خداراعقل کو بام سے اتاریے


بچپن میں بزرگ کہا کرتے تھے ”اپنی حد میں رہا کرو“ لیکن ان کی بات کون سنتا تھا۔ تاہم، ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھا کرتا تھا کہ آخر یہ ”حد“ ہے کیا چیز، یہ کہاں سے شروع اور کہاں جاکر ختم ہوتی ہے۔ بہت بعد میں جاکر کہیں یہ علم ہوا کہ جہاں عقل کی حدیں تمام ہوتی ہیں، وہاں سے حدوں سے ماورا کم عقلی کی ایک وسیع و عریض دنیا شروع ہوتی ہے۔ رسمی تعلیم سے عاری لیکن اجتماعی دانش سے مالا مال بزرگوں کے کہنے کا مقصد یہ ہوا کرتا تھا کہ جو بھی کام کرو وہ عقل کی حد میں رہ کر کیا کرو، اس حد کو عبور کرو گے تو کہیں کے بھی نہیں رہو گے۔ ابھی ذہن عقل کے دشوار گزار راہ پر چلنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ہماری نصاب کی کسی کتاب میں درج اس شعر نے ہمارا سارا ارادہ متزلزل کر دیا

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی تک

یہ شعر عشق حقیقی کی کن بلندیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کا فہم ہم جیسے کوتاہ نظر لوگوں کی بس کی بات نہیں ہے۔ غالباً علامہ نے انسانوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ انسان کو کسی مقصد سے عشق ہو جائے تو وہ ایسے کام کر گزرتا ہے جس پر عقل بھی حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔ لیکن جب سے ہوش سنبھالا ہے تو یہی دیکھا ہے کہ ہم اس شعر پر سر تو خوب دھنتے ہیں لیکن عمل برعکس کرتے ہیں۔ اس مملکت خداداد میں ہم، کم عقلی کے بھڑکتے شعلوں میں بار بار چھلانگیں لگاتے ہیں اور اسے عشق سے تعبیر بھی کرتے ہیں۔

قائد اعظم سے جنون کی حد تک عشق کیا پھر انہیں آگ برساتی گرمی میں ڈرگ روڈ پر ایک خراب ایمبولینس میں تڑپتا چھوڑ دیا۔ قائد اعظم دنیا سے جلد رخصت ہوگئے، قائد ملت نے جانے میں کچھ تاخیر کی تو ہم نے انہیں خود ہی رخصت کر دیا۔ بنگالی مسلمان تحریک پاکستان کا ہر اول دستہ تھے، ہم نے خواجہ ناظم الدین، مولوی تمیز الدین خان اور حسین شہید سہروردی سمیت پاکستان کے خالق تمام رہنماؤں کو رسوا کر کے ایوانوں سے نکال باہر کیا۔

ایک چھوٹے فوجی افسر کو ترقی کی بلند سیڑھی کے آخری پائے دان تک چڑھایا، اسے تاریخ کا پہلا باوردی وزیر دفاع بنایا اور جب اس نے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تو اس کی مدح سرائی میں ہم ترانے لکھنے لگے۔ بنگالی ناراض ہوئے، کہنے لگے ہم اکثریت میں ہیں، کیا پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ آمروں کی غلامی کریں۔ انہوں نے تنگ آ کر اپنا ملک الگ بنالیا۔ ہم دکھی کیا خاک ہوتے، کہا کہ چلو اچھا ہوا بدبودار، لنگی پہننے والے کالے کلوٹے بنگالیوں سے جان چھوٹی، بھوکے لوگ تھے ہماری ساری کمائی کھا جاتے تھے۔

ایک منتخب سیاستدان نے بچا کھچا ملک سنبھالا، آئین بنایا، فوجی قیدیوں کو وطن واپس لایا، ہزاروں مربع میل علاقہ وا گزرا کرایا لیکن ہم نے اسے بھی راہ سے ہٹا دیا۔ ایک فوجی آمر نے اس کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ مرنے والے کی روح آج بھی انصاف کی طلب گار ہے۔

وقت گزرتا رہا۔ ہم عقل کی حدوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھتے اور بے عقلی کے دہکتے شعلوں میں چھلانگیں لگاتے رہے۔ پہلے منتخب وزیر اعظم سے لے کر آج تک جیتنے بھی وزرائے اعظم آئے ہم نے انہیں جی بھر کے رسوا کیا۔ کسی کو پھانسی دی، کسی کو قتل اور کسی کو جلاوطن کیا۔ اب یہ عالم ہے کہ کیا معیشت، کیا سیاست، کیا تجارت، کیا سفارت سب کچھ تباہ حال ہے۔ ماضی کے کفیلوں نے بھی منہ موڑ لیا ہے کیونکہ آج انہیں خود اپنی معاشی بقا کے اندیشے لاحق ہیں۔

لطف یہ ہے کہ سب کچھ کر گزرنے اور اس کے نتائج بھگتنے کے بعد بھی ہم نے اپنی روش بدلی اور نا ہی عقل اور دانش کی راہ اختیار کی۔ 72 سال گزر گئے ہماری عقل نہ جانے کب تک بام پر بیٹھی تماشا دیکھتی رہے گی۔ اسے بام سے نیچے اتاریے اور اس کی بتائی ہوئی ”حدوں“ میں رہنا سیکھئے۔ دیر مت کیجیے، کہیں یہ نہ ہو کہ سب کچھ جل کر خاکستر نہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments