میری یادوں میں تم زندہ ہو: ایلن ہملٹن (Alan Hamilton)



”میری یادوں میں تم زندہ ہو“

میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ مجھے کبھی ایلن ہملٹن کی یاد میں تعزیتی مضمون لکھنا ہوگا۔ میرے عزیز دوست ایلن ہملٹن جس کے ساتھ میری رفاقت تیس سال پر محیط ہے، نوے برس کی بھرپور زندگی جینے کے بعد ستمبر 2019 کو کینٹ انگلینڈ میں وفات پاگئے۔ لیکن افسوس انتقال کی خبر مجھے ان کی باسٹھ سال سے شریک حیات جوآنا ہملٹن کے ذریعے 23 جنوری 2020 کو ملی۔ ایلن سے میری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں انٹرنیشنل ایڈورٹائزنگ IAL سے بہ حیثیت کاپی رائٹر وابستہ تھا۔

اس ملاقات کے بعد مجھے یاد نہیں کہ نئے سال کا آغاز ہوا ہو اور مجھے ایلن کی جانب سے نیک تمناؤں سے بھرا نئے سال کا کارڈ نہ ملا ہو۔ ہم وقتاً فوقتاً رابطے میں رہتے تھے۔ ایلن کی دوستی، ہمدردی اور محبت کے جذبات سے بھرا دل رکھنے والے انسان اپنے دوستوں اور رفقا کار کی مدد اور رہنمائی کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے والے انسان۔ میری عمر اس وقت 25 سال تھی میں ایلن کے ساتھ کام کرنے و الوں میں شاید سب سے کم عمر تھا۔

ایلن کی عمر 60 برس سے کچھ زیادہ تھی۔ لیکن اس عمر میں بھی کام کرنے کا جوش و جذبہ انہیں انگلینڈ سے پاکستان کھینچ لایا تھا۔ پاکستان میں اس وقت پراکٹر اینڈ گیبمل کی مصنوعات متعارف کرائی جارہی تھیں اس اشتہاری مہم کے سربراہ کی حیثیت سے ایلن پاکستان آئے تھے۔ ان کی داستان حیات میرے لیے کافی متاثر کن تھی جو میں نے ان سے اس وقت سنی جب وہ پاکستان میں تھے یا جب میں انگلینڈ میں تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر ایلن ایک کم عمر نوجوان تھے اور جرمن فوج نے انگلینڈ پر تباہ کن حملے شروع کررکھے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں معاشی بدحالی پھیلی تو ملک کے سینکڑوں نوجوانوں کی طرح ایلن کو بھی اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر تلاش معاشی میں نکلنا پڑا۔ جنگ ختم ہوئے کے بعد بھی وہ دوبارہ اسکول نہ جاسکے۔ ایلن نے پڑھائی چھوڑنے کے بعد مقامی اشتہاری کمپنی میں چھوٹے موٹے دفتری کام کرنے والے ملازم کی حیثیت سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔

ایلن کو پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ نتیجہ یہ کہ وہ ایک وسیع المطالعہ انسان بن گئے۔ سیکھنے کا شوق اور جاننے کی تڑپ ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں انہیں بہت آگے لے گئی۔ اپنے سینئر ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کی بدولت وہ کاپی رائٹنگ اور میڈیا پلاننگ کے شعبے میں داخل ہوئے۔ ایڈور ٹائزنگ سے ایلن کی محبت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 40 سال اسی شعبے میں گزار دیے یعنی 1950 سے 1990۔ سخت محنت کے باعث وہ ایک معمولی ملازم سے کمپنی کے سینئر ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچے۔

بہت سے ملکوں کا سفر کیا۔ سینکڑوں مصنوعات مارکیٹ میں متعارف کرائیں۔ کام کے ساتھ کامیاب ازدواجی زندگی گزاری۔ چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کی اچھی تعلیم و تربیت کی۔ ایلن کی بیٹی سوزانا ہملٹن نے اداکاری کے شعبے میں کافی نام کمایا۔ رومن پولانسکی کی فلم Tess مائیکل ریڈ گریوکی 1984، اور سڈنی پولاک کی آؤٹ آف افریقہ ان کی مشہور فلمیں ہیں۔ وسائل سے محرومی کے باوجود ایلن نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ ایلن نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے اپنی ذہنی صلاحیت اور قابلیت میں قابل قدر اضافہ کرکے معاشرے میں بلند مقام حاصل کیا جس کی ستائش نہ کرنا زیادتی ہوگی۔

1990 میں جب میری ملاقات ایلن سے ہوئی میں ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں نیا داخل ہوا تھا اور انٹرنیشنل ایڈورٹائزنگ لمیٹڈ میں بہ حیثیت کاپی رائٹر خود کو منوانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ میری پہلی نوکری تھی جو جناب سرمد علی کے تعاون سے مجھے ملی سرمد علی آج کل جنگ گروپ کے مینجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ یہ سرمد ہی تھے جنہوں نے مجھے ایلن سے ملوایا۔ پاکستان میں پی اینڈ جی کی مصنوعات ہیڈ اینڈ شولڈرز اور آئل آف اولے متعارف کروانے کی ذمہ داری ایلن کو سونپی گئی تھی۔

اسی سلسلے میں ایلن ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ پاکستان میں پی اینڈ جی کی مصنوعات کو کامیابی سے متعارف کرانا ایلن کے ان قابل ذکر کاموں میں سے ایک ہے جو انہوں نے اپنے کیرئیر کے آخر دنوں میں پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ انٹرنیشنل ایڈورٹائزنگ ہو یا ساچی اینڈ ساچی، ایلن نے جہاں بھی کام کیا اپنے رفقا کار کے ساتھ ہمیشہ خوشگوار تعلقات قائم کیے۔ ایلن اپنے ماتحت کام کرنے والوں کے ساتھ دوستی اور محبت سے پیش آتے اور بھرپور تعاون کرتے۔

پاکستان میں ایڈور ٹائزنگ آج جس مقام پر ہے اسے یہاں تک پہنچانے میں جن لوگوں نے کردار ادا کیا ان میں ایک نام سید نصیر حیدر کا بھی آتا ہے۔ جو اس وقت IAL کے ڈائریکٹر تھے۔ ان کے اسسٹنٹ سرمد علی تھے۔ جو پوری ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ عمران ارشاد بھی ہماری ٹیم کا حصہ تھے۔ جو اس وقت ایم اینڈ سی ساچی کے سربراہ ہیں۔ صائمہ ذوالفقار اور فرخ موریانی سینئر کاپی رائٹر تھے۔ اشرف خاور اور نذر صاحب ہمارے آرٹ ڈائریکٹر تھے۔

پی اینڈ جی کی ٹیم عبدالباری، ملیحہ اور نمیر پر مشتمل تھی۔ پی اینڈ جی اور آئی اے ایل کے درمیان رابطے کا کردار ایلن ادا کر رہے تھے۔ پاکستان میں قیام کے دوران ایلن نے بہت سے دوست بنائے۔ پی اینڈ جی کی اشتہاری مہم کے دوران ایلن نے ہماری بے انتہا مدد کی۔ انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ بہ حیثیت ایک انٹرنیشنل برانڈ پی اینڈ جی ہم سے کیا توقع کرتا ہے۔ ایک نو آموز کاپی رائٹر کی حیثیت سے میں ایلن کے تجربے اور مہارت سے مستفید ہونا چاہتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھایا میرے کام کی تعریف کی مجھے مطالعے کی طرف راغب کیا۔ میں ایک اردو میڈیم اسکول کا طالب علم تھا انگریزی زبان پر مجھے مکمل دسترس حاصل نہیں تھی لیکن میری اس کمزوری کا ایلن نے مجھے کبھی احساس نہیں ہونے دیا، ایلن نے مجھے ایک بات سمجھائی کہ

”اچھی انگریزی پڑھے بغیر اچھی انگریزی لکھ نہیں سکتے ”

میں نے یہ بات اپنے پلے باندھ لی۔ انگریزی زبان پر عبور کے لیے مجھے ”اکانومسٹ“ اور ”نیشنل جیو گرافک“ پڑھنے کا مشورہ دیا ان کا یہ مشورہ میرے بہت کام آیا۔

”انگریزی کے جملے جب بھی پڑھو پورے دھیان سے پڑھو ان پر غور کرو اور اگر کوئی اچھا جملہ یا خوبصورت ایکسپریشن نظر سے گزرے تو اسے یاد کرلو۔“

ایلن کے یہ الفاظ میرے لیے منزل کا نشان بن۔ گئے ان باتوں پر عمل کرکے میں نے زندگی کی شاہراہ پر اپنے قدم آگے بڑھائے۔ ہمارا دفتر کلفٹن پر تھا ایلن میریٹ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے جبکہ میں ملیر کالونی میں 80 گز کے کوارٹر میں رہتا تھا۔ میں اپنے گھر پر ایلن کو کھانے پر بلانا چاہتا تھا لیکن تذبذب کا شکار تھا کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا سینئر عہدیدار میری دعوت قبول بھی کرے گا؟ لیکن حیرت انگیز طور پر جب میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو ایلن نے دعوت قبول کرنے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہ لگائی۔

میرے گھر پر کچھ کتابیں دیکھ کر ایلن بہت خوش ہوا۔ اس وقت میری منگنی ہو چکی تھی۔ ایلن نے میری منگیتر اور اس کے گھر والوں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چنانچہ میں اپنے سسرال لے گیا، ان لوگوں سے مل کر ایلن بہت خوش ہوا۔ پی اینڈ جی کی اشتہاری مہم کامیابی سے ہم کنار ہوئی اور ایلن کے واپس انگلینڈ جانے کا وقت آپہنچا۔ 1991 ءاپنے دوست کی روانگی پر ہم سب بہت اداس تھے روانگی سے ایک دن قبل میں نے پورا دن ایلن کے ساتھ گزارا، کلفٹن کے ساحل پر گئے گھومے پھرے اور جو باتیں ان کہی رہ گئی تھیں کہہ ڈالیں۔

مجھے فخر تھا کہ اپنی پوری ٹیم میں شاید میں ہی تھا جو ایلن کا سب سے قریبی دوست بن چکا تھا۔ ایلن نے مجھے بتایا کہ یہ ان کا آخری پروجیکٹ ہے اور اس کے بعد میں ریٹائرہو جاؤں گا۔ یہ سن کر مجھے خاصی حیرت ہوئی میری حیرت دور کرنے کے لیے ایلن نے جو جواب دیا اس نے کیرئیر کے بارے میں میرے سوچنے کے انداز کو بدل کر رکھ دیا ایلن نے کہا۔

” 40 سال ایڈورٹائزنگ میں گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ شعبہ اعلیٰ ذہنی اور فکری استعداد کے حامل افراد کے لیے ہر گز موزوں نہیں“ اس نے مجھے نصیحت کی کہ میں ایڈورٹائزنگ سے بہتر شعبوں میں قسمت آزمائی کروں اور پھر چند سال بعد میں ایڈورٹائزنگ کی دنیا سے باہر نکل آیا۔ میرا فیصلہ صحیح تھا یا غلط اس پر بحث کی جاسکتی ہے۔ ایلن انگلینڈ واپس چلا گیا میں تعلیم اور صحافت کی طرف آ گیا۔ لیکن ہمارا رابطہ ہمیشہ قائم رہا۔

ریٹائر ہونے کے بعد ایلن اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ادھوری چھوڑی تھی ”میرا کالج کا زمانہ لوٹ آیا“ ایلن نے مجھے لکھا کہ انہوں نے بیلچرز مکمل کیا پھر کنگز کالج لندن سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ تاریخ کے مضمون میں دلچسپی رکھتے تھے اور امپیریل کالج سے PHD کرنا چاہتے تھے ازمنہ وسطیٰ کی تاریخ پر تحقیق کے لیے انہوں نے لاطینی زبان سیکھنا شروع کی۔ دس سال بعد یعنی 2002 میں مجھے تربیتی پروگرام میں شرکت کے لیے ہالینڈ جانا پڑا۔ ایلن سے میری دس سال سے بات نہ ہوسکی تھی لیکن خط و کتابت کے ذریعے ہی رابطہ قائم تھا۔ میں ایمسٹرڈیم کے نزدیک ہارلیم میں مقیم تھا، رات کافی ہوچکی تھی میں نے ایلن کے گھر لندن فون کیا، دس سال بعد ہم گفتگو کرکے بہت خوش تھے اور ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھے لندن آنے کا کہا لیکن میرے پاس ویزا نہیں تھا۔

”تم لندن نہیں آسکتے لیکن لندن تمہارے پاس آ سکتا ہے“ ایلن نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔ ہم برسلز میں مل سکتے ہیں۔ شن چن ویزا کی بدولت یہ ممکن ہو گیا۔ یہ ہالینڈ کے شہزادے ولیم الیگزینڈر کی شادی کا دن تھا۔ 20 سالہ ارجنٹائنی لڑکی میکما شہزادے کی دلہن بننے والی تھی۔ بہرحال میں بذریعہ ٹرین برسلز پہنچ گیا۔ ایلن میرے استقبال کے لیے اسٹیشن پر پہلے سے موجود تھا وہ میری زندگی کا یاد گار دن تھا۔ ایلن نے مجھے بتایا کہ کس طرح انہوں نے کالج کی تعلیم حاصل کی اور اب PHD کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

وہ ستر برس کے ہو چکے تھے۔ میں نے بھی اپنی کارگزاریاں انہیں سنائیں وہ دن ہم نے ہنستے مسکراتے گزارا۔ ایلن مجھے برسلز کے بہترین ریسٹورنٹ میں لے گئے جہاں کھانے کے ساتھ پینے کا بھی خاص انتظام تھا۔ اس ملاقات کے بعد بھی ہمارا رابطہ قائم رہا۔ خوش قسمتی سے مجھے برٹش کونسل کی اسکالر شپ مل گئی اوریونی ورسٹی آف لیڈز میں شعبہ تعلیم میں ماسٹرز کرنے کا موقع ہاتھ آ گیا۔ میں نے ایلن کو اپنے آنے کی اطلاع دی، ستر برس کے نوجوان ایلن میرے استقبال کے لیے ہیتھرو ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ پرواز میں تاخیر اور امیگریشن کے طویل عمل کے باعث میں چھ گھنٹے لیٹ تھا، ایلن کو چھ گھنٹے ائرپورٹ پر میرا انتظار کرنا پڑا۔ لیڈز روانہ ہونے سے چند دن پہلے ہم نے ایلن کے ساتھ اچھا وقت گزارا۔ ماسٹرز کے بعد میں PHD کے لیے برمنگھم چلا گیا وقتاً فوقتاً ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں۔

”پیارے ایلن تم ہمیشہ میری زندگی کا حصہ رہو گے۔ تم سے ہونے والی ملاقاتیں، تمہاری باتیں، تمہاری نصیحتیں، تمہارے مشورے میری زندگی پر بہت مثبت اور بہت گہرے اثرات رکھتے ہیں۔“

ترجمہ: محمد نادر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments