بار روم کا ہائیڈ پارک


آج کاظمی صاحب بڑے انہماک سے اپنے موبائل پر کوئی وِڈیو دیکھ اور سن رہے تھے، کانوں میں ہینڈ فری اور ہاتھوں میں اپنا موبائل پکڑے ہوئے ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر ڈال کر صوفے کو ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، ساتھ ساتھ مکسر چائے کا دور بھی چل رہا تھا اور دیگر ساتھی ایک دوسرے کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں مشغول تھے، کوئی اخبار پر اپنا سر جگائے ہوئے تھا، کوئی دیوار پر لگی اسکرین کو تک رہا تھا، تو کوئی ایک دوسرے کے حال احوال پوچھنے میں مگن تھا۔

نیازی صاحب نے خلجی صاحب سے کہا، خلجی! یہ کاظمی آج بچہ نہیں بنا ہوا ہے، جس پر ملک صاحب از راہ شرارت بیچ میں کود پڑے اور بولے ابھی پوچھتے ہیں ان سے اور کاظمی صاحب سے اشارتاً پوچھا، کیا دیکھ اور سن رہے ہو! جس پر کاظمی صاحب نے ردعمل دکھاتے ہوئے منہ پر اپنے ہاتھ کی انگلی رکھ کر ملک صاحب کو مخل ہونے سے روکا اور اشارتاً یہ بھی بتایا کہ، سننے کے بعد آپ سے شیئر کرتا ہوں، گویا ان کو یہ بتانا چاہ رہے ہوں کہ وہ کوئی خاص وِڈیو دیکھ اور سن رہے ہیں۔

کاظمی صاحب ابھی دونوں کانوں سے ہینڈ فری ہٹا ہی چکے تھے، کہ فیاض یوسفزئی پنڈال کے عین وسط میں آ کے بیٹھ گئے اور سب سے مصافحہ ختم کر چکے تھے اور کاظمی صاحب کی طرف ہاتھ بڑھانے ہی والے تھے کہ کاظمی صاحب نے ان سے بولا اچھا ہوا آپ آ گئے، ابھی ابھی میں مطیع اللہ جان کا وِڈیو دیکھ رہا تھا، وہ کہہ رہے تھے کہ ان کے جو اغوا کار تھے وہ پشتو بولنے کی کوشش کر رہے تھے جو کہ وہ پشتو بول نہیں سکتے تھے اور یہ تاثر دینا چاہ رہے تھے کہ ان کو پشتونوں نے اغوا کیا ہے، یہ کیا چکر ہے یہ پشتو، یہ پشتون، یہ اغوا کاری، یہ دہشت گردی، یہ سارے ڈانڈے اس طرف کیوں جاتے ہیں؟

جس پر فیاض یوسفزئی، کاظمی صاحب سے بڑے مؤدبانہ لہجے میں مخاطب ہوئے، کاظمی صاحب یہاں کون سا اور کس کا سکہ چلتا ہے، سب کو معلوم ہے، سکے دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک رائج الوقت اور دوسرا کھوٹا سکہ، اور ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں اور دونوں رخ ایک دوسرے کی پہچان، تعارف، شناخت اور متبادل ہوتے ہیں، ایک وقت تھا کہ، مجاہدین کا سکہ چلتا تھا، وہ کچھ بھی کر سکتے تھے اور ان سے کوئی بھی عمل منسوب کیا جا سکتا تھا اور وہ ذمہ داری بھی لے لیتے تھے اور لوگ مان بھی لیتے تھے، پھر بقول شخصے ان مجاہدین کے بچوں طالبان کا راج یا دور آیا اور ان کا سکہ چلنے لگا اور ان سے کوئی بھی عمل منسوب کیا جا سکتا تھا اور وہ ذمہ داری بھی لے لیتے تبے اور لوگ مان بھی لے لیتے تھے، اور یہ سلسلہ چلتے چلتے جتنا اپنے داخل میں وسیع ہوتا گیا اتنا ہی اپنے خارج میں سمیٹتا گیا اور یہ طالبان کا نام جو اسلام، ایمان، اور مسلمان تک پھیلا ہوا تھا یا پھیلایا گیا تھا، آتے آتے پشتونوں پر رکھ گیا اور طالبان فقط اور فقط پشتون بنا دیے گئے، اور اندرون یا بیرون ملک جو بھی دہشت گردی کا عمل ہوتا رہا، پشتونوں کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا اور اخر کار ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردی اور پشتونوں کو لازم ملزوم بنا دیا گیا۔

کاظمی صاحب پتا نہیں میں اپنی بات آپ کو سمجھا پا رہا ہوں کہ نہیں، لیکن آخری بات یہ، کہ سکہ کھوٹا ہو یا رائج الوقت یہ اہم نہیں ہیں اہم ان سکوں کے دونوں رخ ہیں، جس کا دکھایا تو ایک رخ جاتا ہے پر چلایا دوسرا رخ جاتا ہے، تاکہ اپ ڈیٹ اور اؤٹ آف ڈیٹ کا شک کا فائدہ اسانی سے اٹھایا جاسکے۔ جس پر کاظمی صاحب بولے خان صاحب آپ کی بات میرے سر پر سے گزر گئی، میں ککھ بھی نہیں سمجھا، جس کے رد عمل میں پنڈال میں ایک طنزیہ اجتماعی قہقہہ گونج اٹھا اور فیاض یوسفزئی ہکا بکا رہ گیا اور اپنے چہرے پر آئے ہوئے خفت کے اثار کو زائل کرنے کی جستجو میں لگ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments