رفال دفاعی سودا: فرانس سے پانچ رفال جنگی طیارے آج انڈیا کی فضائیہ میں شامل ہوں گے


دنیا کے جدید ترین لڑاکا جیٹس میں شمار ہونے والے فرانسیسی جنگی طیارے رفال منگل کو انڈیا کے لیے روانہ ہو گئے ہیں اور بدھ کو ان طیاروں کو امبالہ کے اڈے پر فضائیہ میں شامل کیا جائے گا۔ اطلاعات ہیں کہ انڈیا ان جنگی طیاروں کے لیے ہیمر مزائل خریدنے کے ایک سودے کو بھی حتمی شکل دے رہا ہے۔

رفال جنگی طیارے فرانس کے میریانا فضائی اڈے سے انڈیا کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ جنگی طیارے تقریباً سات ہزار کلو میٹر کا سفر طے کریں گے اور راستے میں فضائی ٹینکروں کے ذریعے ہی ان میں ایندھن بھرا جائے گا۔

ان جنگی طیاروں کو انڈین فضائیہ کے پائلٹس اڑا کر انڈیا لا رہے ہیں۔ دساؤ کمپنی نے انڈین فضائیہ کے پائلٹس اور انجینئرز کو اس طیارے اور اس میں نصب میزائل اور بموں کے بارے میں مکمل تربیت فراہم کی ہے۔

یہ جنگی طیارے ایک دن میں ہی انڈیا پہنچ سکتے تھے لیکن انھیں یہاں لانے سے پہلے ابوظہبی کے نزدیک فرانس کے فضائی اڈے پر اتارا گیا، جہاں سے یہ بدھ کی صبح انڈین ریاست ہریانہ میں واقع امبالہ فضائی اڈے پر پہنچ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

رفال طیاروں کے بعد انڈیا کا فرانس سے ہیمر میزائلوں کا بھی معاہدہ

انڈیا میں رفال جیٹ پر سیاسی طوفان کیوں؟

رفال دفاعی سودے میں کسی بدعنوانی کا ثبوت نہیں ملا: سپریم کورٹ

ان جنگی جہازوں کو فصائیہ میں شامل کیے جانے کی باضابطہ تقریب آئندہ مہینے کسی وقت متوقع ہے۔

پیرس میں انڈین سفارتخانے کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق فرانس نے یہ جنگی طیارے مقررہ وقت کے اندر انڈین فضائیہ کے حوالے کیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پہلے بیچ میں انڈیا کو دس رفال طیارے دیے گئے ہیں۔ جن میں سے پانچ بدھ کو انڈیا پہنچنے والے ہیں اور باقی پانچ انڈین فضائیہ کے پائلٹس کی تربیت کے لیے فرانس میں ہی رہیں گے۔

انڈین حکومت نے فرانس کی دساؤ رفال کمپنی سے تقریباً 58 ہزار کروڑ روپے (نو ارب ڈالر) مالیت کے 36 رفال جنگی جہاز خریدنے کا سودا 2016 میں کیا تھا۔ معاہدے کے تحت سبھی 36 طیارے سنہ 2021 تک انڈیا کے حوالے کیے جائیں گے۔ انڈیا نے جو طیارے خریدے ہیں ان میں سنگل سیٹر اور ڈبل سیٹرر دونوں ہی ساخت کے رفال شامل ہیں۔

یہ جنگی طیارے ایک ایسے وقت میں انڈین فضائیہ میں شامل کیے جا رہے ہیں جب لداخ کی سرحد پر خونریز ٹکراؤ کے بعد انڈیا اور چین کے درمیان زبردست کشیدگی ہے۔

جون میں مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان ٹکراؤ میں کم از کم بیس انڈین فوجی ہلاک اور ستر سے زیادہ زحمی ہوئے تھے۔ اس وقت سے اس سرحدی خطے میں کشیدگی بنی ہوئی ہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق ٹکراؤ کے درمیان چینی فوجی انڈین خطے میں داخل ہو گئے تھے۔ یہ چینی فوجی کئی دور کے مذکرات کے بعد بھی کئی علاقوں سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔

رفال

سرحدی ٹکراؤ کے بعد انڈیا میں چین کی ایپس پر پابندی عائد کیے جانے اور چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری پر روک اور سازوسامان کے بائیکاٹ کے فیصلے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔

اس پس منظر میں فرانسیسی ساخت کے رفال طیاروں کی شمولیت کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ انڈیا میں غالباً یہ پہلا موقع ہے جب کسی جنگی سازوسامان کو پاکستان کے تناظر میں نہیں بلکہ خصوصی طور پر چین کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

دفاعی ماہرین رفال جنگی طیارے کو گیم چینجر سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان طیاروں کی شمولیت سے انڈیا کو اونچے فضائی محاذوں پر حملے کرنے میں چین پر برتری حاصل ہو گئی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس طیارے میں جو میزائل اور بم نصب ہیں، ان کے ہدف پر وار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت اسے منفرد بناتی ہے۔

اس دوران خبر ملی ہے کہ انڈیا رفال طیاروں میں نصب کرنے کے لیے فرانس سے تباہ کن ہیمر مزائل خریدنے کا سودا بھی کر رہا ہے ۔ یہ سودا انڈیا کی فوج ’ایمرجنسی پاور‘ یعنی ہنگامی حالات میں استعمال کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے دیے گئے خصوصی اختیارات کے تحت کر رہی ہے۔

یہاں یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ انڈیا 60 سے 70 کلو میٹر تک وار کرنے والے ان میزائلوں کی خریداری چین سے تناؤ کے مدنظر کر رہا ہے۔ ہیمر مزائل بنانے والی کمپنی سیفران الیکٹرانک اینڈ ڈیفنس کے مطابق ’ہیمر مزائل دور سے ہی آسانی سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔‘

انڈیا کی حکومت نواز خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے ’شارٹ نوٹس کے باوجود فرانس ہمارے رفال جنگی طیاروں کے لیے ہیمر مزائل فراہم کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔‘ انڈین فضائیہ نے ان خبروں کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ تردید۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp