کراچی میں بارش: گندے نالے کا روپ دھارنے والی اورنگی ٹاؤن کی گلی اور بارش پر سیاست


کراچی

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے مختلف علاقوں میں 26 جولائی کو ہونے والی موسلادھار بارش تو اسی روز ہو کر تھم گئی تھی مگر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اربن فلڈنگ کی صورتحال اور عوامی جانوں اور املاک کو پہنچنے والے نقصانات کی ویڈیوز اب بھی مقامی میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شیئر کی جا رہی ہیں۔

آپ میں سے بیشتر افراد نے اورنگی ٹاؤن کی اس گلی کا منظر ضرور دیکھا ہو گا جس نے اس بارش کے بعد گندے نالے کا روپ دھار لیا اور برساتی پانی کی روانی سے کچھ ایسا محسوس ہوا کہ درحقیقت یہ جگہ نالے کے بہنے کی ہی ہے جس کے اطراف شہریوں نے اپنے گھر تعمیر کر لیے ہیں۔

یا پھر وہ ویڈیو جس میں فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار سکول کی بچیوں کو سیلابی صورتحال کے علاقے سے نکال پر محفوظ مقام تک ریسکیو کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

برساتی پانی میں تیرتی بیش قیمت گاڑیوں اور گھروں کے اندر موجود قیمتی سازوسامان کی تباہی کی ویڈیوز تو اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ گننے میں نہیں آتیں۔

یہ بھی پڑھیے

’آدھا کراچی پانی میں، آدھا اندھیرے میں‘

روشنیوں کے شہر میں ‘پتھر کے دور والا ماحول‘

’کراچی جہاں بارش اور آتش بازی ایک ساتھ ممکن ہے‘

اورنگی ٹاؤن اور اس نوعیت کی دوسری ویڈیوز پر ہونے والی سیاست پر بات تو اس رپورٹ میں آگے چل کر ہو گی پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کراچی میں بارش ہوئی کتنی، اربن فلڈنگ کی صورتحال کیونکر پیدا ہوئی اور کیا اگر ملک کے کسی اور شہر میں اتنی بارش ہوتی تو صورتحال کیا ہوتی۔

کراچی میں کتنی بارش ہوئی؟

اگر پاکستان کے محکمہ موسمیات کے آرکائیوز پر نظر دوڑائی جائے تو جولائی کے پورے مہینے میں ہونے والی سب سے زیادہ بارش سنہ 1967 میں ریکارڈ ہوئی تھی، جس کی مقدار 429.3 ملی میٹر تھی۔ اتنی بارش کے بعد صورتحال کیا ہوئی تھی اس حوالے سے محکمہ موسمیات خاموش ہے۔

کراچی میں بارش کی سالانہ اوسط 174.6 ملی میٹر کے لگ بھگ ہے۔

کراچی

کراچی میں اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا کرنے والی 26 جولائی کی بارش کی مقدار شہر کے مختلف حصوں میں مختلف تھی۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ 86 ملی میٹر بارش گلشن حدید سے منسلک علاقوں میں ہوئی، یونیورسٹی روڈ پر 81 ملی میٹر، سرجانی ٹاؤن میں 73 ملی میٹر، جناح ٹرمینل کے علاقوں میں 58 ملی میٹر، کیماڑی میں 51 ملی میٹر، نارتھ کراچی میں 62 ملی میٹر، صدر میں 51 ملی میٹر جبکہ ناظم آباد میں 28 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

جبکہ 27 جولائی (پیر) کو ناظم آباد میں 34 ملی میٹر، گلستان جوہر میں 10 ملی میٹر، نارتھ کراچی میں آٹھ ملی میٹر اور پہلوان گوٹھ میں دو ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محکمہ موسمیات کے عبدالقیوم بھٹو کا کہنا تھا پیر کے روز بھی کچھ علاقوں میں بارش ہوئی اور اس کے بعد مون سون کا حالیہ سلسلہ حب سے بلوچستان میں داخل ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج (منگل) بھی مختلف علاقوں میں ہلکی بارش جاری ہے اور تیز ہوائیں بھی چل رہی ہیں۔

آصفہ بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ کراچی میں بارش کی سالانہ اوسط 174.6 ملی میٹر ہے جبکہ شہر میں گذشتہ 40 گھنٹوں (لگ بھگ دو دن) کے دوران مجموعی طور پر 153 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے، جو کہ سالانہ اوسط بارش کا 90 فیصد ہے۔

منگل کی صبح وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت مون سون کی صورتحال کے ہونے سے ایک اجلاس ہوا ہے۔ اس موقع پر وزیرِ بلدیات نے بتایا کہ شہر کی ’اہم سڑکوں سے بارش کے رکتے ہی پانی کی نکاسی کر دی گئی جبکہ چند جگہوں پر نالے چوک ہوئے جس کی وجہ سے کچھ مسائل ہوئے۔‘

تاہم اس جواب پر شاید وزیر اعلیٰ کچھ زیادہ مطمئن نہیں ہوئے اور انھوں نے کہا کہ صرف نالوں کی صفائی اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ’قدرتی آبی گزرگاہوں پر عمارتیں بن چکی ہیں اور تجاوزات ہیں جس کے باعث پانی نہیں نکل پاتا۔‘ انھوں نے اس حوالے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ہدایات جاری کی ہیں۔

کراچی

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محکمہ موسمیات سے وابستہ ماہر موسمیات ڈاکٹر شہزادہ عدنان کا کہنا ہے کہ چند گھنٹوں میں پاکستان کے کسی بڑے اور گنجان آباد شہر میں 86 ملی میٹر تک بارش ہو جانا معمول سے کچھ زیادہ ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ شہر کے بیشتر علاقے گھنٹوں تک کے لیے سیلابی صورتحال کا شکار ہو جائیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر اتنی بارش اسلام آباد میں ہوتی تو شاید بارش ختم ہونے کے آدھ گھنٹے کے اندر اندر کسی علاقے میں پانی کھڑا نظر نہ آتا۔ ’اگر بات گنجان آباد راولپنڈی کی جائے تو بہت سے عوامل کی وجہ سے وہاں اتنی مقدار میں بارش چند مقامات پر اربن فلڈنگ کی صورتحال ضرور پیدا کرتی مگر شاید صرف ایک یا دو گھنٹے کے لیے۔ اور ایسا ان شہروں میں نکاسی آب کا کچھ بہتر نظام ہونے کے باعث ہے۔ کراچی کی صورتحال وہاں کے ڈرینج سسٹم کی وجہ سے ہے جہاں تھوڑی بارش بھی مسائل کو جنم دے دیتی ہے۔‘

کراچی معمول کی بارش میں بھی ڈوب کیوں جاتا ہے؟

کراچی میں نکاسی آب کے تقریبا 44 بڑے نالے ہیں جن میں گجر نالہ، اورنگی نالہ اورمحمود آباد نالہ آٹھ سے 12 کلومیٹر طویل ہیں، اور یہی وہ نالے ہیں جو کراچی والوں کے لیے زیادہ مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔

اس کے علاوہ 550 کے چھوٹے قریب برساتی نالے ہیں جن کا انتظام کراچی میونسپل کارپوریشن اور ڈی ایم سیز کے تحت ہے۔

این ای ڈی یونیورسٹی کے پروفیسر نعمان احمد کا کہنا ہے کہ کراچی میں نکاسی آب کے نظام کی گنجائش کم ہوگئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس میں سلٹ اور کوڑے یا سالڈ ویسٹ کا جمع ہونا ہے اور صفائی کا مناسب اور بروقت انتظام نہ ہونا ہے۔

سڑکوں کی بلند سطح

پروفیسر نعمان احمد کے مطابق جو فیڈڑ ڈرین ہیں ان کے لیے بھی اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنی گنجائش کے مطابق کام کریں تاکہ جیسے ہی سڑک پر پانی آئے تو فوری اس کی نکاسی ہو جائے۔

’کراچی کے پرانے شہر میں یہ نظام موجود تھا کہ اگر ایک دو گھنٹے بھی مسلسل بارش ہوتی تو پانی کی نکاسی ہو جاتی تھی لیکن ماضی قریب میں جو سڑکیں بنی ہیں وہ مقامی نکاسی آب کے نظام سے منسلک نہیں ہیں کیونکہ سڑکوں کی تعمیر میں ان بات کا خیال نہیں رکھا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ اسی وجہ سے یہ مقامی ڈرین اپنی گنجائش کے مطابق پانی کا نکاس نہیں کر پاتیں اور یہ پانی شہری آبادیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔

گجر نالہ

نالوں اور زمینوں پر قبضے

کراچی شہری منصوبہ بندی کی ماہر آرکیٹیکٹ ماروی مظہر کا کہنا ہے کہ اربن فلڈنگ کی لینڈ مافیا بھی ذمہ دار ہے، جو غریب آبادیاں ہیں وہاں ان نالوں کی گزر گاہوں پر قبضہ کر کے گھر بنا دیے جاتے ہیں، اُن کا خیال ہوتا ہے کہ یہاں کوئی پوچھے گا نہیں۔ لیاری ندی کو شہر کی نکاسی کا اہم ذریعہ ہے وہاں اب گرین بیلٹ کے نام پر تجاویزات بنائی جا رہی ہیں۔

پروفیسر نعمان احمد کا پہلے جیسے ہی بارش ہوتی تو پانی ان نالوں کے ذریعے سمندر تک پہنچ جاتا تھا، یہ نالے سطح سمندر سے اوپر ہوتے تھے لیکن اب ایسا نہیں رہا کیونکہ ان پر تعمیرات ہو چکی ہیں۔

پروفیسر نعمان کا کہنا ہے کہ بہت سی نجی ہاؤسنگ سکیمیں پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستوں میں زبردستی ردوبدل کر رہی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پانی آبادیوں میں آ جاتا ہے اور گذشتہ برس اسی پانی کی وجہ سے سپر ہائی وے زیر آب آگئی تھی۔

بارش پر سیاست

کراچی میں سیاسی نمائندگی تین سطحوں پر مشتمل ہے۔ کراچی میونسپل کے ناظم وسیم اختر ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے ہیں۔ 14 قومی اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف شہر کی سب سے بڑی جماعت ہے، جس کی وفاق میں حکومت ہے۔ جبکہ کراچی میں پیپلز پارٹی کے پاس قومی اسمبلی کے دو نشستیں ہیں اور صوبائی حکومت اس کے پاس ہے۔

تینوں جماعتوں میں گذشتہ کئی برسوں سے سیاسی کشیدگی جاری ہے اور جب بھی عوامی نوعیت کا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس پر خوب سیاست کی جاتی ہے۔

بارش ہو اور اس پر سیاست نہ ہو، کراچی کی سیاست میں ایسا ممکن نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے وزرا، مشیران اور اراکینِ پارلیمان جہاں حالیہ بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کا ذمہ دار سندھ کی موجودہ حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو قرار دے ہیں وہیں پیپلز پارٹی بظاہر اصل موضوع سے صرفِ نظر کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے خلاف ‘بارش کی آڑ میں چلائی جانے والی پراپیگنڈا مہم’ کا پردہ چاک کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ سال بھی بارشوں سے کراچی کے کئی علاقے زیر آب آ گئے تھے، جس کے بعد وفاقی وزیر علی زیدی نے نالوں کی صفائی کا اعلان کیا اور اس حوالے سے فنڈ بھی قائم کیا گیا، اس صفائی کی ذمہ داری فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او کو دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ یہ بتانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ حقیقت میں کراچی میں ہونے والی بارش تھی ہی بہت زیادہ اور یہ کہ کیسے پرانی ویڈیوز شیئر کر کے حکومت سندھ کے خلاف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔

فتح نامی صارف کی ٹویٹ ری ٹویٹ کرتے ہوئے انھوں نے آگاہ کیا کہ کراچی میں جولائی کے پورے مہینے میں اوسط بارش 85.5 ملی میٹر ہوتی ہے جبکہ صرف ایک دن میں 86 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

تاہم اورنگی ٹاؤن کی ویڈیو ہو یا عوامی املاک کو پہنچنے والے نقصانات کی ویڈیوز، ان کی طرف سے اس پر نہ تو کوئی بات کی جا رہی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی توجیح پیش کی جا رہی ہے۔

صوبائی وزیر تعلیم سینیٹر سعید غنی بھی سوشل میڈیا پر مختلف ٹی وی چینلز کی جانب سے کیا جانے والا ’جھوٹا پراپیگنڈا‘ عوام کے سامنے لا رہے ہیں۔

https://twitter.com/SaeedGhani1/status/1287773886948548609?s=20

انھوں نے ایک صارف کی ٹویٹ ری ٹویٹ کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ‘میڈیا نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ لگتا ہے کہ بارش ہوتی ہے تو صرف سندھ میں ہوتی ہے، کورونا پھیلاتا ہے توصرف سندھ میں پھیلتا ہے، بیڈ گورننس ہے تو صرف سندھ میں ہے، بھوک اور افلاس بڑھ رہا ہے تو صرف سندھ میں بڑھ رہا ہے، اس طرح کے جعلی ہتھکنڈے صوبائیت کو ہوا دیتے ہیں، نفرتوں کو بڑھاتے ہیں۔’

صوبائی وزیر برائے لوکل گورنمنٹ سید ناصر حسین شاہ کہتے ہیں کہ:

https://twitter.com/SyedNasirHShah/status/1287769051775881227?s=20

اپنی ایک اور ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’پیارے میڈیا ہم سندھ ہیں، ہند (انڈیا) نہیں۔‘

کراچی سے منتخب ہونے والی پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے اورنگی والی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ’سندھ گورنمنٹ کوئی شرم۔‘

https://twitter.com/cricRebel/status/1287719915907162114?s=20

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سندھ میں پی پی پی حکومت کا رویہ اور کارکردگی کا جائزہ (خصوصاً کراچی کےحوالے سے) لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پی پی پی کی جانب سےاس شہر کو تباہ اور پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش برسوں سے کی جا رہی ہے۔ پی پی نےکئی دہائیوں تک ہمیں بغیر پچھتاوے کے لوٹا ہے۔‘

وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گل گذشتہ دو روز کے دوران اس معاملے پر لاتعداد ٹویٹس کر چکے ہیں۔ اورنگی ٹاؤن کی گلی کی ہی ویڈیو ری ٹویٹ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ’تھوڑا اور برائیٹ کریں۔‘

https://twitter.com/SHABAZGIL/status/1287812305766494210?s=20

انھوں نے مزید لکھا کہ ’کورونا پر سیاست کرنے میں سب سے آگے، مراد علی شاہ کہاں ہیں؟ کراچی ڈوب گیا، ان کی ایک سٹیٹمنٹ (بیان) تک نہیں آئی، لیکن اگر عمران خان اور وفاقی حکومت پر جھوٹی تنقید کرنی ہو تو سب سے پہلے وہ بات کریں گے۔۔۔‘

پی ٹی آئی کراچی کے صدر خرم شیر زمان نے بھی اورنگی ٹاؤن کی ویڈیو شیئر کی اور اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔

https://twitter.com/KhurrumZamanPTI/status/1287776471541526528?s=20


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp