں شدت پسندوں اور انتہائی دائیں بازوں کی سوچ رکھنے والےافراد کے خاندان اور دولتِ اسلامیہ کے حامی اب بھی عراق اور شام میں مقیم ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم واقعی دولتِ اسلامیہ کو مکمل شکست دینے کے لیے پرعظم ہیں ورنہ ان کے نظریات زندہ رہیں اور وہ دوبارہ اکھٹے ہو سکیں گے۔’

جنگجوؤں کے بچے

ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 40 ہزار جہادی سنہ 2014 اور 2019 کے درمیان شام روانہ ہوئے تھے۔ ان میں سے بچ جانے والے غیر ملکی عسکریت پسندوں کی تعداد 10 سے 20 ہزار کے درمیان ہے اور ان میں کچھ جیل میں ہیں اور کچھ آزاد۔

اس میں چند کو عراق میں عدالتی نظام کے ذریعے سزائیں دی گئی ہیں تاہم اکثر اب بھی حراستی مراکز میں ہیں اور انھیں دولتِ اسلامیہ کی مفرور رہنماؤں نے رہا کرانے کا عہد کیا ہے۔ انھوں نے ان خواتین کو بھی رہا کروانے کا عہد کیا ہے جنھیں وہ ‘پاکیزہ خواتین’ اور ‘خلیفہ کی دلہنیں’ کہتے ہیں۔”

اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس برس غیرملکی جنگجوؤں کے تقریباً آٹھ ہزار بچے کردوں کے زیرِ اہتمام حراستی مراکز میں قید ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے 700 بچے یورپ سے ہیں اور کچھ برطانیہ سے بھی ہیں اور یہ ممالک انھیں واپس لانے میں ہچکچا رہے ہیں۔

دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے خاندان کیمپوں میں

دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ساتھ اُن کی بیویاں اور بچے بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔

خواتین

این سپیکارڈ شدت پسندی پر رسرچ سے متعلق ‘انٹرنیشنل سینٹر فار دا وائلینٹ ایکسٹریمزم’ ادارے کی ڈاریکٹر ہیں، گزشتہ تین برسوں میں انہوں نے دو سو جنگجوں اور ان کے خاندان والوں سے انٹریو کیے ہیں۔

انہوں نے شمالی شام کے الحول جیسے کیمپوں کا دورہ بھی کیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کیمپوں کی حالت بہت خراب ہے اور یہاں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی بھاگنے کی کوشش کرتا ہی ہے۔

یہاں رہائش پزیر متعدد خواتین نے دولت اسلامیہ سے خود کو لا تعلق کرلیا ہے لیکن اب وہ بدلے کے خوف سے خاموش رہ رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ” ان کیمپوں میں دولت اسلامیہ کا نظریہ لوگوں پر مسلط کرنے والی خواتین بھی موجود ہیں۔ یہ خواتین دوسری خواتین کا قتل تک کردیتی ہیں۔ وہ اپنے آپ سے اتفاق نہ کرنے والی خواتین کے کیمپوں کو نظر آتش کردیتی ہیں۔ وہ پتھر پھینکتی ہیں اور اپنے بچوں کو بھی دوسروں پر پتھر پھینکنا سکھاتی ہیں۔‘

تو کیا یہ فرض کیا جائے کہ ان کیمپوں میں رہائش پذیر دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے اہل خانہ بھی شدت پسند ہیں ؟ این سپیکارڈ کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ متعدد خاندان ایسے ہیں جنہوں نے خاموشی سے اپنا نظریہ تبدیل کیا ہے لیکن وہ دولت اسلامیہ کی کی خواتین جنگجوؤں کے خوف میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ خواتین ان پر حملہ نہ کردیں۔

یہ خواتین دولت اسلامیہ کے حصبہ گروپ سے منسلک تھیں۔ یہ دولت اسلامیہ کی خواتین ‘مورل پولیس’ تھیں جو لوگوں کو سخت سزائيں دیتی تھی۔ آج بھلے ہی یہ خواتین کیمپوں میں قید ہیں لیکن انہوں نے خود کو یہاں منظم کیا ہے اور اب وہ وہی کام کررہی ہیں جو وہ دولت اسلامیہ کے زمانے میں کرتی تھیں۔

این سپیکہارڈ کا کہنا ہے کہ اپنی تحقیق کے دوران وہ خواتین سے ان کی کہانیاں بھی معلوم کررہی تھیں لیکن خوف یا یہ عالم تھا کہ متعدد خواتین اپنی خاموشی توڑنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ ان پر حملہ نہ ہوجائے۔

‘اس صورتحال میں بچے خوف اور افسردگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پہلے وہ دولت اسلامیہ سے خوفزدہ تھا اب وہ ان کیمپوں میں خوف و ہراس میں جی رہے ہیں’۔

دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے بچے کیمپوں میں

نام نہاد دولت اسلامیہ کے گڑھ ختم ہونے کے بعد جنگجوؤں کے بچے بھی کیمپوں میں پھنسے ہوئے ہیں

روس کے شمالی کوکس علاقے سے ایک بڑی تعداد میں جنگجوں دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے گئے تھے۔ روس ایک ایسا ملک ہے جو اپنے شہریوں کی بیویوں اور بچوں کو واپس لے رہا ہے۔

سینٹ پیٹرسبرگ کے ‘کانفلکٹ انالیسس اینڈ پریونشن سینٹر’ کی ڈاریکٹر ایکیٹرینا سوکی ریانسکایا کہتی ہیں ” صدر ولادیمیر پوتین نے جنگجوؤں کی بیویوں اور بچوں کو واپس لانے کے منصوبے کی حمایت کی ہے”۔

”انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ بچوں کو ان کے والدین کے اقدامات کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے اور انہیں جنگ کے میدان میں نہیں چھوڑا جاسکتا ہے”۔

اگر دولت اسلامیہ کے لاوارس جہادیوں کے مسئلے کو سمجھا جائے تو اس کے تین اہم پہلو ہیں جو قانونی ، انسانی اور سیکورٹی سے منسلک ہیں۔

اگر قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہزاروں افراد جن میں خاص طور سے بچے شامل ہیں ان کو اس طرح کے کیمپوں میں غیر معینہ مدت تک رہنے دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

بہت سارے جہادی جن میں جنگجوں اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں۔ وہ کے قانون کا سامنا کرنا چاہتے ہیں اور اگر انہیں جیل جانا پڑے تو وہ جانا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

دولتِ اسلامیہ ہے کیا؟

شمیمہ کو برطانیہ آنے کی اجازت ہے، عدالت کا فیصلہ

صفیہ شیخ: منشیات کی عادی شدت پسند خاتون تک پولیس کیسے پہنچی؟

مسئلہ یہ ہے کہ مغربی ممالک کی حکومتیں انہیں اپنے ملک واپس لانے سے ڈرتی ہیں۔ انہیں اس بات کی فکر ہے کہ ا ن اس اقدام کو مقامی آبادی قبول نہیں کرے گی ۔ خاص طور سے اگر عدالتوں میں ان کو قصوروار ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس اتنے ثبوت موجود نہیں ہوئے تو انہیں رہا کرنا پڑے گا۔

انہیں یہ بھی تشویش ہے کہ پہلے سے ہی تعداد سے زیادہ قیدیوں کو سنھبالنے والی جیلوں میں جگہ کم پڑسکتی ہے۔ اس بات کا بھی تشویش ہے کہ اگر شام اور عراق میں برسوں سے حکومت کے خلاف محاذ جنگ پر رہنے والے شدت پسندی کا نذریعہ رکھنے والے لوگوں اگر کو جیل میں ڈال دیا جائے تو کیا ہوگا؟

اگر آپ اس سارے معاملے کو انسانی نظریے سے دیکھا جائے تو امدادی ایجنسیاں حکومتوں پر سخت تنقید کر رہی ہیں۔ کیمپوں کی بدحالی اور غیر انسانی حالات کے بارے میں حکومتوں سے سوالات پوچھے جارہے ہیں۔

الہول کیمپ

فلاحی اداروں کا کہنا ہے کہ کیمپس بھرے ہوئے ہیں اور اُن میں صورتحال خراب ہے

ایک بڑی آبادی پر جبر کرنے والے، لوگوں کو غلام بنانے والے اور خواتین اور چھوٹی بچیوں کا ریب کرنے والے موت کے ان سودا گروں کے تعین دنیا میں کوئی بھی ہمدردی نہیں دکھائے گا۔

لیکن مغربی ممالک نے مشرقی وسطی کے بارے میں کوئی بھی اخلاقی حق اس وقت کھو دیا تھا جب امریکہ نے سینکڑوں افراد کو بغیر کسی قانونی کاروائی کے عراق سے لے جاکر کیوبا میں قائم فوجی اڈے گوانتنامو بے میں قید کردیا تھا۔

یورپی ممالک کے لیے جنہوں نے گوانتنامو بے کی تنقید کی تھی اب اپنے لاوراس شہریوں کے مسائل کو صرف اس لیے نظر انداز کردینک کیونکہ یہ ایک بہت مشکل کام ہے ان پر دوغلے پن کے الزام لگانے کا جواز بنتا ہے۔

آخر میں اس پورے مسئلے کا ایک سلامتی پہلو بھی ہے۔ آخر میں حکومتوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ زیادہ خطرناک کیا۔ ان شہریوں کو واپس لانا یا پھر انہیں وہیں چھوڑ دینا۔

شمیمہ بیگم

برطانوی شہریت کھونے والی شمیمہ بیگم کو ملک میں واپس آنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اب تک شام سے 400 برطانوی شہری واپس لوٹے ہیں اور انہوں نے قومی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ کھڑا نہیں کیا ہے۔

لیکن ان میں بیشتر وہ لوگ ہیں جو شام میں بغاوت کے شروعاتی دور میں وہاں گئے تھے۔

آج برطانیہ کی خفیہ ایجنیسی ایم آئی 5 اور پولیس کو اس بات کی فکر ہے کہ شام کے کیمپوں میں رہنے والے لوگوں بعض بے حد سخت گیر شدت پسند ہیں کیونکہ وہ برسوں سے تشدد کا حصہ رہے ہیں یا پھر تشدد دیکھتے رہے ہیں۔

‘کانفلکٹ انالیسس اینڈ پریونشن سینٹر’ کی ڈاریکٹر ایکیٹرینا سوکی ریانسکایا کہتی ہیں ” ہم اس مسئلے کے انسانی پہلوں پر کوئی بات ہی نہیں کررہے ہیں۔ اس مسئلے کا حل بے حد ضروری ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کی مہم کو سر اٹھانے سے روکا جاسکے۔ ہم اس وقت کیمپوں میں شدت پسند ماحول میں رہنے اور پرورش حاصل کرنے کے بارے میں بات کررہے ہیں”۔

برطانیہ کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وہ مبینہ شدت پسندوں کو عراق یا شام میں قانون کا سامنا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ مرد جنگجوؤں کو وہی چھوڑ کر خواتین اور بچوں کو واپس لے آیا جائے؟ این سپیکارڈ کہتی ہیں ” وہاں ایسی متعدد خواتین ہیں جنہیں اگر عدالت ميں پیش کیا جائے تو انہیں عدالت میں معافی مل سکتی ہے۔ اگر وہ جیل بھی جاتیں تو ان کے بچے ان سے ملاقات کرسکیں گے۔ کم سے کم وہ شام میں اذیتیں برداشت کررہی ہونگیں”۔

‘سب سے اچھا تو یہ ہے کہ ماؤں اور بچوں کو واپس لایا جایا۔ لیکن اگر یہ مشکل ہو تو پھر کم سے کم بچوں کو وہ تو واپس لایا جائے ”۔

دونوں ہی باتوں سے یہ واضح ہے کہ موجود حالات کو ہمیشہ کے لیے ایسے نہیں رہنے دیا جاسکتا ہے۔

شامی کرد جنہوں نے دولت اسلامیہ کو شکست دینے میں مدد کی اور جو کیمپوں کی حفاظت کررہے ہیں ان کے بھی اپنے مسائل ہیں۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے اپنے فوجی دستوں کو واپس بلا لینے کے بعد کرد افواج پر جنگی محاذ پر آگے بڑھ رہے ترک فوجیوں کی جانب سے حملے کا خطرہ ہے۔

وہیں ان جنگجوؤں سے متعلق کرد افواج کا موقف واضح ہے۔ ان کا کہنا ہے، ” دولت اسلامیہ کے یہ سبھی قیدی یورپی ممالک سے آئے ہیں۔ ہم بہت لمبے وقت تک ان کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں۔ آپ کو انہیں واپس بلانا ہی ہوگا”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp