دتو مڈل کلاسیا


دتو ایک مڈل کلاس گھرانے میں جوان ہوا اور اس نے اپنا کاروبار کیا۔ دتو اب تیس سال کا ہوچکا تھا اور اس کی ساری زندگی مڈل کلاس مثائل کے ساتھ لڑنے میں گزر رہی تھی۔ مگر اب اس کی زندگی میں معاملات کچھ ٹھیک نہیں تھے۔ معاشی طور پر اس کو کورونا کے باعث کاروبار میں بہت نقصان ہوا تھا۔

دل اور دماغ دونوں مل کر بھی کچھ کر نہیں پا رہے تھے لگنے لگا تھا کہ اب شاید زندگی ختم ہو جائے گی وہ کہاں جائے گا۔ وہ بے حد پریشان اور اضطراب کی حالت میں تھا۔ اس کے ذہن میں کچھ سوال تھے جو اس کے حالات کے سبب پیدا ہوئے تھے۔ ان سوالوں کے جوابوں کے نا ملنے اور اپنے زوال کی وجہ سے وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید واپسی ممکن نا ہو سو اس نے کسی ایسے شخص کی تلاش شروع کر دی جو اس کے سوالوں کے جواب دے پائے۔ اس نے اپنے دوست اختر کو بتایا کہ یار یہ حال ہے اس نے کہا مجھے اللہ کے ایک نیک بندے کا پتا ہے مجھے وہ مسجد میں ملے تھے۔ میں ان کا گھر بھی جانتا ہوں۔ سو دتو نے اس کو فٹ سے کہا چل

6 بجے کا وقت تھا گرمیوں کے دن تھے سو وہ دتو کو کہنے لگا ابھی چلتے ہیں بابا جی گھر ہی ہوں گے۔ دتو اور اختر دونوں 10 منٹ کا سفر کرنے کے بعد ایک پرانے مگر صاف ستھرے گھر کے سامنے پہنچ گئے بابا جی کا گھر ایک قریب ہی بستی میں تھا گھر کے باہر ایک چار پائی پڑی تھی۔ دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے کسی دوشیزہ کی آواز آئی جی کون؟ اختر بولا بابا جی ہیں۔ اگے سے کوئی جواب نا ملا۔ ہم چارپائی پر بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کچھ دیر ٹھہر کر دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا جائے مگر اتنے میں دروازہ کھلا اور اگے سے ایک بابا جی جو کہ ظاہری طور پر ایک روحانی شخصیت معلوم ہوتے تھے۔ بابا جی ایک فرشتہ لگ رہے تھے ان کا سفید لباس سفید داڑھی اور سفید بال سر پر سوراخوں والی ٹوپی پہنے تھے اور چہرہ نورانی تھا۔ دتو نے ان کی خدمت میں سلام عرض کیا اور بولا : کیا میرا دل کا حال سن لیں گے آپ؟

انھوں نے کہا جی پتر حکم کر۔

دتو نے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔ مگر وہ بالکل بے ربط طریقے سے بول رہا تھا اس کا ذہن ساتھ نہیں دے رہا تھا اور زبان بھی لڑکھڑا رہی تھی وہ گبھراہٹ کا شکار تھا۔

بابا جی بولے پتر! (پانی کے گلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) پانی پی لے پتر ارام نال گل کراں گے۔

اس دوران بابا جی اٹھ کر گئے اور اندر سے ایک شاپر لے آئے جس میں باجرہ تھا اور گھر کے سامنے لگے درخت کے نیچے پڑے ہوئے پیالے میں انڈیل دیا۔

ا اتنے میں دتو نے اپنے جیب سے نیلی سی ڈبی نکالی اور سگریٹ سلگانے لگا۔ اب اختر تھوڑا شرمندہ تھا مگر بابا جی نے اس بات کو بالکل محسوس نہیں کیا اور بولے

حکم کر پتر میں تیرے کول ہی آں۔ دتو نے سگریٹ کا ایک بڑا سا کش لگایا اور آنکھیں بند کرکے سارا دل کا حال کہہ ڈالا وہ بولتا گیا بولتا گیا بابا جی اس کو غور سے سنتے گئے۔ اس کے بعد ایک دم دتو نے آنکھیں کھولیں اور ہاتھ کو جھٹکا۔ کیوں کہ سگریٹ جل رہا تھا اور دتو اپنی کہانی میں اتنا گم ہوچکا تھا کہ اس کو یاد ہی نہ رہا کہ وہ سگریٹ اس کے ہاتھ میں ہے۔

اب دتو چپ ہوگیا

بابا جی نے اپنا سیدھا ہاتھ اٹھایا اور اپنی شہادت والی انگلی سے سورج جوکہ ابھی آدھا غروب ہوچکا تھا اس کی طرف اشارا کرتے ہوئے دتو کو مخاطب کیا اور کہا دیکھو اس سورج کی طرف۔ تمھیں کیا لگتا ہے۔ وہ بولا غروب ہو رہا ہے۔

بابا جی نے ایک اور سوال کیا۔ کیا یہ پریشان دکھتا ہے؟ یا یہ روتا ہوا نظر آ رہا ہے؟ یا پھر بالکل سکون سے غروب ہو رہا ہے؟

دتو بولا : سورج بہت سکون سے غروب ہوتا ہے اور بہت دل فریب منظر ہے یہ۔
بابا جی بولے : کیا یہ کل طلوع ہوگا؟
دتو بولا بالکل اگر رات میں قیامت نا آئی تو یہ بالکل طلوع ہوگا۔

بابا جی نے پہلے سے اونچے لہجے میں کہا ”تے فیر پتر غم کس گل دا۔ اج توں غروب ہو رہیاں ایں تے کل طلوع ہوویں گا۔“

بابا جی نے اب اردو لہجہ اختیار کیا اور بولے ”دیکھو بیٹا طلوع ہونے کے لیے غروب ہونا لازمی ہے۔ اگر تم غروب نہیں ہونا چاہتے تو طلوع کے امیدوار مت بنو۔ اپنے غروب کو سکون اور شکر کے ساتھ گزارو“ ۔ دتو کے چہرے سے صاف عیاں تھا کہ اس کو اس کے سوالوں کا جواب مل گیا ہے۔ اب دتو نے کہا بابا جی میرے تمام سولوں کا جواب مل گیا۔

سو ہم بھی اپنے غروب کو اچھے سے گزاریں تاکہ ہمارا طلوع بھی بہت چمکدار اور خوبصورت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بہت حسین اور خوبصورت طلوع عطا کرے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments